گڑھی خدا بخش پر سب کی نظریں گڑھی تھیں۔تحریک انصاف سخت لائحہ عمل کی منتظرتھی ۔مسلم لیگ ق کو احتجاج کی کال کی توقع تھی۔جماعت اسلامی لانگ مارچ کا اعلان سننا چاہ رہی تھی۔شریف حکومت بھی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کی امیدپر تھی ۔لیکن کئی ٹی وی اینکرز اتنی ''ہائپ‘‘بناچکے تھے کہ جیسے پیپلز پارٹی 2016ء میں ہی حکومت کا دھڑن تختہ کرکے 2017ء میں نئے الیکشن کروادے گی ۔اور پھر وہی ہوا جس کا انتظا ر ''شریف حکومت‘‘کو تھا ۔''یک نہ شد دوشد‘‘ کے مصداق بلاول کے ساتھ آصف زرداری نے بھی سڑکوں کے بجائے پارلیمنٹ میں جانے کا اعلان کردیا۔حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔آصف زرداری اور بلاول نے ہلکی پھلکی تنقید بھی کی ۔آصف زرداری نے نواز شریف اور بلاول نے چوہدری نثار اور شہباز شریف کو نشانے پر رکھا ۔الٹی میٹم ختم ہونے کے باوجود لانگ مارچ کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ۔تیاریوں کامطلب'' انتخابی مہم ‘‘سمجھا جارہا ہے۔بلاول کی تقریر انتہائی جاندار تھی لیکن یہ تقریر سے زیادہ کسی اخبار کا کالم لگ رہا تھا جس میں ایک ایک نکتے پر ٹھہر ٹھہر کر بات کی گئی ۔بینظیر بھٹو کی خوبیاں اور مصائب بیان کئے گئے ۔احسان بھی جتلائے گئے ۔اے آر ڈی کا تذکرہ بھی ہوا۔لیکن کسی احتجاجی تحریک کا نہیں بتایا گیا ۔
پیپلز پارٹی سندھ میں ضرور منظم ہورہی ہے لیکن باقی تین صوبوں میں اس کے ووٹ بینک کی حالت ایس ہی ہے جیسی ود ہولڈنگ ٹیکس کے بعد ''ملکی بینکوں‘‘ کی ہوگئی ہے۔ جہاں لوگ سرمایہ بینک میں رکھنے کے بجائے کیش پر ہی کام کررہے ہیں ۔ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی چھ ‘آٹھ ماہ کی حقیقی اپوزیشن کی ''ایکٹنگ‘‘کرنا چاہتی ہے ۔بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آصف زرداری کے پارلیمنٹ میں آنے کا مقصد ''انتخابی مہم‘‘کیلئے راہ ہموار کرنا اور نواز شریف کے ساتھ ''پری الیکشن‘‘ڈیلز کرنا ہے ۔ایل این جی کی جگہ ایرانی گیس پائپ لائن کے منصوبے کی بات اور سیف الرحمن کاتذکرہ بھی اسی ''مہم کا حصہ قرار دیاجارہا ہے ۔
پیپلز پارٹی کی ایک اور غلطی پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ضرور پہنچائے گی ۔کیونکہ'' فرینڈلی اپوزیشن‘‘کا تاثر زائل ہونے کے بجائے اور گہرا ہوچکا ہے۔کراچی اور سندھ میں بلدیاتی اداروں کو فنڈزاوربلدیاتی نمائندوں کوحقوق نہ دینے والی پیپلز پارٹی جب اٹھارویں ترمیم کی بات کررہی تھی تو وہاں موجود زیرک سیاستدان‘ ماہرقانون دان ‘ سینئر صحافی اور اینکرپرسن بھی اس ''دہرے معیار‘‘پر حیران رہ گئے۔جوکراچی والے آصف زرداری کی تقریر سن کر باہر نکلے تو انہیں ''دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت ‘‘والا محاورہ یاد آیا۔کراچی کے شہری اپنی قسمت کو کوستے ہیں کہ سندھ کی حکمران پارٹی حقوق نہیں دیتی اور وفاقی حکومت تو کراچی کی جانب دیکھتی ہی نہیں ۔وہ تو ڈھائی سال سے کراچی میں ''سہولت کار‘‘ایسے تلاش کررہی ہے جیسے بدین میں تیل کے کنویں تلاش کئے جاتے ہیں۔چوہدری نثارکوبھی کراچی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں وہ تو صرف کراچی آپریشن کی خوبیوں کاتذکرہ ‘گرفتاریاں اور اسلحہ کی برآمدگی کا ذکر ہی کرتے نظر آئے ہیں انہوں نے کبھی کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمزپر کوئی بات نہیں کی ۔
سینئر سیاستدان شیخ رشید کا کہنا ہے کہ'' آصف زرداری کو واپسی کیلئے نواز شریف نے اپنا کاندھا پیش کیا ہے ‘‘۔ناہید خان نے کہا کہ '' بلاول نے جب بھی ٹیک آف کی کوشش کی آصف زرداری لینڈ کرجاتے ہیں‘‘۔ایسی باتیں اور گڑھی خدا بخش میں بینظیر کی برسی کے موقع پر آصف زرداری کی تقریر ''مفاہمتی فارمولے‘‘کی ''ایکسپائری ڈیٹ‘‘میں ایک سال اضافے پر تصدیق کی مہرثبت ضرور کرتی ہیں۔
ملکی حالات بتارہے ہیں کہ آئندہ الیکشن کا میدان پنجاب بنے گا ۔وہاں پاکستان تحریک انصا ف نے تو پہلے دن سے آستینیں چڑھارکھی ہیں ۔پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب کی قیادت تبدیل کرلی ہے ۔قمر الزماں کائرہ اور ندیم افضل چن منجھے ہوئے سیاستدان ہیں لیکن مسئلہ پھر وہی آجاتا ہے کہ بلاول کی پالیسی پر کام شروع ہی ہوتا ہے کہ ''زرداری پالیسی‘‘آجاتی ہے ۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو لانگ مارچ کی تیاری کرچکے تھے لیکن آصف زرداری نے واپس آکرپالیسی تبدیل کروادی۔اور نواز شریف پھر سے بلاول کے انکل بن گئے ۔آصف زرداری کی واپسی کا سب سے زیادہ نقصان ایاز سومرواور عذراپیچوہو کیساتھ ساتھ خورشید شاہ کوہوا ہے قومی اسمبلی کی دو نشستیں خالی کردی گئیں ۔جبکہ خورشیدشاہ بھی اپوزیشن لیڈر کی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اب صرف حکم کا انتظار ہے ۔
انور مجید کے گھر ‘دفتر اورشوگر مل پر رینجرز اور نیب کے چھاپے اس بات کا اشارہ ہیں کہ سندھ کی ایک طاقتور ترین شخصیت کو''محبت بھراپیغام‘‘دیا جائے کہ بات اتنی بھی سادہ نہیں جتنی سمجھی جارہی ہے ۔باخبر سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہ آصف زرداری الیکشن لڑیں گے اور نہ ہی حضرت بلاول انتخابات میں حصہ لیں گے ۔بلکہ پیپلز پارٹی کا اصل امیدوار ڈاکٹر عاصم ہوگا جو جیل سے الیکشن لڑے گا ۔تاہم یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ وہ نوابشاہ کے میدان میں اتریں گے یا پھرانہیں لاڑکانہ کے انتخابی اکھاڑے میں اتارا جاتاہے ۔دراصل ڈاکٹر عاصم کو الیکشن لڑانے کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو ملنے والی رعایتوںسے ہی اندازہ ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کے مزاج میں نرمی آئی ہے یا غم کی طویل شام جاری رہے گی۔عام تاثر یہی ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجانے والی بات کا اثر ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور وردی والوں کی جانب سے بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں آیا ہے کہ معاملات ٹھیک ہوچکے ہیں ۔یہ سمجھا جارہا ہے کہ مارچ 2017ء تک ''دیکھو اور انتظارکرو‘‘کی پالیسی چل رہی ہے اور اس کے بعد معلوم ہوگا کہ کس کو سینے سے لگانا ہے اور کس کی جلاوطنی جاری رکھنی ہے ۔
سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ پر بحث جاری ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ''سابق صدر اور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف زرداری کے استقبال کے موقع پر راستے میں پڑی اینٹیں ہٹادی گئیں کہ وہ گاڑی سے اتر کر انہیںبجانا نہ شروع کردیں۔