ایک طرف پاک بھارت جنگ کا سماں ہے تو دوسری جانب ایم کیو ایم لندن اور کراچی کے درمیان لڑائی بھی جاری ہے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ''فلاں اصلی نہیں ہے‘‘دوسری طرف ''ہم اصلی ہیں ‘‘کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اب تک فاروق ستار اور ان کے رفقاء صرف اپنی صفائیاں پیش کررہے ہیں۔ الزام بازی سے گریز بھی کررہے ہیں ان کا انداز بھی جارحانہ نہیں ہے۔بظاہر تو ایم کیو ایم پاکستان ''بیک فٹ‘‘پر ہے لیکن اُن کے چوکے اور چھکے ردعمل کے طور پر نظر آتے ہیں اور وہ پیچھے ہٹنے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں،جس نے جس زمین پر قبضہ کیا ہے وہ علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ یہ ہماری ہے۔ فاروق ستار اس جنگ کے نتیجے میں بڑی ترقی کر گئے ہیں وہ ڈپٹی کنوینرسے کنوینر بن گئے ہیں۔پہلے وہ اسلام آباد جاتے تھے تو آغازمیں اپنے سابق قائد کی تربیت کا ذکر ضرور کرتے تھے۔ اس بارفاروق ستار کی اسلام آباد میں اہمیت ہی کچھ اور تھی۔ اعتزاز احسن سے آدھا ہاتھ ملانے اور شاہ محمود قریشی سے بے دلی سے ملنے والے وزیراعظم نواز شریف فاروق ستار کا ہاتھ تھام کر کافی دیر تک مصافحہ کرتے رہے۔ اس کے بعد انہیں اسحاق ڈار اور خواجہ آصف نے گھیر لیا۔ وزیراعظم صاحب بھی سمجھ گئے ہیں کہ اب ایم کیو ایم پاکستان کے کرتا دھرتا فاروق ستار ہیں اور انہیں راضی رکھنے کا مطلب ایک بڑی پارٹی کو اپناہم خیال بنانا ہے۔اس بار فاروق ستار نے نواز شریف سے آزادانہ مصافحہ کیا، خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی،جس سے فاروق ستارکی چال میں خود اعتمادی کی جھلک بھی نظر آنے لگی۔ حالات نے فاروق ستار کو اس مقام پر پہنچادیا ہے کہ انہیں کسی سے پوچھ کر نہیں بلکہ خودہی سوچ سمجھ کر بولنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ان کے لندن کے دوست (جو اب سابق ہوگئے ہیں )کے پے درپے ''ٹیلی فونک حملوں‘‘کا بھی مقابلہ کرنا ان کی قسمت میں لکھاہے۔ لندن والے آہستہ آہستہ سنبھل رہے ہیں ...وہ اپنے سابقہ سیکٹر انچارجز اور یونٹ کے متحرک کارکنوں کو اپنا ہم خیال بنا لیں اور تیار بھی کرلیں تو ایک مسئلہ درپیش ہے کہ ناراض اور بکھرے ہوئے کارکن فی الحال کُھل کر سامنے نہیں آپارہے کیونکہ رینجرز کی ''عقابی نگاہیں‘‘ایسے دیوانوں کو ڈھونڈ رہی ہیں ۔ہر شخص اپنی ''کھال اور مال ‘‘بچانے کے چکر میں ہے۔ ایم کیو ایم کے دوگروپوں کی لڑائی کا نرم سے نرم الفاظ میں بھی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایم کیو ایم کی دونو ں مخالف مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں نے ''خضاب‘‘خریدنا شروع کردیا ہے، وہ اپنی صف بندی کررہے ہیںاور انتظار میں ہیں کہ کب ان کے دشمن بے دم ہوکر گریں تاکہ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک پر ''ڈاکہ‘‘مارا جاسکے لیکن لگتا ہے کہ اسلام آباد اور غیر مرئی قوتوں میں ایک امر پر اتفاق ہے کہ کراچی کی لیڈر شپ جہادیوں کے ہاتھ میں نہ جانے دی جائے۔اس پلاننگ کا سب سے زیادہ فائدہ فاروق ستار اٹھانے کے موڈ میں نظر آتے ہیں ۔
