"ISC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم صاحب !!کراچی کا کیا قصورہے؟؟

وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث ‘یتیم ‘لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہائوس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی جانے سے محروم رہے۔کراچی سے تعلق ہونابھی ایسا جرم بن جاتا ہے کہ تعزیت کے دو بول سننے کیلئے بھی انتظار جیسا کٹھن مرحلہ طے کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور بعد میں ایک اطلاع ملتی ہے کہ ''پی ایم صاحب کا شیڈول تبدیل ہوگیا ہے‘‘کیا کریں کہ کراچی برطانیہ کا دارالحکومت نہیں جو وزیراعظم صاحب یہاں دو سے ڈھائی مہینے آرام فرمائیں۔یہاں تو قیام بھی گھنٹوں کے حساب سے ہی ہوتا ہے۔
نواز شریف کی حکومت ساڑھے تین سال کی ہوگئی ہے۔ جہاںاُن کے پاس سب سے زیادہ غیرملکی دورے کرنے کا ریکارڈ ہے وہیں وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سب سے کم اور مختصر ترین دورے کرنے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔وہ کراچی مجبوری میں آتے ہیں۔نواز شریف پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ سندھ سے دور دور رہتے ہیں۔سندھ کے مسائل میں عدم دلچسپی کی وجہ سے قوم پرست رہنما ممتاز علی بھٹو مسلم لیگ ن میں ضم شدہ اپنی جماعت سندھ نیشنل فرنٹ دوبارہ بحال کرنے پر مجبور ہوگئے ۔
کھارادر اور لیاقت آباد کراچی کے دو مشہور علاقے اورتجارتی مراکز ہیں یہاں وزیر اعظم صاحب تو نہ آئے لیکن اُن کے آنے کی خبر نے اِن علاقوں کی قسمت بدل دی۔کچرا اٹھالیا گیا۔سڑکیں صاف ہوگئیں۔سیوریج کا پانی راتوں رات غائب ہوگیا۔ انتظامیہ جنات کی طرح کام کررہی تھی لیکن وہ بھی اس وقت سخت مایوس ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ میاں صاحب یہاں کے ''درشن‘‘نہیں کریں گے ۔ انہوں نے طویل عرصے بعد جو محنت کی تھی اس پر پانی پھر گیا۔کراچی آپریشن کی کامیابی کے گن تو خود میاں صاحب گاتے رہے ہیں لیکن ایسی کیا مجبوری ہوئی جو وہ ان علاقوں میں نہیں جاسکے ۔باخبرحلقے کہتے ہیںکہ سکیورٹی کلیئرنس نہیں ملی ۔اگر ایسا تھا تو کراچی آپریشن کی کامیابی کے دعوے کا کیا ہوا۔وزیراعظم کو سکیورٹی فراہم کیوں نہیں کی جاسکتی۔
دو چار روز قبل یہ خبریں آرہی تھیں کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے درمیان جمی برف پگھل رہی ہے۔متحدہ کی بھوک ہڑتال پر وزیراعظم نے نوٹس لیااور وفاقی وزیر اطلاعات پرویزرشیدکو بھوک ہڑتالی کیمپ جانے کی ہدایت بھی دی تھی لیکن اچانک ایساکیا ہواکہ معاملات تبدیل ہوگئے ۔بلاول بھٹو زرداری ‘خورشید شاہ‘ اعتزاز احسن اور دیگرپی پی رہنمائوں کی جانب سے وزیراعظم پر''بیانیہ گولہ باری‘‘جاری ہے اور مسلم لیگ ن کوجب جب پیپلزپارٹی تنگ کرتی ہے وہ اینٹ کا جواب دینے کیلئے ایم کیو ایم جیسا پتھر اپنے ساتھ رکھنا ضروری سمجھتی ہے لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آیا میاں صاحب کراچی پریس کلب نہ جاتے لیکن وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر گورنر ہائوس میں ایم کیو ایم رہنمائوں کو بلا کر گلے شکوے دور کرسکتے تھے۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثاربھی برملا کہہ چکے ہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوںکا ازالہ کیا جائے گالیکن لگتا ہے ازالے میں ابھی کافی وقت ہے حالانکہ وزیراعظم صاحب کا سندھ کے نئے وزیراعلیٰ مرا دعلی شاہ کے ساتھ بھی سلوک کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ۔انہوں نے بھی ملاقات کیلئے وقت مانگا تھا جو نہ مل سکا ۔اس میں تو' 'سکیورٹی مسائل ‘‘بھی درپیش نہیں تھے ۔ایئرپورٹ پر استقبال اور الوداعی مصافحے کیلئے صرف پانچ منٹ کا وقت نئی سائیں سرکارکو بھی ناراض کرگیا ۔میاں صاحب کا زیادہ تروقت ''تاحیات‘‘گورنر سندھ کے ساتھ گزرا ان کا قیام بھی گورنر ہائوس میں رہا۔ 
قائم علی شاہ کے ساتھ نوازشریف کی ''پکی دوستی‘‘تھی لیکن لگتا ہے کہ مراد علی شاہ وزیراعظم کی''گڈبک‘‘میں شامل نہیں ہوئے۔قائم علی شاہ آصف زرداری کا انتخاب تھے لیکن مراد علی شاہ کو بلاول بھٹو زرداری لے کر آئے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلاول بھٹوزرداری نواز شریف کے نہیں عمران خان کے دوست ہیں اورایک کہاوت ہے کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے۔بلاول اور عمران خان کسی بھی وقت ایک ہی کنٹینر پر بھی نظر آسکتے ہیںجو میاں صاحب کو ہرگز برداشت نہیں ۔
کراچی والے وزیراعظم کے پروٹوکول کو ہی سلام کرکے خوش ہوجاتے ہیں ۔یہ اپنے وزیراعظم کو تو نہیں دیکھ پاتے البتہ ان کا پروٹوکول ضرور دیکھتے ہیں ۔ٹریفک جام دیکھ کر ہی معلوم ہوجاتا ہے ''اسلام آباد کے وزیر اعظم کراچی آچکے ہیں‘‘۔عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر کراچی اپنے ہی وزیراعظم کی توجہ کیلئے بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہا ہے۔سابق عروس البلاد کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں‘ کچرے سے بھری گلیاں‘اندھیرے میں ڈوبے محلے‘گیس اور پانی کو ترستی صنعتیںفریاد کررہے ہیں کہ '' خدارا!!ہمیں بچالو‘‘۔ہمیں کراچی ہونے کی سزانہ دو۔کبھی ہم بھی تمہارا فخر تھے ۔پورے ملک کے وزیراعظم نواز شریف کراچی سے کیوں دور رہتے ہیں اس سوال کا جواب دانشوروں کے پاس بھی نہیں ۔کراچی جیسے شہر کو نظر انداز کرنا کسی بھی طرح کی عقلمندی نہیں ۔18ویں ترمیم کے بعد تو صوبے نے بھی آنکھیں پھیر لیںاور این ایف سی کی مد میں ملنے والی رقم اپنے پلو میں اس طرح چھپائی جاتی ہے جیسے یہ ''صوبائی خون پسینے ‘‘کی کمائی ہو۔کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی روز بروز اسی لئے زور پکڑ رہاہے کہ احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت کب کراچی کو اس کا اپنا حصہ دیتی ہے یا پھر وفاق سب سے بڑے شہر کی کفالت اپنے ذمے لے کر کہانی کا ''ڈراپ سین ‘‘کردے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں