"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی کے ووٹرکہاں ہیں۔۔۔۔؟

کراچی کے دو صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخاب ہوئے، نتیجہ وہی آیا جس کی توقع تھی۔۔۔۔ ایم کیو ایم ایک بار پھر کامیاب ہوگئی۔ محفوظ یار خان اور قمر عباس رکن سندھ اسمبلی بن گئے۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہوا لیکن حیران کن بات ضمنی انتخاب کا انتہائی کم ٹرن آئوٹ ہے، صرف 10فیصد! ''ووٹ کاسٹنگ‘‘ کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ان حلقوں میں ووٹنگ کی شرح 50 فیصد تھی، اب پی ایس 106میں 11.52اور پی ایس 117میں 9 فیصد ووٹرہی گھروں سے نکلے جن میں خواتین کی شرح صرف 6 فیصد ہے۔ پی ایس 106میں تقریباً پونے دو لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں جن میں سے صرف 19ہزار961 ووٹر پولنگ بوتھ تک گئے۔ اس حلقے میں کامیاب امیدوار کے علاوہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کے امیدوار ضمانت ضبط کروا بیٹھے۔ یہاں سے افتخار عالم 75 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے اور تحریک انصاف کو10ہزار ووٹ ملے تھے۔ اس حلقے سے ایم کیو ایم کو 75 اور تحریک انصاف کو 85 فیصدکم ووٹ ملے۔ اسی طرح پی ایس117میں ایک لاکھ 63 ہزار ووٹر رجسٹرڈ ہیں لیکن ان میں سے صرف 14ہزارووٹ ہی کاسٹ ہوئے۔ ایم کیو ایم کے امیدوار 10ہزار 738 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ اس حلقے میں بھی 40 فیصد کم ووٹ کاسٹ ہوئے۔ یہاں سے ڈاکٹر صغیر احمد کو 43 ہزار جبکہ تحریک انصاف کو 21 ہزارووٹ ملے تھے۔
تحریک انصاف نے2013ء میں جتنے ووٹ لئے اب وہ دور دور تک ان کے قریب بھی نہیں آپا رہی۔ تبدیلی کے نام پر کراچی کے ووٹر بھی ''تبدیل‘‘ہوئے اور تحریک انصاف کو واقعی بہت ووٹ مل گئے لیکن آج اس کی حالت جماعت اسلامی جیسی ہوگئی ہے۔کراچی والوں نے تھوڑا ''مینڈیٹ‘‘ بھی واپس لے لیا۔ کراچی کے ووٹ اس وقت بیلٹ بکس کے بجائے گھروں میں موجود ہیں۔ آنے والے عام انتخابات میں پورے ملک کا نتیجہ کچھ بھی ہو کراچی کا نتیجہ ماضی سے مختلف ہو سکتا ہے۔
ضمنی انتخابات میں ٹرن آئوٹ کم ضرور ہوتا ہے لیکن وہ 10فیصد تک نہیں گرتا۔ سنجیدہ حلقے کراچی کو ''مکمل فٹ‘‘ قرار نہیں دے رہے، کم ٹرن آئوٹ کو''لوبلڈپریشر‘‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ کراچی کی سیاسی نبض کی رفتار بھی ''سلو‘‘ ہوگئی ہے۔ سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اس وقت کراچی میں دس ضمنی الیکشن کرا لیں نتیجہ اور ٹرن آئوٹ یہی ہوگا۔ پاک سر زمین پارٹی کے رہنما مصطفی کمال نے دعویٰ کیا ہے کہ ''کراچی کے شہریوں نے ہماری بات سن اور سمجھ لی ہے، وہ گھروں سے باہر نہیں نکلے، رکا ہوا مینڈیٹ 2018ء کے انتخابات میں حصہ لے گا‘‘۔ ایم کیو ایم کے دانشور یہ منطق پیش کرتے ہیں کہ جب تک مقابلہ ٹکر کا نہ ہو مہاجر ووٹر ''گرم‘‘ نہیں ہوتا، یک طرفہ مقابلے میں ٹرن آئوٹ کم رہنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں، کانٹے کا مقابلہ جب بھی ہوگا لوگ گھروں سے خود بخود باہر نکل آئیں گے۔
ایک نظر کراچی کے ووٹرز پر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ان کی ضروریات، مطالبات اور خدشات کیاہیں؟ کراچی کے ووٹرز مایوس بھی ہیں اور بد دل بھی۔گھر میں ہوں تو بجلی اور پانی میسرنہیں، باہر نکلیں تو سڑکیں سیوریج کے پانی سے بھری ہوتی ہیں، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں۔ تعفن زدہ ماحول میں گھٹن کے شکار کراچی کے شہری سب کو آزما چکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی ووٹ ڈالے ہوئے آٹھ ماہ گزرگئے لیکن اختیارات کی منتقلی ''مسئلہ کشمیر‘‘ بنتی نظر آرہی ہے۔ لوگ میئر‘ چیئرمین اور کونسلر زکے چہرے اور نام بھی بھولتے جا رہے ہیں۔ حکومتیں مسلسل توہین عدالت کی مرتکب ہو رہی ہیں لیکن اب وہ زمانہ کہاں کہ ''سوموٹو نوٹس‘‘بھی لئے جائیں۔ اب تو چیئرمین اور کونسلر حضرات کو بھی یہ لگ رہا ہے کہ اختیارات کی منتقلی ہوتے ہوتے کہیں دوبارہ الیکشن کی تاریخ نہ آ جائے۔
شہری بھی حیران ہیں کہ روشنیوں کے شہر کو کس کی نظر لگی جو کچرے کا ڈھیربن گیا۔ فلائی اوورز میں گڑھے پڑ رہے ہیں۔ ہر شاہراہ پر ٹریفک جام رہتا ہے۔ تعمیراتی منصوبے ادھورے پڑے ہیں۔ انڈرپاسز زیر تعمیر ہیں۔ لوگ چھ گھنٹے لوڈشیڈنگ کے عادی ہوجائیں تو دورانیہ ڈبل کردیا جاتا ہے۔ پہلے پانی کا ہفتے میں ایک دن ناغہ تھا، اب تو مہینے میں ایک دن پانی ملتا ہے۔ تعلیم کا حال بھی بدحال ہے، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کا رش دیکھ کر لگتا ہے کہ آدھا کراچی بیمارہے۔ دھول مٹی کراچی والوں کا مقدر بن گئی ہے، صبح دفتر جانے والا شام کو گھر آئے تو اہل خانہ پہچان نہیں سکتے۔ کیا اس لئے کہ یہ عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر ہے؟کیونکہ یہ منی پاکستان ہے ؟ کراچی کو وفاق اور سندھ حکومت سے کیا چاہیے؟ اس سوال کا جواب قائم علی شاہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور میاں نواز شریف بھی، لیکن کراچی کو ایسا کیا چاہیے جو نہیں دیا جاتا۔ یہ معلوم کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں۔ اٹھارویں ترمیم سے قبل کراچی کو بجٹ میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل جاتا تھا لیکن اب تو کھرچن بھی نصیب نہیں ہو رہی۔
ملک بھر میں گڈگورننس نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے لیکن کراچی میں تو گورننس ہی نظر نہیں آرہی۔ دو ماہ میں دوکمشنر تبدیل ہوچکے ہیں۔ صوبائی وزیر بلدیات سے اختلاف کتنا مہنگا پڑسکتا ہے، یہ کوئی آصف حیدر شاہ سے پوچھے ۔کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ واٹر ٹینکر مافیا سڑکیں بلاک کردیتا ہے اورعوام پانی کے بحران کے ساتھ ٹریفک جام کا بھی نشانہ بنتے ہیں یعنی یک نہ شد دو شد!
ایسے کئی مسائل ہیں جن کا مقابلہ تن تنہا کراچی شہر کر رہا ہے۔ اس کا ساتھ دینے کے لئے نہ سندھ حکومت آگے بڑھتی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت اپنی''جیب‘‘ میں ہاتھ ڈالتی ہے۔ ایسے حالات میں''انتخابی ٹرن آئوٹ‘‘ کے ساتھ ''عوامی ٹرن آئوٹ‘‘ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔
اگر اسی طرح کراچی تباہ ہوتا رہا تو پاکستان کا سب سے بڑا معاشی حب نہ صرف برباد ہوجائے گا بلکہ ٹیکس کی انکم دن بدن کم اور غیر ملکی قرضوں کی شرح روز بروز بڑھتی جائے گی۔ کراچی کی تباہی اور بربادی جس شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کاش اس کا احساس حکمرانوں کوبھی ہوتا۔ کراچی پاکستان کے لئے وسائل کا سرچشمہ ہے اور کراچی کی تباہی خدانخواستہ کہیں پاکستان کو پیچھے بلکہ بہت پیچھے نہ لے جائے۔کراچی سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے اور اگر یہ مرغی مرگئی تو عام فارمی انڈہ بھی نہیں مل پائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں