"ISC" (space) message & send to 7575

گورنر کی ضرورت ہے!!

چند سا ل قبل یہ خبریں گرم تھیں کہ ''سندھ میں گورنر راج نافذ کیا جاسکتاہے ‘‘۔صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔اب سندھ کو وفاق ہی کنٹرول کرے گا ۔ایسی خبریںکوئی انوکھی نہیں تھیں ۔ماضی میں بھی نواز شریف صاحب سندھ میں گورنرراج ایسے نافذ کرتے تھے جیسے کوئی وفاقی وزیر تبدیل کررہے ہوں ۔کراچی اور اندرون سندھ کے عوام سمجھتے تھے کہ شاید میاں صاحب کو سندھ سے بہت محبت ہے اس لئے بیڈ گورننس کو قطعی برداشت کرنا نہیں چاہتے ۔2013ء کے عام انتخابات سے قبل میاں صاحب نے سندھی قوم پرست جماعتوں کو اکٹھا کیا اور دو درجن کے قریب جماعتوں کو اپنا اتحادی بناکر سندھ میں الیکشن لڑا ۔کچھ ووٹ بھی لے لئے لیکن جب وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے تو سندھ کو''سرخ فیتے‘‘والی فائل سمجھ کر میز کی دراز میں ڈال دیا ۔ان کاساتھ دینے والے قوم پرست بھی ایک ایک کرکے دور ہونے لگے ۔ بعض لوگوں نے اسے میاں صاحب کی ''الیکشن پالیسی‘‘قرار دیا تو کچھ نے وعدہ خلافی گردانا۔
14سال تک کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ گورنرتبدیل بھی ہوتا ہے۔ بعض نقاد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عشرت العباد کو تاحیات گورنر بنادیا جائے ۔لیکن ہر کسی کو ایک نہ ایک دن جانا ہے اور پھر وہ مرحلہ بھی آگیا جب سندھ میں طویل ترین اننگز کھیلنے والے ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی گورنر ہائوس چھوڑ کرجانا پڑا۔عشرت العباد اب بھی نہ جاتے لیکن اُن کا ایک ٹی وی انٹرویو گورنر شپ پر مہنگا پڑگیا۔اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ جب محسنوں کا واشگا ف الفاظ میں ذکر کرے ۔اپنا جھکائو ایک پلڑے میں ڈال دے تو اسلام آباد اور راولپنڈی کی قوت برداشت بھی جواب دے جاتی ہے ۔
جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی کے انتقال کے بعد سندھ ایک بار پھر ''لاوارث‘‘ہوگیاہے ۔وفاق کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ سندھ میں اردو اور سندھی بولنے والے کا ایک کمبی نیشن بنایا گیا ہے جس کے مطابق ایک وزیراعلیٰ ہوگا تودوسرا گورنرسندھ تاکہ ''بیلنس‘‘رہے ۔اور احساس محرومی میںمزید اضافہ نہ ہو ۔ اگر گورنرتعینات کرنے کا اختیار سندھ حکومت کے پاس ہوتا تو اب تک چھ ‘چھ مہینے کے بیشتر گورنر بن کر سابق بھی ہوچکے ہوتے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تو ایس ایس پی کی تعیناتی بھی آئی جی سے نہیں کرواتی وہ بھلا گورنر ہائوس جتنی بڑی جگہ کیسے خالی چھوڑ سکتی تھی ۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سعید الزماں صدیقی کی بیوہ اپنے
ایام ِ عدت گورنر ہائوس میں ہی گزار رہی ہیں ۔اس لئے گورنر ہائوس کو ابھی ''خالی ‘‘بھی نہیں کہا جاسکتا ۔
کسی نے کہا تھا کہ ملک بزرگوں کے صدقے چل رہا ہے ۔ اور اگر پاکستان میں تمام اہم محکموں کے سربراہان کو دیکھ لیں تو اس پر یقین بھی آجائے گا ۔ ملک میں بزرگ شخصیات کی ریکارڈ تقرریاں کی گئی ہیں ۔ایک88سالہ وزیر اعلیٰ تقریباً آٹھ سال سندھ پر حکومت کرکے گئے ہیں ۔مرحوم گورنر سندھ سعید الزماں صدیقی کی عمر بھی 79سال تھی ۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی عمر بھی 82سال ہے۔صدر پاکستان ممنون حسین بھی 76برس کے ہوچکے ہیں ۔چیئرمین سینیٹ رضاربانی بھی 63سال کے ہوچکے ہیں۔وزیراعظم بھی 67ویں سالگرہ مناچکے ہیں‘ ان کے بھائی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنی عمر کے 65ویں سال میں موجود ہیں۔اسحاق ڈار 66سال کی عمر میں'' خزانہ‘‘ سنبھالے ہوئے ہیں۔تواپوزیشن کے رہنمابھی کوئی کم عمر نہیں خورشید شاہ اور عمران خان بھی زندگی کے64برس گذارچکے ہیں۔خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک تو اپنی جماعت کے چیئرمین سے بھی تین سال بڑے ہیں ۔
سندھ میں ایک بار پھر نئے گورنر کیلئے'' بزرگ شخصیت ‘‘کو تلاش کیا جارہا ہے ۔سندھ کو تو پہلی بار نوجوان وزیراعلیٰ ملا ہے ورنہ تو لعل شہباز قلندر اور بھٹائی کی اِس دھرتی کی ''خدمت‘‘ زیادہ تر ''بزرگ شخصیات‘‘نے ہی کی ہے ۔سندھ کا گورنر بننے کیلئے اب تک ڈیڑھ درجن سے زیادہ نام سامنے آچکے ہیں ۔یہ کمال اخبارات اور ٹی وی چینلز کا ہے۔ رپورٹر حضرات نے اپنے قریبی دوستوں کی ''لابنگ‘‘شروع کررکھی ہے ۔روزانہ ایک نیا نام سامنے آتا ہے اور لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ نام حتمی ہے اور اس کی منظوری بھی دے دی گئی ہے ۔چوبیس گھنٹے کی خوشی کے بعد گورنری کے اُمیدوار پھر کسی او ر کانام پڑھ کر اپنی ''پوزیشن‘‘ کمزور محسوس کرنے لگتے ہیں۔
میاں نواز شریف کو ایک مشورہ ہے کہ کسی کو بھی گورنر بنائیں لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ سندھ ''بیڈ گورننس ‘‘کا شکارہے ۔کراچی میں امن تو قائم ہوگیا لیکن اب سڑکوں کی''ٹارگٹ کلنگ‘‘شروع ہوگئی ہے ایسا لگتا ہے شہر کی اہم شاہراہیںترقیاتی کاموں کے ''بم دھماکوں‘‘سے تباہ ہوئی ہیں ۔ ٹریفک جام سٹریٹ کرائم میں اضافے کاسبب بن رہا ہے ۔ جہاں ہزاروں گاڑیاں ہلنے جلنے سے قاصر ہوں وہاں مسلح افراد کیلئے لوٹ مار کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔محکمہ موسمیات بارش کی پیش گوئی بھی کرتا ہے تو لوگ چھتریوں کے بجائے ''لانگ بوٹ ‘‘ نکال لیتے ہیں کیونکہ اتنا پانی آسمان سے نہیں برستا جتنا زمین سے نکلتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ممنون حسین جیسا''خاموش گورنر‘‘ سندھ کی خدمت نہیں کرسکے گا بلکہ کراچی کو ان کی خدمت کرنا پڑے گی ۔کراچی تو ویسے ہی مظلوم ‘نادار‘لاچاراور لاوارث شہر ہے اور اس کا تو بس یہی کام رہ گیا ہے کہ پیسہ کماکر سندھ اور وفاق کے قدموں میں ڈالتا رہے ۔اور خود ٹوٹی پھوٹی سڑکوں‘ بجلی کے مہنگے نرخوں ‘پانی کے نلکوں میں ہوا‘کباڑابسوںاورتباہ حال ٹیکسیوںپر گزارا کرتا رہے کیونکہ جس ملک کے حکمران دودھ دینے والی گائے کو چارا کھلانا بھی گوارا نہ کریں اس کے تھن بھی کسی نہ کسی دن سوکھ جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں