کراچی میں اس وقت ''ہلکی گرمی‘‘کے ساتھ احتجاج ‘مظاہروں اور ریلیوںکا موسم عروج پر ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر احتجاج کررہے ہیں۔سندھ حکومت کی ''مالک‘‘ پیپلز پارٹی بھی احتجاجی دھرنا دے رہی ہے اور اس سے وزیر اعلیٰ سندھ خطاب کرتے نظر آرہے ہیں ۔کراچی میں احتجاج کیلئے سب کے موضوع مختلف ہیں۔حکومتی جماعت پیپلز پارٹی اس لئے احتجاج کررہی ہے کہ وزیراعظم پاناما کیس میں دو ججوں سے سزا پاچکے ہیں اس لئے انہیں فوری استعفیٰ دے دینا چاہیے منگل کو مزار قائد کے باہر تو رونق لگی ‘لیکن پیپلزپارٹی اتنا بڑا مجمع اکھٹا نہ کرسکی جتنی بڑی یہ پارٹی ہے۔ کسی لیڈر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ مزار قائد کے اندر جاکر فاتحہ خوانی ہی کرلے۔نثار کھوڑو نے تو ایک دلچسپ بات کی کہ ''ہم قائد اعظم سے شکایت کرنے آئے ہیں‘‘یہ کیسی شکایت تھی جس کیلئے مزار کے اندر جانا بھی نہیں پڑا‘ایسا لگ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ''امریکی قونصلیٹ‘‘میں یادداشت دینے آئی ہو‘گرما گرم تقاریر بھی ہوئیں‘مقررین نے وفاقی حکومت کو خوب لتاڑا ‘وزراء کو آڑے ہاتھوں لیا گیا لیکن فارسی کا خوب محاورہ ہے: خود را فضیحت دیگراں را نصیحت پیپلز پارٹی اس محاورے پر من و عن عمل کررہی ہے ‘جس کا ثبوت اتوار کے روزشہر قائد میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں ہیں ۔ایک ریلی ایم کیو ایم پاکستان نے نکالی ‘یہ ''حقوق ریلی‘‘سندھ حکومت کے خلاف تھی ‘ اس کا مقصد کراچی کے غصب شدہ حقوق حاصل کرنے کیلئے دبائو بڑھانا تھا۔پاک سرزمین پارٹی نے بھی کراچی پریس کلب کے باہر دو ہفتے دھرنا دیا ۔لیکن ''بھینس کے آگے بین بجانے ‘‘والوں نے مئی میں ملین مارچ کا اعلان کرکے دھرنے کا خاتمہ کیا ۔ جماعت اسلامی K الیکٹر ک کی خلاف میدان میںہے ‘وہ ماضی قریب میں کئی مظاہرے کرچکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے بھی کراچی میں ریلیاں نکالیں‘جس میں پاناما کیس کے ابتدائی فیصلے کی خوشی میں مٹھائیوں کے ٹوکرے تقسیم کئے گئے ‘بعدازاں مٹھائی بھی غائب ہوگئی اور اسے تقسیم کرنے والے کارکن بھی!!
پیپلز پارٹی جو کچھ سندھ میں بورہی ہے وہ وفاق میں کاٹ رہی ہے ۔سندھ میں بلدیاتی حقوق دبانے والی پیپلز پارٹی وفاق سے کس منہ سے احتجاج کررہی ہے یہ بھی اہم سوال ہے ۔میئرکراچی کو ناکام کرنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے ۔کراچی کی سڑکیں کھود کر سست رفتار ترقیاتی کام کی بھی مثال پیپلز پارٹی ہی قائم کررہی ہے ۔شہر قائدمیں شدید گرمی سے قبل پانی کا بحران سر اٹھاچکا ہے جو پارے کے ساتھ ہی مزید اوپر جائے گا۔کراچی کے اہم ادارے سندھ حکومت کے ''قبضے ‘‘ میں ہیں اور سندھ حکومت نے اِن اداروں کو ''دم ‘‘سے پکڑ رکھا ہے تاکہ کہیں اڑنہ سکیں۔
جمہوریت کی یہ خوبی بیان کی جاتی ہے کہ اکثریت جو فیصلہ کرے اس پر کسی کو بولنے کا اختیار نہیں ہوتا۔لیکن کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ اس موضوع پر کھل کر بات کی جائے ۔سچ یہ ہے کہ سندھ حکومت اپنے گھر میں ہی ''موسیٰ‘‘پال رہی ہے ۔بلدیاتی اداروں کے اختیارات چھین کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے مہاجروں کے اس گھائوکومزید گہرا کردیااور یہ ثابت کردیا کہ پیپلز پارٹی انہیں اپنے شہر کی صفائی کا اختیار بھی دینے کو تیار نہیں‘ اختیارات تو دور کی بات ہیں‘سیاست میں کسی کو نیچا دکھانے کے شوق میں بہت سے لوگ خود بہت ''نیچے‘‘ہوگئے ۔
