قرآن نے کہا ''اُسی نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے وہ غالب اور بخشنے والا ہے‘‘۔اہل عقل نے کہا کہ زندگی موت کی امانت ہے۔خدا اور موت کو یاد رکھواپنی نیکی اوردوسرے کی بدی کو بھول جائو۔کوئی بھی انسان دنیا کیلئے نہیں جیتا بلکہ کچھ خاص لوگ ہی اس کی دنیا ہوتے ہیں۔اتنے اقوال زندگی کے بارے میں نہیں کہے گئے جتنے موت کیلئے بیان کئے گئے ہیں۔
حیدرآباد سے خبر آئی کہ حاجی مشتاق شاہ کا انتقال ہوگیا ہے، اس خبر نے بے قرار کردیا، دل اُداس اور ذہن مائوف ہوگیا ۔سب کو مرنا ہے لیکن دکھ‘رنج‘ غم اورکرب ہونافطری عمل ہے۔آج کل پرنٹ میڈیا ویسے بھی الیکٹرانک میڈیا کے حملوں کی زد میں ہے، ساتھ ہی یہ افسوس ناک خبر آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے پرنٹ میڈیا کی ایک سرکردہ شخصیت کا ''دنیاوی ویزا‘‘ ختم کرکے ''ایگزٹ‘‘کی مہرلگادی ہے۔ قدرت نے انہیں زندہ رہنے اور اپنا رنگ جمانے کیلئے 70 سال کی زندگی دی۔وہ شوگر کے مریض تو تھے ساتھ ہی دل کا عارضہ بھی لاحق ہوگیا،وہ پندرہ سال بیماریوں کا مقابلہ کرتے رہے،لیکن عمر بڑھنے لگے تو قوت مدافعت جواب دینے لگ جاتی ہے۔دل کا مرض ہونے کے باوجود وہ بڑے دلدارثابت ہوئے، انہوں نے کئی اخبارات کو اپنا لہو پلایااور تجربہ''بونس‘‘ کے طور پر دیا، شوگرکی وجہ سے ڈاکٹروں نے چینی اور مٹھاس سے دور رہنے کا مشورہ دیا لیکن وہ محبت بھری میٹھی باتیں کرنے سے باز نہ آئے ۔
پاکستان کی پھلتی پھولتی مگر''اپنوں ‘‘کے ہاتھوں اور الیکٹرانک میڈیا کی مار کھاکر دونوں شانے چت ہونے والی اخباری صنعت ایک بار پھراپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اخبارات کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ساتھ ''رات ‘‘کا ذکر آتا ہے، اخبارات کے زیادہ تر امور ''رات‘‘کو ہی طے پاتے ہیں، لیکن اخباری صنعت سے وابستہ ایجنٹ اور اخبارفروش حضرات اخبارات کی تقسیم رات کے آخری پہر سے طلوع آفتاب تک کرتے ہیں۔ حاجی مشتاق شاہ کا سندھ بھر میں ''اخباری تقسیم‘‘ کا سب سے برا نیٹ ورک ہے، اسی وجہ سے وہ پورے پاکستان میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ سندھ سمیت حیدرآباد میں کئی مقامات پر لوگ ان کی شخصیت اور کاروبار پر رشک بھی کرتے ہیں اور حسد بھی۔!! ملک کے ہر قابلِ ذکر اخبار کو سندھ کے کونے کونے میں پہنچانے کاقدرتی ہنر انہیں اللہ تعالیٰ نے دے رکھا تھا۔ کئی اخبارات ایسے بھی ہیں جن کے ملازمین کی تنخواہ اس وقت تقسیم ہوتی ہے جب مشتاق شاہ کا ماہانہ بل اُن کے دفتر میں پہنچایا جاتا ہے۔ ہر ماہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کا اخباری بل اُن کی چشم کرم سے ادا ہوتا ہے۔ سندھ میں صحافت کی ترقی اور اخبار کی تقسیم کے بعد وصولیابی اُن کا ناقابلِ انکار کارنامہ ہے وہ ایک جادوئی شخصیت تھے۔
