ملک کی دو پارٹیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی سابق صدرپرویز مشرف پاکستانی سیاست کا ''ہاٹ ٹاپک‘‘ ہے۔ ملک کے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز پرویز مشرف کا تذکرہ کرتے نہیں تھک رہے۔ ان کی سیاست کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ سیاسی جماعتیں بالخصوص ایک سابق وزیراعظم ‘ پرویز مشرف کو اپنے ''ذاتی انتقام‘‘ کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ اقتدار کی راہداریوں میں خاموشی سے برپا یہ ''خونخوار لڑائی‘‘ کئی کہانیوں پر مبنی ہے۔
جب بے نظیر بھٹو مرحومہ نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو اس سے قبل ابوظہبی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں امریکہ ‘برطانیہ ‘متحدہ عرب امارات کے اہم نمائندے‘ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم کے رہنما اورحکومت پاکستان کے حکام شریک تھے۔ ایجنڈا یہ تھا کہ پاکستان میںپُر امن انتقال ِ اقتدار کا فارمولہ کیا ہونا چاہیئے ؟ گھنٹوں طویل بحث و مباحثے کے بعد یہ طے ہوا کہ 2008ء کے الیکشن میں بے نظیر بھٹو حصہ نہیں لیں گی کیونکہ آئینِ پاکستان کے تحت وہ تیسری بار وزیر اعظم نہیں بن سکتی تھیں، اس کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت تھی۔ ابو ظہبی کے اس اجلاس میں غیر ملکی ضامنوں (گارنٹرز) نے ذمہ داری لی۔ طے ہوا کہ بے نظیر بھٹو الیکشن کے تین ماہ بعد پاکستان واپس جائیںگی، پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے حامی ارکان مل کر قومی اسمبلی میں ترمیمی بل پیش کریں گے اور آئین کی اس شق کو ختم کریں گے جو بے نظیر بھٹو کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پیپلز پارٹی بے نظیر کی قیادت میں وزیراعظم ہائوس
جائے گی۔ جواباً پیپلز پارٹی کو پرویز مشرف کا نام صدر مملکت کی حیثیت سے پیش کرنا تھا اور انہیں منتخب بھی کرانا تھا لیکن بے نظیر بھٹو کی ایک ''عالمی سازش‘‘ کے تحت شہادت کے بعدفضا بدل گئی اور لہو کی ایک ایسی دیوار کھڑی ہوگئی جس سے اس وعدے کی تکمیل ناممکن ہوتی نظر آئی۔ آصف علی زرداری نے پہلے ایسا ماحول بنایا کہ یہ محسوس ہونے لگا پاکستان ٹوٹ ہو جائے گا۔ پھر دبئی کی ایک اہم شخصیت کو درمیان میں ڈال کر ''پاکستان کھپے‘‘ اور''حکومت کھپے‘‘ کا نعرہ لگا دیا گیا۔ آصف زرداری کی یہی لابنگ تھی کہ 6ماہ کے لئے انہیں صدر بنایا جائے تاکہ دبئی میں قیام کے دوران تمام زندگی سابق حکمران کی مراعات اور پروٹوکول حاصل کرتے رہیں۔ ابھی یہ جال بُنا جا رہا تھا کہ آصف علی زرداری نے نواز شریف کو اس بات پر راضی کر لیا کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے نکال دینا چاہیئے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بے نظیر کے وعدے کو بھی پسِ پشت ڈال دیا اور امین فہیم کو وزیر اعظم نہیں بنایا، سندھ کے لئے پاکستان کے تاج و تخت کا حصہ خالی رکھا۔ انہیںیہ علم تھا کہ پاکستان میں اگلی صدارت کے لئے کس سے وعدہ ہوا ہے اور''انٹرنیشنل گارنٹرز‘‘ مداخلت بھی کرسکتے ہیں۔ نواز شریف کا صرف ساتھ ہی نہیں لیا گیا بلکہ پنجاب اسمبلی میں مواخذے کی تحریک پیش کردی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایک دوافراد کو
مخبری کی گئی کہ ''مشرف آپ کو ہٹانا چاہتے ہیں‘‘۔ ادھرسادہ لوح پرویز مشرف ''میڈ اِن پاکستان‘‘ سیاستدانوں کو اپنی طرح''جینٹلمین‘‘ سمجھتے رہے، لیکن سیاستدان تو وعدے توڑنے کی لئے ہی کرتے ہیں اور پھر آصف زرداری کی طرح نواز شریف کو ترکی بہ ترکی کہہ دیتے ہیں کہ ''بھوربن معاہدہ کوئی قرآن یا حدیث تو نہیںجو پورا ہی کیا جائے‘‘۔ مشرف کے پاس سوچنے‘ سمجھنے کا وقت نہیں تھا، سیاستدانوں سے مذاکرات کرنے یا اپنا ایلچی بھیجنے کی مہلت بھی نہیں تھی کیونکہ پنجاب اسمبلی اکثریت کی تلوار سونت کر کھڑی تھی اور سندھ اسمبلی فوج کے ریٹائرڈ جرنیل کو ایوان اقتدار سے نکالنے کا ڈھول پیٹ رہی تھی۔ حالات اتنے کشیدہ کردیئے گئے کہ خود پرویز مشرف کے ادارے سے استعفیٰ ٹائپ کر کے بھیجا گیا جس پر انہوں نے خاموشی سے دستخط کردیئے۔
جب بے نظیر بھٹو نے پاکستان آنے کا اعلان کیا تھا تو سب سے زیادہ گھبراہٹ پرویز مشرف کو ہوئی تھی۔ ان کے ساتھیوں نے انہیں بتایا کہ سیاستدان ان کے ساتھ مخلص نہیں، وہ ''گیم ‘‘کر جائیں گے جس کے بعد مشرف نے بینظیر سے دبئی رابطہ کیا۔ تین بارکی کوششوں کے بعد فون پر بات ہوئی جس میں بے نظیر بھٹو نے مشرف سے کہا کہ ''میں پاکستان آنے کا اعلان کرچکی ہوں، اسے واپس کیسے لوں؟‘‘ مشرف نے یاد دلایا کہ ''ابوظہبی میں غیر ملکی ضامنوںکے رو برو آپ نے وعدہ کیا تھا کہ الیکشن کے 3 ماہ بعد وطن واپس آئیں گی، اس خلاف ورزی سے آپ اور میرے لئے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی‘‘۔ لیکن آخرکار بینظیر بھٹو نے انکار کردیا۔
18 اکتوبر2007ء کو بینظیر بھٹو کا وطن واپسی پر جو استقبال ہوا وہ تو تاریخ کا حصہ ہے لیکن گھر پہنچنے سے پہلے کار ساز کے مقام پر قاتلانہ حملے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا جس میں180افرادد شہید ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد بلاول ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے دبئی واپس جانے کا اعلان کیا اور کہا کہ ''میں دبئی اور پاکستان آتی جاتی رہوں گی‘‘۔ اس دوران اخبارات میں پر اسرار بیانات بھی شائع ہوئے کہ ''بینظیر اگر پنجاب گئیں تو مار دی جائیں گی‘‘۔ ان بیانات کی اشاعت کے بعد بے نظیر دوبارہ پاکستان آئیں، اپنے والد کی قبر پر گئیں، فاتحہ پڑھنے کے بعد وہ تین ‘چارفٹ پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوئیں اور کہا کہ ''اگر میں ماری جائوں تو مجھے یہاںدفن کیا جائے‘‘۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو نے لاڑکانہ شہرکا دورہ بھی کیا، پکوڑوں کی ایک دکان پر گئیں، پکوڑے خریدے‘ کھائے اور کہا: ''میں سڑک پر کھڑی ہوں، جس کو مارنا ہے مجھے ماردے‘‘۔ بینظیرکی وطن واپسی پر ان کو راستے سے ہٹانے کی سازشیں شروع ہوگئیں اور اس واقعے پر بینظیر بھٹو سے زیادہ پرویز مشرف پریشان تھے کہ اگر شطرنج کی یہ بساط پلٹ گئی تو ان کی صدارت کہاں جائے گی؟
پاکستان کی سیاست میں گزشتہ سات‘ آٹھ سال سے ایک سوال منڈلا رہا ہے کہ جن غیر ملکی ضامنوں نے پرویز مشرف کو پاکستان کا صدر بنانے کا وعدہ کیا تھا، کیا وہ اب بھی اس وعدے پر قائم ہیں؟ کیا مشرف کی باری پھرآنے والی ہے؟ کیا ایوان صدر میں کرسی ان کا استقبال کرے گی؟ گارڈ آف آنر ملے گا؟ پاکستان میں سیاسی بے چینی ختم کرنے کے لئے فوج کا کوئی نمائندہ اقتدار میں شریک ہوگا یا نہیں؟ اب تو برما میں بھی فوج کے سربراہ کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مصر میں سیاستدانوں کی قدامت پرستی اور سخت گیر رویہ کی وجہ سے فوج قابض ہے۔ کیا پاکستان میں کرپشن کے دلدل میں پھنسی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملائے بغیر حکومت کرسکیں گی؟ کرپشن نے سول حکومت کی اتھارٹی ختم کردی ہے۔ پہلے ہزاروں‘ لاکھوں کی کرپشن ہوتی تھی، آج کل معاملہ کروڑوں سے بھی نکل کر اربوں روپے تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستانی روپیہ اتنا تو نہیں گرا کہ اربوں روپے ڈکارنے کے بعد بھی ''سلسلہ ہائے لوٹ مار‘‘ جاری و ساری رہے۔