1972ء میں لسانی فسادات جب بارہویں روزمیں داخل ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی کے لیڈروں کوپیغام بھیجا کہ تم ہمارے بھائی ہو آئو بیٹھ کر معاملات طے کرتے ہیں ۔بھٹو نے کراچی میں آگ اور خون کے دریا کو روکنے کیلئے اپنے ٹیلنٹنڈ کزن ممتاز علی بھٹو کی قربانی دی اور پارٹی کے دیرینہ رفیق میر رسول بخش تالپور کو گورنری کے عہدے سے ہٹایا ۔بھٹو نے اس وقت کہا تھا کہ'' اگر میں لسانی فسادات کو طول دیتا تو یہ آگ میری کرسی تک پہنچ جاتی ‘‘۔بھٹو نے سندھ کو دولسانی صوبہ بھی مان لیا اور غیر سندھی گورنر کا مطالبہ نہ صرف تسلیم کیا بلکہ غیر سندھی گورنر تعینات بھی کیا ۔لیکن پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کے چند لوگ ٹکرائو کی سیاست کو ختم کرنے کی بجائے مزید تیل ڈال رہے ہیں جس کا فائدہ آج نہیں تو کل میاں نواز شریف اٹھائیں گے اور سیاست کا ایک باب پھر غلطیوں کی نذر ہوجائے گا ۔
کراچی کے ساتھ ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ تیز ہورہا ہے ۔ ماضی میں بھی قوم کئی ایسے احتجاج دیکھ چکی ہے جن کے دوران تشددبھی ہوااور افراتفری بھی مچی۔ان مظاہروں کی وجہ سے جنم لینے والا عدم استحکام آج بھی تاریخ کا حصہ ہے لیکن کیا یہ احتجاج نتیجہ خیز ثابت ہوئے؟یہ سوال آج تک زندہ وسلامت ہے۔اِن احتجاجوں کے بعد تبدیلی صرف عوامی دباؤ کے بل بوتے پر آئی‘ ملکی سیاست پر جواثرات مرتب ہوئے وہ بھی سب کو یاد ہیں۔قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا لانگ مارچ1958ء میں کیا گیا۔خان عبدالقیوم خان نے یہ تحریکیں اسکندر مرزا کے حکومتی ادوار میں چلائیں۔پاکستان کی تاریخ کی دوسری احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ملک میں فوجی حکومت آئی۔ 1968ء میں جنرل (ر) ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک چلی۔ اس بار بھی پاکستانی اقتدار فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا اور جنرل یحییٰ خان نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔پاکستان کی سیاست میں1992ء کا سال بھی احتجاجی تحریکیں لے کرآیابینظیر بھٹو کی جماعت نے اْس وقت کی نواز شریف حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوگئی۔
1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالاتو عوام اور سیاستدانوں کی جانب سے اْن کے خلاف کوئی مخالف تحریک سامنے نہیں آئی مگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے بعد وکلا کی ملک گیر احتجاجی تحریک نے ایک نیا باب رقم کیا اوریہ تحریک قوم کو آج بھی یادہے۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی انتخابی دھاندلی کے خلاف طویل ترین دھرنا دیا ‘یہ الگ بات ہے کہ اس دھرنے کے وہ نتائج حاصل نہیں کئے گئے جو نتائج تبدیل کرسکتے تھے ۔ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد اب ایک بارپھر ملک بھر میں ایک بڑی تحریک کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں ‘وکلاء نے بھی آستینیں چڑھالی ہیں ‘تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی بھی ''احتجاجی اکھاڑے‘‘میں اترچکی ہیں اور فیصلہ کن تیاریاں جاری ہیں ۔کراچی کے حقوق کیلئے بھی تحریکیں جاری ہیں ۔ایم کیو ایم پاکستان‘پاک سرزمین پارٹی ‘تحریک انصاف اور دیگرسیاسی جماعتیں کراچی کے حقوق کیلئے ایک ہی نعرہ بلند کررہی ہیں کہ ''ساڈا حق ایتھے رکھ ‘‘۔
سیاست تو نام ہی لچک کا ہے تاریخ میں اکڑنے والے لوگ آج قبروں میںاکڑے پڑے ہیں ۔اٹلی کی مشہور خاتون صحافی اوریانا فلاسی نے بھٹو سے انٹرویو میں پوچھا تھا کہ'' آپ کی سیاست میں ٹھہرائو نہیں مستقل مزاجی نہیں اور آپ کے خیالات کیوںبدلتے رہتے ہیں؟ ‘‘جواب میں بھٹو نے کہا کہ ''یہ سیاست کی ضرورت ہے میں مخالفین سے لڑ کر اپنی انرجی ضائع نہیں کرنا چاہتا ‘‘انہوں نے اس موقع پر ایک تاریخی جملہ کہا کہ ''مستقل مزاج صرف بیل ہوتا ہے جو پوری زندگی گھاس اور چارے پر گذارہ کرتا ہے ‘‘۔کیا ہمارے آج کے سیاستدان بھٹو کے اس تجزیے کو پڑھ کر عمل کرنے کے بارے میں سوچیں گے ۔کیا جئے بھٹو کا نعرہ لگانے والے لیڈرواقعی بھٹو کے نظریے اورفلسفے پر چل رہے ہیںیا پھر یہ نعرہ صرف ووٹ حاصل کرنے کا ''ٹریڈمارک‘‘ہے؟