لاوارث ‘ یتیم ‘ لاچار‘ بے بس اور احساس محرومی کے شکار شہرکراچی کو ایک اور ''جھٹکا‘‘دے دیا گیا۔سندھ کابجٹ تو آیا لیکن سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے علاوہ اس میںکسی کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔۔۔نہ کوئی ترقی اور نہ ہی ترقیاتی بجٹ۔کراچی کے ساتھ سوتیلا سلوک ایک نئی توانائی کے ساتھ نہ صرف برقرار رکھا گیا بلکہ اس میں کچھ اضافہ بھی کیا گیا۔ حسب معمول نئے بجٹ میں کراچی کے لئے کوئی نیا میگا پروجیکٹ نہیں رکھا گیا، پرانے پروجیکٹس کو نئے بجٹ میں شامل کرکے شہر قائد کے عوام کو ''ماموں‘‘ بھی بنایا گیا۔ سندھ حکومت نے کراچی کے شہریوں کے ساتھ ایک عجیب اورخوفناک گیم کھیلی۔ سندھ کابجٹ صرف نام کا ہی نیا بجٹ ہے اس میں کراچی کے لئے کوئی نیا عوامی منصوبہ موجود نہیں۔ سندھ حکومت نے پرانے اور تاخیرکے شکار میگاپروجیکٹس میں ردوبدل کرکے انہیں نئے بجٹ میں شامل کردیا اور اس طرح کراچی کے عوام کے ساتھ'' ڈبل گیم‘‘ کھیلی گئی۔ کراچی کے ان ''پرانے منصوبوں‘‘ میں ٹرانسپورٹ، واٹر سپلائی، سیوریج اور ویسٹ مینجمنٹ پروگرام شامل ہیں۔ جس منصوبے کا سن سن کر کان پک گئے تھے وہ پانی کا''عظیم منصوبہ‘‘ کے ـ4 ڈھائی ارب روپے حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جبکہ دھابیجی سے10 کروڑ گیلن کے نئے پمپنگ ہاؤس کے لئے 1 ارب 40 کروڑ روپے اور ملیر15پر تین لائن کے فلائی اوورکی تعمیر کے لئے مزید 53کروڑ26لاکھ مختص کیے گئے۔ مہران ہوٹل پر نصرت بھٹو انڈر پاس پر 22 لاکھ روپے،کورنگی کراسنگ پر فلائی اوور کی تعمیر کے لئے 10کروڑ12لاکھ، نیشنل ہائی وے سے جناح ٹرمینل فلائی اوورکی مرمت کیلئے19کروڑ 63لاکھ، کچرا اٹھانے کے نظام کے6 اسٹیشن کی تعمیر کے لئے ایک ارب79کروڑروپے، بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم اورنج لائن کے لئے دو ارب 8کروڑ روپے اور ریڈلائن کے لئے 60کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے پروجیکٹ ایک بار پھر بجٹ میںشامل ہے،اس پروجیکٹ پرمجموعی لاگت 262 ارب روپے آئے گی اور اس کے لئے غیر ملکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا جائے گا۔ کراچی کے سول اسپتال میں ایمرجنسی اور ٹراما سینٹر کے لئے 1 ارب 32 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ ہیپاٹائیٹس سے بچاؤ پروگرام کے لئے 87 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
کراچی ملک کو 70فیصدریونیو دینے والا عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن اس کا ترقیاتی بجٹ ایک موبائل کمپنی کے سالانہ بجٹ سے بھی کئی گنا کم ہے۔دارالحکومت کی منتقلی سے گوادر منصوبے تک کراچی کے ساتھ زیادتیوں کی ایک سلسلہ وار طویل ترین داستان ہر شہری کو ازبر ہوچکی ہے۔
بے شمار مضامین میں کراچی کی محرومی کا رونا روتے روتے قلم بھی خشک ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں کے کان کس ''چکنی مٹی‘‘ سے بنے ہیں کہ کوئی جوں وہاں سے رینگنا تو دور آنا گوارا نہیں کرتی۔کراچی کا غم اورکرب کراچی میں رہنے والے گورنرسندھ‘ وزیراعلیٰ سندھ اور کابینہ کے ارکان بھی محسوس نہیں کرتے، سمجھ نہیں آتا کہ ان عہدوں میں ایسا کیا ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر سفر کرنے کے باوجود ان کا مستقبل قسمت اور تعطل کی گود میں ڈال دیا گیا ہے۔
سندھ کے بجٹ کی ایک اور خاص بات اس میں شامل ترقیاتی منصوبوں کے نام ہیں ۔سائیں سرکار نے کوئی منصوبہ بانی پاکستان ‘ مادرملت سمیت کسی ایسی شخصیت کے نام پر نہیں رکھا جس کا تعلق لاڑکانہ اورنوابشاہ سے نہ ہو۔ بلاول، آصفہ اور نصرت بھٹو سے شروع ہونے والے منصوبے فریال تالپور کے نام پر ختم ہوتے ہیں۔۔۔۔کیاعجیب جمہوریت ہے! خاندان سے شروع ہوکر خاندان پر ختم ہوجاتی ہے! ایک طرف شریف ہیں تو دوسری جانب بھٹو اور زرداری۔۔۔۔ موروثی سیاست کا کینسر ہماری لولی لنگڑی جمہوریت کو ایسے کھا رہا ہے جیسے لکڑی آگ کو کھاتی ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ ''خاندانی سیاست ‘‘ کا دیمک زدہ نظام اپنے ساتھ کئی بڑے ناموں کولے کر گر جائے گا۔
کراچی کی ترقی کچھ عرصہ پہلے رک گئی تھی لیکن اسے ''ریورس گیئر‘‘ اٹھارویں ترمیم نے لگایا۔ عظیم شہر کی بدقسمتی تو دیکھیے! پہلے وفاق میں پیپلز پارٹی سینہ پھلائے ترقی کے سامنے کھڑی تھی تو اب وہی پیپلز پارٹی اٹھارویں ترمیم کی پاورز کے ساتھ صوبائی حکومت کے طور پر آڑے آئی ہوئی ہے۔ فریادکس سے کی جائے ؟ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہر کے لئے 10ارب روپے رکھنے والوں کی سوچ کو ''کراچی دشمنی ‘‘کے سواکیا نام دیا جائے۔ اس سے زیادہ تو وفاقی حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز کے لئے سبسڈی پیکج دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں اور سندھ حکومت نے حیدرآباد کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ بجٹ میں حیدرآباد کو بھی یکسر نظر انداز کیا گیا ہے، تو کیا ہم
چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی سے کسی سوموٹو ایکشن کی توقع رکھیں یا اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا جائے! سندھ میں ایک بڑی اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم اپنے معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ گرینڈ الائنس کبھی جوش میں آتا ہے اور کبھی کئی ہفتے اس کی کوئی خبر ہی نظر نہیں آتی۔ وفاق میں تو عمران خان کی صورت میں جیسی تیسی اپوزیشن موجود ضرور ہے لیکن سندھ میں تو یہ سہولت بھی میسر نہیں۔
کراچی میں سندھ حکومت کی اس بے اعتنائی سے 1945-46ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کی مشترکہ حکومت کی یاد تازہ ہوگئی جب لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ مسلم اقلیتی صوبوں کے لئے فنڈز میں تقریبا 2 کروڑ روپے کا اضافہ کیا جائے جس پر ولا بھائی پٹیل نے تمسخر اڑایا اور کہا کہ ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں ایک ہندو اور دوسری انگریز۔اس پر مسلمان رہنما نے ولا بھائی پٹیل کو زناٹے دار تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا کہ ''جھوٹ! ہندوستان میں تین قومیں بستی ہیں مسلمان‘ہندو اور انگریز‘‘۔ ان چھوٹے چھوٹے واقعات نے اُس ہندوستان کو تقسیم کردیا جس کے لئے گاندھی جی کہا تھا کہ ''ہندوستان ہماری ماں ہے اور ماں کیسے تقسیم ہوسکتی ہے؟‘‘۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ ماں نہ صرف تقسیم ہوئی بلکہ دولخت بھی ہوگئی۔ سب کی خواہش ہے کہ اللہ نہ کرے سندھ تقسیم ہو لیکن لگتا ہے کہ بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی اور سندھ کی تقسیم ٹل نہیں سکتی۔