نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میںتقسیم ہوگیا ہے ۔سندھ میں ''خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم اسی اصول کے تحت ہوگی ۔پیپلز پارٹی نے حالیہ حکومت کی تشکیل میں نہ صرف کراچی کے اردو بولنے والوں کو نظر انداز کیا بلکہ اپنے تین ارکان صوبائی اسمبلی کو بھی ''لفٹ‘‘ہی نہیں کرائی۔قیام ِ پاکستان سے قبل جب سندھی ہندوئوں کا سیاسی اقتدار میں60فیصد کوٹہ تھاتو کوئی مسلمان سندھی وزیراعلیٰ بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔جس کے بعد ایوب کھوڑو نے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بارے میں کتا ب لکھی تھی ۔قائد اعظم نے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک کی وکالت کی۔ محمد علی جناح ہی وہ طاقت تھے جس کی وجہ سے سندھ بالآخر بمبئی سے الگ ہوگیااور سندھ بلوچستان ایک صوبہ بن گیا۔1970ء میں جب یحییٰ خان نے ون یونٹ کا خاتمہ کیاتو بلوچ قوم پرستوں کی جدوجہدبھی رنگ لے آئی اور بلوچستان الگ صوبہ بنا اُس وقت بلوچستان کی آبادی تقریباً 24لاکھ تھی ۔
ایک بار پھر وہی مرحلہ آگیا ہے ۔سندھی سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ کراچی کو ''پنکچر ٹائر‘‘ کی طرح ڈگی میںرکھ دیتے ہیں لیکن جب کراچی کے فنڈز اورانتظام کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ کراچی تو سندھ کا حصہ ہے ۔آپ اسے کیسے الگ کرسکتے ہیں ؟۔ اور پھر'' سیاسی غصے‘‘ اور ''اونچی آواز‘‘ کا بھی مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن کراچی میں رینجرز کی آمد سے ایک فائدہ ضرور ہواکہ جب رینجرز نے سندھ بھر میں اختیارات مانگے تو سندھ حکومت نے کراچی اور اندرون سندھ کو2حصوں میں بانٹ دیا ۔ اندرون سندھ کے جنگلات اور کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے گروہ در گروہ موجود ہیں۔ ان کا کھانا ‘پینا ‘اٹھنا اور بیٹھنا اندرون سندھ کے ان علاقوں سے وابستہ ہے ۔ سندھ کا ہاری جاگیرداروں کے نجی جیل خانوں میں مقید ہے۔ایسا لگتا ہے تمام قوانین صنعتی مزدوروں کی سہولت کیلئے ہیں ۔ ہاریوں کا ماہ مئی اور شکاگوکے مرنے والوں سے دور دورکا تعلق نہیں۔ اندرون سندھ ہاریوں کے حقوق کیلئے کوئی بھی قانون نہیں۔ شہروں میں لیبر کورٹس توموجود ہیں لیکن کوئی ''ہاری کورٹ‘‘ یا''کسان کورٹ‘‘کہیں بھی نہیں ہے ۔ہاریوں کا کوئی ڈیوٹی ٹائم نہیں ہے ۔ اورنہ ہی ان کا کوئی ٹائم شیڈول ہے۔ فصل کٹائی کے دوران ہاری ‘اس کے خاندان اور بچوں سے چوبیس گھنٹے کام لیا جاتا ہے ۔لیکن بے چاراہاری داد و فریاد بھی نہیں کرسکتا ۔ہاری کو زمین چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں ہے۔اگر وہ ایسا کردے تو اس کا حشر نشر کردیا جاتا ہے۔ اندرون سندھ مختار کار، اسسٹنٹ کمشنر، ایس ایچ او اور پانی کی وارہ بندی کرنے والا بیلدار جاگیرداروں کی مرضی اور منشاء سے مقرر کیا جاتا ہے ۔اور یہ کوئی کام جاگیردار کی رضا کے بغیر نہیں کرسکتے ۔ کئی مقامات پر برائے نام کرائے پر ٹریکٹر دستیاب ہیں غیر ملکی کھاد، اعلیٰ بیج اور باردانہ (پٹ سن کی بوریاں) کبھی مفت اور مفت جیسی قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں۔ شہروں میں ایک کروڑ روپے کی پراپرٹی پر8سے 10لاکھ روپے ٹیکس دینا پڑتا ہے لیکن سندھ کی زرعی زمین صرف100روپے کے اسٹامپ پیپر پر مختیار کارکی دو پرانی اورگھسی پٹی مہریں لگاکر تبدیل کردی جاتی ہے ۔حال ہی میں اسحاق ڈار صاحب نے شہری پراپرٹی پر''اندھا ٹیکس ‘‘ لگادیا ہے لیکن اُن کی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ زرعی زمین پر ایک آنہ فی ایکڑ زرعی ٹیکس بھی لگاسکیں۔ زرعی آمدنی پر کوئی انکم ٹیکس نہیں اور یہ واحد طریقہ ہے جس میں بغیر ٹیکس کے فصل کی طرح ''وائٹ منی ‘‘ پیدا ہوتی ہے۔
اب زرداری صاحب کی اچانک مہربانی سے سندھ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے ۔ایک حصہ کراچی ‘ حیدر آباد ‘ سکھر اور میرپورخاص ہے جسے صوبائی حکومت کی تشکیل کے دوران نالائق بچے کی طرح کان سے پکڑ کرکلاس سے باہر کھڑا کردیا گیا ہے ۔ اورپورے سندھ پر ٹیکس نہ دینے والوں کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹیکس نہ دینے والے حکمران 70سال سے ٹیکس دینے والے کراچی، حیدرآباد‘سکھر اورمیرپورخاص کے باشندوں پر ٹیکس لگانے کی سمریاں تیار کررہے ہیں ۔ جبکہ ''الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘کی مثال بھی دی جارہی ہے ۔سندھ حکومت کچھ دیتی نہیں ہے وہ صرف لیتی اور بس لیتی رہتی ہے ۔ہمارے مذہب میں لونڈیوں اور غلاموں کے بھی حقوق ہیں ۔حضرت عمرؓ نے کہاتھا کہ'' دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاس سے مرجائے تو اس کا ذمہ دار میں ہوں‘‘۔ سندھ حکومت تو انسانوں کی ذمہ داری بھی لینے کیلئے تیار نہیں ۔
کوئی مانے یا نہ مانے سندھ ذہنوں اور نظام حکومت کی کتابوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ جب 40کروڑ ہندو ہندوستان کی تقسیم نہیں روک سکے تو ساڑھے تین کروڑ سندھی جن میں سے نصف نے توپیپلز پارٹی کو ووٹ ہی نہیں دیا وہ سندھ کی تقسیم کیسے روکیں گے؟ اب یہ اردو بولنے والے اور کراچی کے پنجابی ‘پٹھان اور بلوچوں کی سیاسی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ کیسے سسٹم میں تبدیلی لاتے ہیں ؟اور ایسے حکمرانوں سے جان چھڑاتے ہیں جو1200 ارب روپے ٹیکس دینے والے شہر کو8ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ دینے کوبھی تیار نہیں ۔ کیا ملک میں ایسے سمجھدار لوگ موجود نہیں ہیں جو دودھ دینے والی گائے کو مرتا دیکھ کربھی اس کی طبی امداد کو نہ پہنچیں۔ ہندوستان میں60سال میں 35صوبے بن سکتے ہیں تو پاکستان میں صوبے کیوں نہیں بنتے۔ ؟ ہم21ویں صدی میں لوگوں کو کیوں غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم سسٹم تبدیل کیوں نہیں کرتے ۔ ہم جب کشمیر میں حق خود ارادیت کی بات کرتے ہیں تو بھارتی اخبارات ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ کشمیر کو چھوڑو کراچی کی فکر کرو۔ بہت سی چیزیں
ہاتھ سے نکل رہی ہیں۔ معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔ پھنسی زخم میں تبدیل ہورہی ہے اور زخم کی منزل ناسور ہوتی ہے۔ اس لئے یہ بات بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ہے۔ صرف ایک سوال کا جواب کوئی دے دے کہ سندھ کے حکمرانوں کا اجلاس دبئی میں ہوتا ہے اورجب وہ دبئی سے واپس آتے ہیں تو دبئی بلدیہ کی تعریف کرتے ہیں اس کی شان میںقصیدے پڑھتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں بتاتے کہ بلدیہ کراچی کے ٹیکس کی آمدنی سندھ حکومت اپنے خزانے میں کیسے ڈال لیتی ہے ۔ کراچی کا پراپرٹی ٹیکس اور موٹر وہیکل ٹیکس دونوں سندھ حکومت کے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرجاتا ہے اور کونسلر و لیڈران عوام کی گالیاں کھاتے ہیں کہ بلدیہ سڑک نہیں بناتی۔ دبئی میں بلدیاتی ٹیکس، دکانوں کا ٹیکس اورویزے کی انکم بلدیہ کے اکائونٹ میں جاتی ہے جبکہ بلدیہ دبئی کے ملازمین کی تنخواہ دبئی حکومت دیتی ہے اسے کہتے ہیں عوام اورشہرسے محبت۔ کراچی کو اِس وقت جاگیرداروں کے ''اینیمل فارم‘‘ کی طرح چلایا جارہا ہے اور پاکستان کایہ حسین و جمیل شہر نہ صرف تباہ ہورہا ہے بلکہ اُجاڑ اجارہا ہے اور اگر یہ اُجڑ گیا تو نہ اسلام آباد کے خزانے کی انکم ہوگی ۔ نہ کوئی ٹیکس بچے گا اورنہ ہی لیفٹ رائٹ کرنے والوں کے کپڑوں کا کلف ۔ سوچ لیں !!ہمیں ٹائمز آف انڈیا کے مشورے پر غور کرنا چاہئے۔ اوراس صورتحال کے مقابلے کی تیاری کرنی چاہئے کہ دشمن کے منہ سے اتفاقاً کیا نکل گیا ۔ اور اگر پھر بھی نہ سمجھے توکراچی شہر کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ جب کراچی اُجڑجائے گا تو خزانہ کون بھرے گا ؟اور ترقیاتی فنڈکیلئے نوٹوں کی گڈیاں کہاں سے آئیں گی؟