1977ء سے پہلے عموماً اخبارات کا ''انتقال‘‘ اسی لیے ہوجاتا تھا کہ گاؤں گاؤں ریکوری (بل کی وصولیابی) کا کوئی نظام نہیں تھا اور اخبار معاشی طور پر لاغر ہوکر غش کھا کر گر جاتے تھے۔اس دور کے اخبارات ''معاشی نقاہت‘‘کا شکار ہوتے تھے، حاجی مشتاق شاہ نے اسی عمل کو ممکن کر دکھایاکہ اخبار کا بل اُس کے مالک کی جیب یا دفتر میں لازماً پہنچتا ہے۔ حاجی مشتاق شاہ کے اسی کارنامے نے اخبارات کو' 'آبِ حیات‘‘ پلادیا۔ سندھ کے اخبارات کے مالکان کو اب یہ فکر نہیں رہتی کہ ہمارے بقایا جات کا کیا ہوگا کہیں دور حاجی مشتاق شاہ کی آواز آتی تھی' 'میں ہوں نا‘‘۔
حاجی مشتاق شاہ نے سندھ میں فروخت کیلئے آنے والے ہر نئے اخبار اور میگزین کو خوش آمدید کہااور حوصلہ افزائی کی۔ اُن کا کام ایماندارانہ کاروبار کرنا تھا وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن دن رات تعلیم یافتہ لوگوں کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔اسی صحبت کی وجہ سے ان کا شعور بھی بلند ہوگیا تھا۔ سندھ میں سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہونے والے اخبارات کی مارکیٹ کو سنبھال کر رکھنا اُن کے سسٹم کی کامیابی تھی۔ انہوں نے اسی نظام کے تحت دو‘چار ہزار سے شروع ہونے والے اخبارات کو لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک کی سرکولیشن پر پہنچادیا۔ مسلسل کامیابیاں بھی انہیں مغرور نہ بنا سکیں وہ سادہ مزاج بند ے تھے۔ عاجزی اُن کی میراث تھی، مٹی سے محبت کی وجہ سے اپنا آبائی گھر چھوڑنا گوارا نہ کیا۔وہ اپنے خاندانی گھر سے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے اوراس قدیم گھر کی آرائش، زیبائش اور خوبصورتی سمیت سجاوٹ پر اتنا پیسہ لگادیاکہ اتنی رقم میں ایک اور گھر خرید سکتے تھے ۔
حاجی مشتاق شاہ کو اپنے کام سے جنون کی حد تک پیار تھا۔ لگتا تھا کہ انہیں صرف اخبارات کی خدمت کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے وہ عاشقِ اخبارتھے جب اخباری مالکان اور اخباری کارکنان سورہے ہوتے تھے، اس وقت و ہ اخبار کی تقسیم میں مصروف ہوتے تھے ۔ان کا پورا خاندان اور بھائی کا خاندان اخبار فروشی میں ہمہ وقت مصروف رہتا تھا۔آل پاکستان اخبار فروش فیڈریشن کے تاحیات صدر سید محمد افضال شاہ نے پورے ملک کے اخبارفروشوں کو منظم کرکے ایک قوت بنادیا۔جناب ٹکا خان اس ''فوج‘‘کے سیکریٹری جنرل ہیں۔اخبار فروش روٹھتے بھی جلدی ہیں لیکن جب منانے جائو تو مان بھی جلدی جاتے ہیں۔حاجی مشتاق شاہ کے بھائی افضال شاہ حیدرآباد میں خدمت خلق کے اسپتال اور ایمبولینس کے اسکواڈ کے بھی انچارج ہیں۔مشتاق شاہ اور افضال شاہ نے مل کر لطیف آباد (حیدرآباد)میں کھیلوں کے فروغ کیلئے افضال شاہ گرائونڈ بھی بنایا جو آخر کار حاجی مشتاق شاہ کی نماز جنازہ کیلئے کام آیا۔نیکی خود نیکی سے ہی جواب دیتی ہے۔