"ISC" (space) message & send to 7575

سردی اوردہشت گردی ایک ساتھ...!!

فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوتے ہی امن وامان کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوگئی ہے۔ کراچی میں سردی تو بڑھی لیکن دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ اسٹریٹ کرائم کی نئی لہر بھی آگئی۔
اسٹریٹ کرائم کے واقعات میں 38 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ 2016ء میں بائیس ہزار سے زائد موٹرسائیکلیں چھینی جا چکی ہیں۔کراچی آپریشن کا رخ ابھی ٹارگٹ کلرز کی طرف ہی تھا کہ ''تبدیلیاں‘‘ آنا شروع ہوگئیں۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ عدالتی بیساکھی پرکھڑے ہیں۔ ایک اہم سیاسی شخصیت کے قریبی دوست رائو انوار ایک بار پھر ایس ایس پی ملیر کی کرسی پر نہ صرف اپنا ''وزن‘‘ رکھ چکے ہیں بلکہ انہوں نے 6 تھانیداراور3 پولیس چوکیوںپر انچارج بھی اپنے''خاص لوگوں‘‘ کو تعینات کردیا ہے۔ سند ھ میں طاقت کا توازن دیکھنا ہو تو آئی جی اور ایس ایس پی کا موازنہ کرلیا جائے۔ اقربا پروری کیا ہوتی ہے؟ اس کا بھی بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ جب ایسی صورتحال ہوگی تو کیسے ممکن ہے کہ اسٹریٹ کرمنلز اس کا فائدہ نہ اٹھائیں۔ فوجی عدالتوں کا خوف ہی ٹارگٹ کلرز اور اسٹریٹ کرمنلز کو دبک کر بیٹھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ لیکن اگر یہ بھی ختم ہوگیا اور مقدمات ایک بار پھر ہمارے گلے سڑے پراسیکوشن سسٹم کے پاس چلے گئے تو عادی مجرموں کو گلیوں‘ سڑکوں اور شاہرائوں پر سینہ پھلا کر وارداتیں کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔گواہوں کے تحفظ کا قانون درجنوں بار بن چکا ہے لیکن اس پر عملدرآمد ایک بار بھی نہیں ہوسکا۔ انگریزوں کے دور کا مجسٹریسی نظام جو پرویز مشرف نے بڑی مشکل سے ختم کیا تھا پنجاب میں پھر بحال ہو رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب سندھ میں بھی ڈپٹی کمشنرز اپنی ''سابقہ پاورز‘‘ کے ساتھ ''ون مین شو‘‘ کرتے نظر آئیں گے اور بلدیاتی نمائندے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لئے احتجاج بھی نہیں کرسکیں گے۔
کراچی میں لوٹ مار کی وارداتوں میں گلشن اقبال سب سے پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ جب جب کرمنلز آستینیں چڑھا کر میدان میں آتے ہیں پولیس غائب ہونا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ گلشن اقبال کے فلائی اوورز اور لیاقت آباد کے انڈر پاسز لٹیروں کے لئے محفوظ مقامات ہیں۔کھارادر میں لوٹ مار کے ''فرائض‘‘ پولیس نے سنبھال رکھے ہیں۔ وہاں تو ڈاکو بھی پریشان ہیں کہ پولیس ہمارا حق مار رہی ہے۔ وہ پولیس اہلکاروں کو ''ڈیوٹی‘‘ کرتا دیکھ کر باہر ہی نہیں نکلتے کہ کہیں ''پروفیشنل جیلسی‘‘ آڑے نہ آجائے۔ جرائم پیشہ عناصر بھی کبھی خود کو اور کبھی ان علاقوں کو دیکھ کر حیران رہتے ہیں اور پولیس موبائلیں کھلم کھلا پان کی دکانوں‘چائے کے ہوٹلوں‘ برگر شاپس اور دیگر ٹھیلوں اور پتھاروں کو اپنے ''نشانے‘‘ 