محرام الحرام کے آغاز کے بعد کراچی میں سیاسی سرگرمیاں ماند پڑجاتی ہیں لیکن لگتا ہے کہ اس سال'' ٹیلی فونک کھسر پھسر‘‘جاری رہے گی۔ لندن والوں کو سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا اس بات پر کرنا پڑتا ہے کہ ایم کیو ایم کا بانی منظر عام پر نہیں ہے۔ اگر الطاف حسین ابتدائی دنوں میں فوری ردعمل اور مزاحمت کا اظہار کرتے تو فاروق ستار کے حامیوں کو اتنا وقت اور کھلا میدان نہ ملتا گوکہ حکومت اور رینجرز بظاہر غیر جانبدار نظر آتے ہیں لیکن اصل کہانی کچھ اور ہے، رینجرز کی موجودگی بہت سے لوگوں کو غیر محسوس طریقے سے تقویت اور قوت فراہم کررہی ہے۔ رینجرز خود سیاسی نہیں ہے لیکن وہ کچھ سیاسی قوتوں کے لئے ''وٹامن بی کمپلیکس‘‘کا کام کررہی ہے اور اب جب فاروق ستار اسلام آباد سے اپنی'' بیٹری‘‘ چارج کرواکر واپس آئیں گے تو وہ ''طاقت ‘شباب اور جوانی ‘‘سے بھرپور ہوں گے، دیکھنا یہ ہے کہ ان کے بولنے کا انداز کتنا تبدیل ہوتا ہے ؟سوچ کتنے میٹر گہری ہوجاتی ہے اوروہ کیا پیغام لاتے ہیں ۔ان سب کے اثرات کراچی کی سیاست پر ضرور پڑیں گے اور اس سے کراچی کی سیاست میں بدلائو بھی آئے گا۔کراچی اس وقت جتنا پیس فل اور ''شانت‘‘نظر آتا ہے عاشور ہ کے بعد یہاں طاقت کا استعمال بھی نظر آئے گا اور پنجہ آزمائی بھی ہوگی۔ بیشتر لوگ کراچی کی ''تیار فصل ‘‘کو اتنی آسانی سے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیں گے اور کراچی کی سیاست کا مکمل کنٹرول فاروق ستار کے پاس جانے نہیں دیا جائے گا۔''اندر ‘‘اور ''باہر‘‘دونوں جگہ سے مخالفت ہوگی۔ ابھی سیاست میں سختی نظر نہیں آرہی لیکن نرمی بھی موجود نہیں۔ معاملہ ''ایوریج‘‘کی بنیاد پر چل رہا ہے۔درگزر کا پودا تو دور کی بات ابھی توکونپل بھی نہیں پھوٹی۔
سیاسی حکیموں کا کہنا ہے کہ آئندہ ضمنی الیکشن فیصلہ کن ہوگا۔ مہاجر ووٹ بینک کا رُخ معلوم ہوجائے گا اور جب فاروق ستار کا امیدوار پتنگ کا نشان لے کر آئے گا اس وقت دیکھنا یہ ہوگا کہ لندن والوں کا انتخابی نشان کیا ہوگا ؟ان کی پارٹی پوزیشن کیا ہوگی؟وہ کوئی آزاد امیدوار بطور ''ٹیسٹر‘‘ لائیں گے یا پھر میدان خالی چھوڑ کر فاروق ستار کو مخالف ''سیاسی بھیڑیوں‘‘کے حوالے کردیں گے ۔
اب کراچی میںایسے حلقہ انتخاب موجود نہیں ہیں جہاں پیپلز پارٹی کے پاس 25سے 35فیصد ووٹ بینک ہو کیونکہ ہر رات شب برأت اور ہر دن عید کا نہیں ہوتا۔ملیر کے ضمنی الیکشن میں لندن سے جدائی 100فیصد نہیں ہوئی تھی تو ایم کیو ایم حقیقی کیل کانٹوں سے لیس ہوکر آگئی تھی جبکہ پی ایس پی والے طنزیہ اور مخالفانہ بیانات کی گولہ باری کرکے ووٹروں کو کنفیوزکرکے گھروں سے نکلنے سے روکنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ آئندہ ضمنی الیکشن میں کیا ہوگا؟کتنے امیدوار ہوں گے ؟کتنی ایم کیو ایم لڑیں گی ؟دیسی کشتی ہوگی یا پھر فری اسٹائل ریسلنگ کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے؟ ان سب باتوں کیلئے انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
آخر میں مسئلہ کشمیر‘بھارتی میڈیااورحکمرانوں کے جنگی جنون پر چند دلچسپ ٹویٹس پیش خدمت ہیں ''پاکستانیو! بے فکر ہوجاؤ سکیورٹی صورتحال کی پیشِ نظر جب بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں آتی تو بھارتی فوج پاکستان کیسے آئے گی؟‘‘اگر بھارت اپنے جنگی جنون سے باز نہیں آیا تو پھر پوری پاکستانی قوم بھارتی فلمیں اور ڈرامے''نفرت‘‘ کی نگاہ سے دیکھے گی!!انڈین اینکرز اپنے چینلز پر پاک بھارت جنگ کی بات اتنے جوش سے کر رہے ہیں جیسے چھوٹے بچے دیوالی پر پٹاخے پھوڑنے کی باتیں کر رہے ہوں۔کچھ لڑکیاں جنگ کی اس لئے بھی خواہش کر رہی ہیں تاکہ دورانِ جنگ ٹینکوں اور جہازوں کے ساتھ سیلفیاں بنا سکیں۔اگر جنگ ہو گئی تو فلموں میں بھارت جیت جائے گا جبکہ معاشرتی علوم کی کتابوں میں پاکستان، مگر دونوں طرف کے غریب عوام ہار جائیں گے‘‘۔