"ISC" (space) message & send to 7575

قبل از وقت الیکشن کی تیاریاں!!

کراچی سمیت ملک بھر میں کی جانے والی سیاست کا رنگ اور ذائقہ بالکل مختلف ہے... کہیں الزامات کی بوچھاڑ ہے تو کہیں شکووں کی برسات!!... کہیں مخالفت بڑھائی جا رہی ہے تو کہیں مخالفین کو گلے لگایا جا رہا ہے... کہیں تقسیم کی باتیں کی جا رہی ہیں تو کہیں متحد ہونے کی کوششیں جاری ہیں... پنجاب کی سیاست کچھ اور ہے تو سندھ کی کچھ اور... خیبر پختونخوا میں سیاست کے انداز نرالے ہیں تو بلوچستان کی سیاست بالکل ہی الگ ہے۔
سندھ کی سیاست کی بات کریں تو یہاں دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی نے مخالفین کو گلے لگانا شروع کر دیا ہے۔ تحریکِ انصاف نے بھی سندھ کی سیاست میں دھواں دار انٹری دی ہے۔ سندھ کے زیرک سیاستدان لیاقت جتوئی نے عمران خان کے لئے دادو میں پنڈال سجایا‘ جہاں عمران خان نے ایک بار پھر الزامات سے بھرپور ''دھواں دھار‘‘ خطاب کیا‘ جس کا نشانہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تھیں‘ جبکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی مفاہمت کی زنگ آلود تلوار کو اپنے بیانات سے دھار لگانا شروع کر دی ہے۔ بدین کے جلسے میں انہوں نے نواز شریف کو ''کاغذی شیر‘‘ کا لقب دے دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ''نواز شریف مارچ کا انتظار کر رہے ہیں‘ لیکن ہم انہیں سینیٹ کا الیکشن جیتنے نہیں دیں گے‘‘۔ سینیٹ کے انتخابات کا معاملہ آصف زرداری نے اُٹھایا ہے۔ ان کی کیلکولیشن بہت زبردست ہے۔ سینیٹ الیکشن دور تو ہیں‘ لیکن عمران خان سمیت کسی رہنما نے اس پر بات نہیں کی‘ لیکن آصف زرداری یہ ہرگز نہیں بھولے... اور ایسی بات منظرِ عام پر لے آئے کہ تجزیہ کار بھی اپنے ''سیاسی کیلکولیٹر‘‘ لے کر حساب کتاب کرنے لگے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو کتنی نشستیں مل سکتی ہیں‘ حالیہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی سیٹ کو کتنا خطرہ ہے؟ عمران خان کی پنجاب اور خیبر پختونخوا سے کتنی نشستیں بنیں گی؟ وغیرہ وغیرہ۔
سندھ کی ''شہری سیاست‘‘ اس وقت بالکل الگ ڈگر پر چل رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک پر قبضے کے مختلف منصوبے بنائے جا رہے ہیں‘ جس میں پیپلز پارٹی پیش پیش ہے۔ سڑکوں کی سیاست تو سنی تھی لیکن ''سڑکوں کی مرمت‘‘ کی سیاست پہلی بار دیکھی ہے۔ کراچی میں اس وقت پیپلز پارٹی نے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر شہریوں کو '' یرغمال‘‘ بنا رکھا ہے۔ شہر کی اہم ترین سڑک شاہراہ فیصل کی یہ حالت ہے کہ سڑک کی چھلائی کرکے اسے تین ماہ کے لئے ایسے ہی چھوڑ دیا گیا اور جب سڑک بنائی گئی تو وہ ایک مزاح نگار کے اس جملے جیسی تھی کہ ''حل سے بہتر مسئلہ تھا‘‘۔ اسی طرح شہر کی مزید سڑکوں کو بھی کھود کر دھول‘ مٹی پھیلا دی گئی۔ عالمی ادارہ صحت کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے اور سندھ حکومت کو تعمیراتی کاموں کی سست روی پر تنبیہ کی جانی چاہیے۔
آصف زرداری صاحب کے بقول وزیر اعظم سینیٹ الیکشن کے لیے مارچ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسی طرح زرداری صاحب خود کراچی میں ''ترقیاتی سیاست‘‘ کر رہے ہیں۔ منصوبوں کو جان بوجھ کر تاخیر کا شکار کیا جا رہا ہے... تاکہ عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل کراچی کے شہری نئی نویلی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے کاموں کی تعریف کریں اور ووٹ دینے کا سوچیں‘ لیکن مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کرکے ان باتوں کی تصدیق کر دی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور مہاجر قومی موومنٹ ''ایک‘‘ ہونے والے ہیں۔ آفاق احمد نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں تو ''مہاجر قوم کے یکجا ہونے پر ہنگامہ کیوں ہے‘‘۔ یہ بات مہاجر ووٹروں کے لئے خوش آئند ہے اور کراچی کی سیاست میں بھی عام انتخابات کی تیاریوں کی جھلک نظر آ رہی ہے۔
اہلِ کراچی ایک بات جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان‘ مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی اگر ایک ہو جائیں تو پیپلز پارٹی کے لیے کراچی سے تین سیٹیں نکالنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ تحریکِ انصاف کو بھی ایک یا دو سیٹوں کے لئے سخت محنت کرنا پڑے گی... اور یہی صورتحال حیدر آباد‘ سکھر‘ میرپور خاص اور نواب شاہ کے شہری علاقوں کی ہو گی۔ خوفزدہ مہاجر قوم اور مہاجر ووٹ کا مستقبل اس وقت چند مہاجر لیڈروں کے ہاتھ میں ہے... جن میں فاروق ستار‘ آفاق احمد اور مصطفی کمال بھی شامل ہیں۔ قوم کے لئے انا کے بت گرانے پڑتے ہیں... اپنے ''اندر‘‘ کو مارنا پڑتا ہے... لیڈر قوم کے لئے سوچتا ہے... اسے اپنے مفادات کی فکر نہیں ہوتی۔ ''کنفیوزڈ مہاجر ووٹ‘‘ اس انتظار میں ہے کہ ان کی لیڈرشپ ایک ہو جائے تاکہ انہیں ایک ہی انتخابی نشان پر مہر لگانی پڑے اور اگر مہاجر لیڈرشپ متحد نہ ہوئی تو انہیں انتشار اور نفاق کے ''نیچرل آپریشن‘‘ کی سزا بھگتنا پڑے گی۔
عمران خان نے بھی اس ہفتے کراچی کو ماضی کے مقابلے میں کچھ زیادہ وقت دیا۔ میمن کمیونٹی سے خطاب بھی کیا اور دائود چورنگی لانڈھی میں ایک ادھورا جلسہ پورا کیا۔ مختلف تقریبات میں شرکت کی اور کراچی کے مسائل اور وسائل کی بات بھی کی... لیکن خان صاحب کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کراچی کے مسائل پر چند تقریبات میں باتیں کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہاں تو جماعت اسلامی کے K الیکٹرک کے خلاف دھرنے کو گورنر سندھ سے یقین دہانی لینے کے لئے تین دن لگ گئے... تو مطالبات تسلیم ہونے میں کتنا وقت لگے گا‘ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی‘ سندھ میں تحریکِ انصاف اور خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے مورچوں پر جلسوں کے ''حملے‘‘ کر رہے ہیں۔ نواز شریف‘ آصف زرداری اور عمران خان تینوں ایک دوسرے پر ''گولہ باری‘‘ کر رہے ہیں... ایسا لگ رہا ہے‘ ہر طرف الیکشن کا ماحول بنا ہوا ہے۔ 2013ء کی انتخابی مہم کو کون بھول سکتا ہے‘ جب وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جلسوں میں سرِعام کہہ رہے تھے کہ اقتدار میں آنے کے بعد زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے... اگر چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہو جائے تو میرا نام بدل دینا۔ لیکن اس مرتبہ نواز شریف صاحب کو اپنی جنگ خود لڑنا پڑ رہی ہے۔ وہ آصف زرداری کو گیدڑ کا لقب دیتے ہیں تو کبھی عمران خان پر برستے ہیں‘ لیکن یہ سب کچھ وہ تنہا ہی کر رہے ہیں۔ ان کے بھائی اس معاملے میں ان کے زیادہ قریب نظر نہیں آتے۔ شاید یہ وراثت کا معاملہ ہے یا پھر کچھ اور... آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ الیکشن وقت پر ہوں گے یا ''ارلی الیکشن‘‘ کا نقارہ بجے گا؟ پاناما کا فیصلہ پہلے آئے گا یا پھر ڈان لیکس کا؟ لیکن سچ یہ ہے کہ ہر طرف الیکشن کا ماحول بنا ہوا ہے... جلسے‘ نعرے‘ ریلیاں اور تقاریر ہو رہی ہیں۔ سب کہہ رہے ہیں کہ 2017ء الیکشن کا سال ہو سکتا ہے... اور اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن اور فائدہ تحریکِ انصاف کو ہو سکتا ہے۔
آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ الیکشن وقت پر ہوں گے یا ''ارلی الیکشن‘‘ کا نقارہ بجے گا؟ پاناما کا فیصلہ پہلے آئے گا یا پھر ڈان لیکس کا؟ لیکن سچ یہ ہے کہ ہر طرف الیکشن کا ماحول بنا ہوا ہے... جلسے‘ نعرے‘ ریلیاں اور تقاریر ہو رہی ہیں۔ سب کہہ رہے ہیں کہ 2017ء الیکشن کا سال ہو سکتا ہے... اور اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن اور فائدہ تحریکِ انصاف کو ہو سکتا ہے۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں