"ISC" (space) message & send to 7575

دبئی چلو یا نہ چلو....!!

متحدہ عرب امارات کے اتحاد میں سات ریاستیں شامل ہیں اور اِن میں دبئی کو انتظامی، معاشی اور سماجی ترقی کے تناظر میں ایک مخصوص مقام حاصل ہے... اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 158 ملکوں میں اچھی اور مناسب زندگی کے حامل شہروں میں دبئی کا مقام بیسواں ہے جبکہ عرب ورلڈ میں یہ پہلی پوزیشن پر ہے...لیکن اب دبئی کے حالات تبدیل ہورہے ہیں۔پاکستان اور بھارت سمیت کئی ممالک میں کرپشن کے خلاف مہم نے دبئی کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے۔چونکہ دبئی پاکستان اور بھارت کے ''منی لانڈرنگ لارڈز‘‘کی جنت ہے اس لئے جب ہر طرف رکاوٹیں لگنا شروع ہوئیں تو دبئی کی معیشت بھی لرزنے لگی ہے۔ دبئی کی رونقیں پردیسیوں کی آمد سے مشروط ہیں جو آنکھ بند کرکے سرمایہ لٹاتے ہیں اور ماڈل گرلز کی خفیہ جیبوں میں چھپا کر سرمایہ پردیس منگواتے ہیں ۔دبئی میں پراپرٹی کی خریداری میں پاکستانیوں کا تیسرا نمبر ہے ۔ 2013 ء سے اب تک پاکستانیوں نے 6 ارب 60 کروڑ ڈالر دبئی میں جائیداد کی خریداری پر خرچ کر ڈالے ہیں۔ سال 2015 ء میں پاکستانیوں نے دبئی میں پراپرٹی کی خریداری کے 6106 سودے کیے جو 2014 ء کے مقابلے میں 20 فیصد زائد ہیں۔ صرف ایک سال میں پاکستانیوں نے دبئی میں 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کی زمین ، گھر ، فلیٹ اور دکانیں خریدیں۔پراپرٹی کی خریداری میں پہلے نمبر پر برطانوی شہری اور دوسرے نمبر پر بھارتی شہری ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2013 ء سے اب تک جتنی رقم پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض نہیں لی اس سے زائد رقم کی پراپرٹی جس کی مالیت 6 ارب 60 کروڑ ڈالر بنتی ہے، پاکستانیوں نے دبئی کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں خرچ کر ڈالی۔ پاکستانیوں کا یہ پیسہ دبئی کی اکانومی کاپہیہ تیزی سے گھماتا ہے لیکن کرپشن کیخلاف ''مہم‘‘ نے سب کچھ روک دیا ہے ۔ اب کراچی اور لاہورسے منی لانڈرنگ کے ذریعے دولت کی دبئی ''روانگی‘‘رک گئی ہے ۔حوالے کا کام کرنے والے قدم قدم پر پکڑ کی وجہ سے قومی دولت بیرونِ ملک منتقل کرنے کا رسک نہیں لے سکتے ۔نئے اور سخت اقدامات کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان کا سرمایہ پاکستان ہی میں رکا ہوا ہے کہ اب وہ پاکستان میں سرمایہ کار کے کام آئے گا ۔ڈالر کو فی الحال مستحکم تو نہیں کہہ سکتے لیکن ڈالر کی قیمت اب مزید اونچی نہیں ہورہی اور ڈالر نے اب پہلے والی ''اچھل کود‘‘بھی بند کردی ہے۔
ایران پر سے ہٹنے والی پابندیوں اور تیل کی پیداوار میں اضافے نے عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔سعودی عرب اپنے آپ کو معاشی میدان میں ترقی یافتہ ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اپنے اربوں پیٹرو ڈالرز کو لٹانے کی وجہ سے اس کا خزانہ خالی ہوچکا ہے۔علاقائی رقیبوں کو پچھاڑنے کے لیے سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں کو نچلی سطح پر باقی رکھا مگر اس کی وجہ سے اب وہ خود ہی بحرانی حالات سے دوچار ہوگیا ہے ۔گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لیے چند دنوں پہلے سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان نے معاشی اصلاحات کا اعلان کیا تھا۔ سعودی عرب کے معاشی بحران کے بعد اب خبر آئی ہے کہ سعودی بن لادن گروپ نے 50 ہزار غیرملکی ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ سعودی عرب سے شائع ہونے والے روزنامہ الوطن نے اپنے ذرائع سے نقل کیا ہے کہ''بن لادن گروپ نے اپنے 50 ہزار ملازمین کے ایگریمنٹس کو منسوخ کردیا ہے اور انہیں ایگزٹ ویزا بھی دے دیا ہے تاکہ وہ ملک چھوڑ دیں‘‘ ... سعودی روزناموں کے مطابق یہ قدم عالمی منڈی میں تیل کی مسلسل گرتی ہوئی قیمت اور سعودی عرب کی مالی مشکلات کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے... آخری اطلاعات تک بے روزگار ہونے والے50ہزا رملازمین سڑکوں پر آگئے ہیںاور احتجاجاً کئی بسوںکو آگ لگادی گئی ہے۔