پر رکھتی ہیں۔ یہی صورتحال ناتھا خان پل اور ایئرپورٹ فلائی اوور کی ہے جہاں پولیس کی نئی چمچماتی موبائلیں پرانی موٹرسائیکلوں کے سواروں سے''ڈیزل‘‘ کا خرچہ وصول کرتی نظر آتی ہیں۔ پولیس کا کمانڈر ان چیف صوبے کا آئی جی ہوتا ہے لیکن سندھ میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں تو آئی جی میرٹ پر بھرتیاں بھی نہیں کرسکتا۔ کسی چہیتے افسر کا تبادلہ نہیں کرسکتا۔ کسی ایس ایس پی کی سرزنش نہیں کرسکتا۔ جس کی اپنی کرسی مضبوط نہ ہو وہ کسی اور سے کیا پوچھ سکتا ہے؟ آئی جی سندھ کو تو اختیارات کے علاوہ سب کچھ دے دیا گیا ہے۔ ٹاسک اتنے ہیں کہ اے ڈی خواجہ کو''جادو کی چھڑی کی ضرورت ہے‘‘ کا عوامی اشتہار دینا پڑے گا۔
ابھی تو رینجرزکے اختیارات ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں لیکن پولیس نے ابھی سے ''پش اپس‘‘ لگانا شروع کردیے ہیں۔ ''ریہرسل‘‘ کا آغاز ہوگیا ہے۔ مقابلے بازی بھی شروع ہوگئی ہے۔ عوام تو یہ سوچ رہے ہیں کہ رینجرز ''بیک فٹ‘‘ پر چلی گئی تو کیا ہوگا؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ رینجرز پولیس کے ماتحت ہوجائے گی۔ پولیس ویسے ہی سندھ حکومت کے ماتحت ہے اور سندھ حکومت ''دبئی‘‘ کے ماتحت ہے۔ سندھی کا ایک محاورہ ہے کہ ''نوکروں کے چاکر ‘چاکروں کے چوکر‘‘۔ سندھیوںکے مقدر کا فیصلہ +97کوڈ سے شروع ہونے والے نمبرسے ہو رہا ہے جو انتہائی افسوسناک اور تشویش ناک ہے۔ وفاق کے لئے امریکا اور برطانیہ سے فیصلے آتے ہیں تو اب سندھ حکومت کے لئے''دبئی‘‘ کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کی دوہفتوں میں تین ملاقاتیں بھی معنی خیز قرار دی جا رہی ہیں۔ سیوریج کے پانی سے گزر کر امراض قلب کے اسپتال جانا‘ ڈاکٹروں کو روم سے باہر نکال کر تنہائی میں ملاقات کرنا کس طرف اشارہ ہے؟ آصف زرداری سیہون شریف گئے تووہ علاقہ ''چمکا‘‘دیا گیا۔ بھٹ شاہ جانے کا اعلان کیا تو سڑکوںکی صفائی اور دکانداروں کی''دھلائی‘‘ شروع ہوگئی۔
ہالا والوں کوبھی معلوم ہوا کہ ''کرفیو‘‘کسے کہتے ہیں؟ لیکن یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ وہ جب پہلی بار کارڈیو گئے،گٹر کا گندہ پانی ان کا استقبال کر رہا تھا، جس پر سندھ کے سائیں مرادعلی شاہ نے ایکشن لیا، صفائی کا حکم دیا، لیکن ایساہو نہ سکا کیونکہ یہ کراچی ہے۔ صفائی اِس شہرکے مقدر سے چھین لی گئی ہے۔ ڈکٹیٹروں نے تو اس شہر کو سجایا اور سنوارا لیکن ''جمہوری چیمپئن‘‘ ایسا نہیں کرنا چاہتے‘ زرداری صاحب تیسری بار بھی جب امراض قلب کے ہسپتال گئے تو ایک بار پھر انہیں گٹر کے غلیظ پانی سے ہی گزرنا پڑا۔ ایسا اس لئے ہوا کہ باقی علاقوں میں تو ''کاسمیٹک سرجری‘‘ سے کام چلالیا جاتا ہے لیکن کراچی کے اس امراض قلب کے ہسپتال کے مین گیٹ پر سیوریج کا پانی نکالنے کے لئے''ٹھوس اقدامات‘‘ کی ہی ضرورت پیش آتی ہے، اس کے بغیر آپ پانی نکالتے رہیں یہ نامعلوم مقام سے آتا رہے گا۔ ماضی میں ڈاکٹر عاصم کو سینیٹر بنانے کی باتیں بھی سامنے آئیں۔ ایسا ہی کچھ ایان علی کے بارے میں بھی سنا گیا، لیکن فی الحال تو زرداری صاحب کو نوابشاہ سے ضمنی الیکشن لڑنے کے لئے انتخابی نشان کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ اسی کے حل کے لئے اب انہیں پیپلزپارٹی پارلیمنٹریز کا صدر بنادیا گیا ہے۔ یہ ''جمہوری فیصلہ‘‘ بلاول ہائوس میں منعقدہ اجلاس میں کیا گیا۔ واقفان ِ حال کہتے ہیں کہ اگر زرداری صاحب نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ انہیں اپنے اثاثے‘ نقدی‘ زمینیں‘ جیولری سب کچھ ڈیکلیئرکرنا پڑیں گے اور پھر جو کہانیاں نکلیں گی وہ کہرام مچادیںگی۔ وقت کہیں ایسا ظلم نہ کرے کہ ایک اور ''عمران خان‘‘ پیدا ہو جائے اوردودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں