میں کوئٹہ میں ہوں، جہاں کی سردی کا سامنا کرنے کے بعدکراچی جیکب آباد جیسا لگتا ہے۔ مشتاق یوسفی نے لکھا ہے کہ ''کاش!کوئٹہ کراچی میں ہوتا!‘‘۔کوئٹہ اور کراچی ایسے جڑواں شہر ہیں کہ سردی کوئٹہ میں بڑھتی ہے تو ٹھنڈ کراچی کو لگ جاتی ہے۔ برف کوئٹہ میں گرتی ہے اور سرد ہوائیں کراچی میں چلنے لگتی ہیں ۔کراچی میں سردی بڑھنے لگے تو سمجھ جائیں کہ کوئٹہ میں پارہ گررہا ہے ۔کوئٹہ کی خشک سردی اور خشک میوہ جات پورے ملک میں مشہور ہیں ۔کوئٹہ میں پشتون دکاندار ہیں تو بلوچ خریدار! دونوں کا ''لائف اسٹائل‘‘ شیر وشکر کی مانند ہے۔ البتہ وہاں بھیک مانگنے والے بچے زیادہ تر پشتون ہیں ۔کوئٹہ وہ شہر ہے جہاں مقامی لوگ ہی کام کرتے ہیں ۔کراچی میں تو چائے بنانے کے لئے کوئٹہ اور پراٹھا بنانے کے لئے پشاور سے کاریگر ''امپورٹ‘‘ کرنا پڑتا ہے۔ کراچی میں سجی اور سردی کوئٹہ کے''ٹریڈ مارک‘‘ کے ساتھ ہی قبول کی جاتی ہے۔
کوئٹہ میں ہمارا قیام اے پی این ایس کے قافلے کے ساتھ تھا۔ ہم نے مقامی سرینا ہوٹل میں پڑائو ڈالا۔ پاکستان بھر کے نامور اخباری مالکان اسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ چند دنوں کے لئے بننے والی قائم مقام گورنر راحیلہ حمید خان درانی نے پرتکلف عشائیہ دیا، جس میں انہوں نے اپنی صحافتی خدمات کے حوالے سے آگاہ کیا۔ انہیں اپنی صحافت کے ذریعے عملی زندگی میںآغاز پر فخر تھا، اسی لئے انہوں نے اے پی این ایس کے قافلے کا ایسے استقبال کیا جیسے وہ ان کے خاندان کے فرد ہوں۔ وہ بہت خلوص اور تپاک سے ملیں۔کافی دیر تک اخباری مالکان کو بلوچستان کے حوالے سے بریفنگ بھی دی اور سی پیک کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا اور اس کے فوائد پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کے بقول سی پیک جہاں پاکستان کے لئے فائدہ مند ہے وہیں بلوچستان کی قسمت بھی چمک اٹھے گی۔
بلوچستان طویل عرصے سے بدنام زمانہ ''را‘‘کے نشانے پر ہے۔ ہلکی پھلکی دہشت گردی کے ''آفٹرشاکس‘‘ آتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بزدل اور بہادر دونوں اقسام کا جگر رکھنے والے افراد بلا ضرورت اور بسا اوقات ضرورت کے تحت بھی ہوٹل کے حفاظتی قلعے سے باہر نہیں نکلتے۔ ہوٹل کی رضاکارانہ قید انہیں تحفظ کا احساس دلاتی ہے اور اگر کسی کو ہوٹل سے باہر جانا ہو تو وہ کسی مقامی میزبان کے ساتھ ہی گاڑی کے ذریعے نکلتا اور تیزی سے واپس لوٹ آتا ہے۔کوئٹہ میں عموماً دوسرے شہروں سے آنے والے کاروباری حضرا ت ہوٹلوں یا پھر میزبان کے گھروں میں اپنے ''کاروباری دفاتر‘‘ سجاتے ہیں اور اپنا کام کاج جلد نمٹا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ چار سے چھ اخباری مالکان نے بھی ہمت کی ‘ بازار گئے اور وہ اشیا خرید کر لائے جو ان کے علاقوں میں مہنگے داموں یا درجہ دوئم کی ملتی ہیں۔جگہ جگہ کامیاب فوجی آپریشن کے باوجود ابھی ٹرین کا سفر محفوظ قرار نہیں دیا جاتا۔
ہمارے قافلے میں آٹھ ''مہمان‘‘ بھی لاہور سے ایک دن قبل اس لئے کوئٹہ آگئے تھے کہ میٹنگ والے دن لاہور سے کوئٹہ کے لئے کوئی فلائٹ نہیں تھی۔ یہ فضائی سفر ہماری زندگی میں کتنا اہم ہوگیا ہے کہ لوگوں نے ہوٹل کی ایک دن کی ''قید‘‘ برداشت کرلی لیکن زمینی راستوں سے سفر نہیں کیا۔ مناسب ہوگا کہ کوئٹہ کے لئے تمام ایئر لائنوں کی اضافی پروازیں شروع کی جائیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری صوبے کے ڈھائی سالہ وزیراعلیٰ ہیں۔ ان سے قبل ڈاکٹر عبدالمالک اپنے حصے کی ڈھائی سالہ حکومت کر چکے ہیں۔ ثناء اللہ زہری خوش مزاج اور خوش خوراک ہیں۔ ملاقات میں اُن کی شخصیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوگیا۔ وزیراعلیٰ ہائوس کے اندر اور باہر کی سکیورٹی فول پروف تھی۔ اندر جاتے ہوئے موبائل ہی جام نہیں ہوتا بلکہ گاڑی بھی خود بخود بند ہو جاتی ہے جوکلیئرنس کے بعد دوبارہ اسٹارٹ کرنا پڑتی ہے۔ وزیراعلیٰ ہائوس کے اندر جگہ جگہ جدید اور خود کار اسلحہ سے لیس کمانڈوز اور لیویز اہلکار کھڑے تھے۔ وزیراعلیٰ کے مسلح دستوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ تھوڑی دیر میں جنگ شروع ہونے والی ہے۔ زہری صاحب کے کھانے شاندار اورگفتگو جاندار تھی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان خود دہشت گردی کا شکار تھے، اس لئے ان سے بہتر بلوچستان کی صورت حال کوکون سمجھ سکتا تھا؟2013ء میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا، ان کے جوان بیٹے کو بھی ٹارگٹ کیا گیا لیکن ان کے ارادے مضبوط اور حوصلے بلند تھے۔ انہوں نے بتایا کہ '' بلوچستان میں پنجابیوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اساتذہ ‘ ڈاکٹرز اور پروفیسرصاحبان کو نشانہ بنایا گیا جو ہمارا اثاثہ ہیں۔ 8اگست کو خوفناک حملہ کیا گیا جس میں 200 پولیس اہلکار شہید ہوئے، لیکن ہم دبے نہ ہی جھکے‘‘۔ انہوں نے کہا: ''ہم دوقسم کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ایک علیحدگی پسند اور دوسرے دہشت گرد ہیں۔ کچھ عرصے تک تو اتنا خوف پھیلا ہوا تھا کہ کوئی دہشت گردوں کے خلاف بولتا بھی نہیں تھا۔ ہماری پوری 'کریم‘ کو شہید کردیا گیا۔ آج بلوچستان میں اب قومی ترانہ اور پاکستانی پرچم بھی نظر آتا ہے کیونکہ اب دنیا بدل گئی ہے، اب دہشت گردی کے اِکا دکا واقعات ہوتے ہیں جودہشت گردوں کی آخری ہچکیاں ہیں‘‘۔ ثناء اللہ زہری نے اخباری مالکان کو پلاٹ دینے کا وعدہ کیا، جس پر ایک مقامی صحافی نے کہا کہ اس سے پہلے چار وزرائے اعلیٰ ایسا اعلان کرچکے ہیں لیکن عملی جامہ کسی نے نہیں پہنایا۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے صحافیوں کے لئے سوچتا تھا اب اخباری مالکان کے لئے سوچ رہا ہوں۔کوئٹہ میں ''میڈیا سٹی‘‘ بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ اگر یہ وعدہ وفا ہوگیا تو پاکستان کے گلی کوچوں سے نکلنے والے اخبارات بھی کوئٹہ کا حصہ بن جائیں گے۔ اخبارات کا بھی فائدہ ہوگا اور بلوچستان حکومت کا بھی۔
جب دنیا ٹی وی کے سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کو کوئٹہ چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ انڈسٹری کی جانب سے شیلڈ دینے کے لئے بلایا گیا تو اعلان کیا گیا کہ ''شامی صاحب ہم سب کے پیارے ہیں‘‘۔ اس اعلان پر کسی نے جواباً کہا کہ ''شامی صاحب خوش نصیب شخصیت ہیں کہ ان کے جیتے جی عزت ہو رہی ہے‘‘ جس پر محفل کشت زعفران ہوگئی۔ اس سے خوش ہو کر شامی صاحب نے بھی قہقہہ لگایا اور اس تبصرے کو انجوائے کیا ؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ اور بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
کوئٹہ چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ انڈسٹری نے اے پی این ایس کے صدر سرمد علی کو جب شیلڈ پیش کی تو دیگر دو تنظیموں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی اپنی شیلڈیں ''نیام‘‘ سے نکالیں اور پھر سرمد صاحب شیلڈوں سے لدے نظر آنے لگے۔ کوئٹہ میں اے پی این ایس کو بھرپور پروٹوکول دیا گیا۔ اے پی این ایس کی تاریخ میں خوف کے ماحول میں یہ ایک شاندار اجلاس تھا جس میں دودن تک اخباری مالکان ہوٹل میں مقیم رہے اور خوش قسمتی سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا جس پر سب نے اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا۔ اجلاس میں سید سرمد علی‘ عمر مجیب شامی‘ ممتازاے طاہر‘ سید منیر جیلانی‘ مہتاب خان‘ سید علی حسن نقوی‘ وسیم احمد‘ ہمایوں طارق‘ مختار عاقل‘ ڈاکٹر تنویر اے طاہر‘ خوشنودعلی خان‘ سید ممتاز شاہ‘ جمیل اطہر‘ وقار یوسف عظیمی‘ ریاض منصوری اورہارون شاہ شامل تھے۔
روزنامہ''دنیا‘‘کے ڈائرکٹر سیلز اینڈ مارکیٹنگ رضوان اشرف نے اجلاس میںتوجہ دلائی کہ ایجنڈے میں روزنامہ ''دنیا‘‘ ملتان کا نام حتمی منظوری کے لئے شامل نہیں ہے، جس کے بعد ''دنیا‘‘ اخبار کو یہ اعزاز ملا کہ بغیر ایجنڈے اسے رکن بنا دیا گیا۔ پاکستان کے 40 اخبارات کے مالکان سے جب پوچھا گیا کہ روزنامہ ''دنیا‘‘ ملتان کو ممبر بنا دیا جائے تو سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ بالکل بنا دیا جائے۔ یہ ایک شاندار اخبار ہے، جاندار اخبار ہے۔