دبئی بیک وقت دو مختلف قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی تیاری کررہا ہے، اول سیاحوں کی آمد میں کمی اور دوئم سخت گرمی کی آمد... قابل برداشت حد تک گرمی دبئی کی سوغات سمجھی جاتی ہے اور یورپ نے اس کا نام سن سٹی(چمکتے سورج کا شہر) رکھا ہے لیکن اتنی گرمی کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا کہ سن اسٹروک'' اٹیک‘‘ کردے اور آدمی تفریح کے بجائے ڈاکٹروں کی مسیحائی کے رحم وکرم پر ہو جائے۔گزشتہ ہفتے میں دبئی میں تھا کہ دبئی کے ٹیکسی والے نے شکوہ کیا کہ اپریل کا مہینہ جارہا ہے لیکن سیاحوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں50فیصد تک نہیں پہنچی۔گلے مہینے گرمی بڑھ جائے گی اور سیاحوں کی تعداد ''آٹو میٹک‘‘ مزیدکم ہو جائے گی۔ وہ اس کو پاکستان اور بھارت کے سیاسی حالات اور کرپشن کیخلاف مہم کا نتیجہ قرار دے رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہی حالات رہے تو دبئی کی رونق اور خریداری پربرا اثر پڑے گا۔ دبئی لاکھوں دکانوں میں گھر ا ہوا شہر ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ دبئی حکومت کو اس سلسلے میں گزشتہ سالوں کی طرح ملتے جلتے اقدامات کرنے چاہئیں جبکہ ایک ٹریول ایجنسی کے افسر نے بتایا کہ ایک ''ائیر عربیہ ‘‘ائیر لائن نے 25ہزار روپے میں کراچی سے دبئی کا ٹکٹ بمعہ ویزا دینا شروع کر دیا ہے۔ دس ہزارروپے کا ویزا نکال دیا جائے تو یہ پندرہ ہزار روپے ٹکٹ بنتا ہے جوکراچی سے لاہور کے ریٹرن ٹکٹ سے بھی زیادہ سستا ہے۔ دبئی میں فروخت ہونے والی اشیاء خاص طور پر کاسمیٹکس‘ خواتین کے استعمال کی چیزیں‘ کپڑے اور ادویات کراچی میں سستے داموں دستیاب ہیں ۔ جو پرفیوم دبئی مارکیٹ میں ایک ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے وہ کراچی میں 600روپے میں دستیاب ہے۔ دبئی میں چیزیں مہنگی نہیں ہیں، کبھی تو یہ چیزیںبہت سستی ہوتی تھیں لیکن اب دکان، مکان کا کرایہ، لائسنس فیس اور ویزے کی فیس آہستہ آہستہ اتنی بڑھ گئی ہے کہ دکان دار کو اپنی اشیاء مہنگی کرکے فروخت کرنا پڑرہی ہیں اور اس کے اثرات دبئی کی معیشت پر تیزی سے آرہے ہیں۔ دبئی کراچی سے آٹھ سو ہوائی میل کے فاصلے پر ہے‘ اس لئے دبئی کے اثرات کراچی پر اور کراچی کے اثرات دبئی پر پڑتے ہیں۔ صرف ایک ائیر لائن کی کراچی سے دبئی کیلئے روزانہ5پروازیں ہیںجبکہ روزانہ کل پروازیں تیرہ سے چودہ کے قریب ہیں لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے دبئی کی رونقوں پر حملہ کردیا ہے۔ اس کاتعلق کراچی سے نہیں ہے لیکن کراچی والے لاہورسے سے بھی کم فاصلے پر موجود ایک انٹرنیشنل شہر( دبئی )سے خود کو دور ہوتا ہوا محسوس کررہے ہیں۔ پہلی بار یہ ہواہے کہ دبئی حکومت یہ منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ روٹھے ہوئے سیاحوں کوواپس لانے کیلئے کیا اقدامات کئے جائیں۔ابتدائی طور پر ویزے کی فیس50درہم (تقریباً 1500روپے) کم کرد ی گئی ہے جو یہ پیغام دے رہی ہے کہ دبئی کے حکام اس مسئلے پرسنجیدگی سے غور و خوض کررہے ہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں