سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔
الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ پولیس کی سربراہی میں اسد کھرل کو رہا کروا لیا گیا۔ اس کے بعد سندھ حکومت کو پیغام بھیجا گیا کہ اپنے وزیرداخلہ کو فوری طور پر تبدیل کردو، لیکن یہ بات ''وڈیرہ شاہی‘‘ کو اچھی نہ لگی۔ ان کی شان و شوکت نے اس مشورے کو تسلیم نہ کیا۔ ٹال مٹول شروع ہوگئی۔ رینجرز کے اختیارات کی تاریخ میں اضافے کا ہلکا پھلکا تنازع دوبارہ پیدا ہوا۔ وزیر اعلیٰ کور کمانڈر سے ملاقات کے لئے گئے تو ان کے ہمراہ وزیرداخلہ بھی تھے، کور کمانڈر نے ان کے لئے گرم جوشی کا مظاہرہ نہ کیا۔ وزیرداخلہ ہاتھ بھی نہ ملاسکے۔ اس طرز عمل کو پہلے سندھ حکومت اور جلد ہی دبئی میں بیٹھے ہوئے ''سندھ کے حقیقی حکمران‘‘سمجھ گئے۔ فیصلہ ہوا کہ وزیرداخلہ کو معزول کرنے کی بجائے وزیراعلیٰ کو ہی فارغ کردیا جائے، اس طرح وزیرداخلہ سہیل انور سیال بھی خود بخود وزارت سے ہٹ جائیں گے اور فریال تالپور کے لئے شرمندگی کا کوئی موقع بھی پیدا نہیں ہوگا۔
ڈیڑھ سال سے بلاول بھٹو زرداری کی خواہش تھی کہ مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ جس وقت بلاول بھٹو نے ان کا نام پیش کیا تھا تو ان دنوں آصف علی زرداری کا خیال تھا کہ بلاول بھٹو ابھی سندھ کے ''سیاسی تالاب‘‘ میں کم تجربہ کار ہے۔ وہ سب کو جانتا اور سمجھتا نہیں ہے۔ لیکن اب بلاول بھٹو سب کو پہچان گیا ہے، سیکھ گیا ہے، سب کی'' قیمت اور طاقت ‘‘کا بھی اسے اندازہ ہوگیا ہے۔ دبئی اجلاس سے قبل بلاول بھٹو نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا تھا جس میں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ، مراد علی شاہ، وزیرداخلہ اور کابینہ کے دیگر ارکان موجود تھے۔ اجلاس میں رینجرز کے اختیارات کا معاملہ بھی اٹھا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ میں نے فائل دیکھی ہے، اس کے مطابق سندھ حکومت نے رینجرز کو صرف کراچی میں شہری انتظامیہ کی مدد کے لئے بلایا ہے۔ سندھ میں لاء اینڈ آرڈر کا ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے کہ پولیس اس پر قابو نہ پا سکے۔ پتا نہیں آپ لوگ، خاص طور پر قائم علی شاہ صاحب رینجرز کی کیوں اتنی تعریف کر رہے ہیں۔ بلاول صاحب نے کہا کہ سندھ حکومت نے اندرون سندھ کے لئے رینجرز کو کبھی پاورز نہیں دیں۔ اس میٹنگ میں بلاول بھٹو نے ایک تلخ جملہ ٹھنڈے لہجے میں بولا۔ سمجھنے والے سمجھ گئے کہ بات اتنی آسان نہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے اچانک سوال کیا: آپ لوگ رینجرزکی بہت تعریف کر رہے ہیں، کیا آپ لوگ ان کے ساتھ ہیں یا سندھ حکومت کے ساتھ؟اس پر سناٹا چھاگیا اور فیصلہ ہوا کہ دبئی چلتے ہیں اور ''بڑے صاحب‘‘ سے مشورہ کرتے ہیں۔چنانچہ سب نے دبئی جانے کی تیاری شروع کردی۔
دبئی کے اجلاس میں زرداری صاحب نے ایک بڑے ڈرامے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے سندھ حکومت کے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ سنایا اور بلاول بھٹو کو موقع دیا کہ وہ اپنے کھلاڑی (مراد علی شاہ) کو میدان میں لے آئیں اور چپکے چپکے اسٹیبلشمنٹ کا یہ مشورہ بھی مان لیا کہ وزیرداخلہ کو کابینہ سے خارج کرو۔ یہ سب کچھ اس طرح ہوا جیسے ایک ٹیسٹ میچ میں پھنسی ہوئی ٹیم بارش کا فائدہ اٹھا کر''میچ ڈرا ‘‘ کرنے کا اعلان کرتی ہے اور ناکامی کی شرمندگی سے بچ جاتی ہے۔
آصف زرداری نے سندھ کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے اعلان کی آڑ میں اپنی یہ بات بھی خاموشی سے منوالی کہ رینجرز کو اختیارات کراچی تک دیے جائیں گے اور رینجرزکو ان کے آبائی علاقوں اور حلقہ انتخاب میں بنائے گئے سیٹ اپ میں مداخلت کرنے کا موقع نہیں دیاجائے گا، رینجرز کراچی میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں۔ سندھ حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ان کی موروثی ریاست میں کوئی مداخلت ہو اور کوئی آکر جاگیرداروں کی طاقت کو چیلنج کرے۔ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے بعد یہ سوالات بھی پیدا ہوگئے کہ اپیکس کمیٹی کا کیپٹن (سربراہ) کون ہوگا؟ اسے رینجرز کے معاملات کو سمجھنے میں کتنے دن لگیں گے۔ نیا وزیرداخلہ کون ہوگا؟ اور اس کے رینجرز سے معاملات کس طرح چلیں گے؟ نیا وزیراعلیٰ کراچی کے اردو بولنے والوں کے ساتھ کیسا برتائو کرے گا؟ کیا وہ انہیں کابینہ میں شامل کرے گا یا قائم علی شاہ کی طرح سو فیصد سندھی حکومت تشکیل دے گا؟ بہت سارے سوالات ہیں جن سے نئے وزیراعلیٰ کو نمٹنا ہے، سمجھنا ہے اور ایک نئی بنیاد ڈالنی ہے ۔ لیکن ایک آخری بات۔۔۔۔ اسلام آباد میں غیب کا علم جاننے والوں اور ''فرشتوں‘‘ سے رفاقت کی شہرت رکھنے والوں کو زرداری صاحب نے قائم علی شاہ کو قربانی کا بکرا بناکر مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ وہ کہتے تھے''سندھ حکومت جلد جانے والی ہے‘‘۔ اس تبدیلی کے بعد ان کو ''گورنر راج ٹائپ‘‘ کا کوئی ایکشن لینے میں وقت نہیں لگے گا؟ یا انڈہ آملیٹ فوراً تیار ہو جائے گا؟