"ISC" (space) message & send to 7575

کتنے آدمی تھے…؟؟

ستر کی دہائی کی مشہور زمانہ فلم ''شعلے‘‘میں گبر سنگھ(امجدخان)کا ایک جملہ ''کتنے آدمی تھے ؟‘‘آج پاکستان کی سیاست کا مشہور محاورہ بن چکا ہے ۔کوئی ریلی ہو یا کنونشن؟کارنر میٹنگ ہو یامارچ،جلوس ہو یا جلسہ ہر کسی کی زبان پر یہی جملہ رہتا ہے کہ ''کتنے آدمی تھے ؟‘‘ایک وقت تھا جب کراچی میں جلسے ریکارڈ بناتے اور پھر اپنا ریکارڈ خود ہی توڑتے تھے ۔اب حالات کچھ مختلف ہیں اس لئے عوام کا بڑا مجمع دیکھے عرصہ بیت گیا ۔
گزشتہ اتوارکو کراچی میں پاک سرزمین پارٹی نے ایک مارچ منعقد کیا ۔اس میں کتنے آدمی تھے ؟کا سوال حکومت سندھ نے ہی ختم کردیا،مارچ کا خوف شاہراہ فیصل پرپولیس اہلکاروں کی تعداد اور صوبائی وزراء کے بیانات سے ظاہر ہورہا تھا۔ریڈ زون میں داخلے پر پابندی کا جواز بناکر سندھ حکومت نے اس مارچ کو ''گرین زون‘‘میں ہی روک دیا اور مصطفی کمال سمیت مرکزی لیڈر شپ کو گرفتار کرلیا ۔ان تمام معاملات میں ایک بات انتہائی حیرت انگیز تھی کہ فاروق ستار کے بعد ایک اور مہاجر لیڈر کو پھر لیاری کے ایک تھانے میں رکھا گیا۔فاروق ستار کو چاکیواڑہ تھانے کا'' مہمان‘‘بنایا گیا تھا تو مصطفی کمال کو کلاکوٹ تھانے کی''سیر‘‘کرائی گئی۔ایک تجزیہ کار نے تبصرہ کیا کہ ''لگتا ہے سندھ حکومت نے اب بھی لیاری کو عقوبت خانہ بنارکھا ہے جہاں مہاجر لیڈر شپ کو چند گھنٹو ں رکھنامحفوظ سمجھا جاتا ہے ‘‘۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے والے لیڈروں کو گرفتار کرکے سہالا ریسٹ ہائوس راولپنڈی میں رکھا تھا ۔بھٹو کسی کسی مرحلے پر جمہوریت پسند ی اور رواداری کا بھی اظہار کرتے تھے لیکن سندھ حکومت نے خالص جاگیردارانہ اسٹائل میں مہاجرلیڈرشپ کو قید وبند کا مزاچکھایااور جمہوریت کیلئے ہمیشہ لڑنے والی ڈپٹی اسپیکرسندھ اسمبلی شہلا رضا نے تو شیلنگ کے حق میں گرجتے ‘برستے ہوئے کہا کہ ''جو بھی حکومت کی رٹ کو چیلنج کرے گا اس کے ساتھ یہی سلوک ہوگا‘‘عمل اور بیان دونوں بتاتے ہیں کہ سندھ کی سیاست میں لچک ختم ہوگئی ہے اور سختی آرہی ہے ۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے مصطفی کمال کی گرفتاری کی نہ صرف مذمت کی بلکہ کھل کر بیان بھی دیا،جس کے بعد سندھ حکومت کے پاس ان کو رہا کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچاتھا۔
مصطفی کمال کی گرفتاری ڈرامائی انداز میں ہوئی ۔موبائل کیمرے سے ریکارڈکیا گیا ایک ویڈیوکلپ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیاپرچلتارہا جس میں ان کی ایک ایس پی سے گفتگو میں یہ جملہ مقبول ہوگیا کہ ''میں آپ کے بچوں کیلئے پانی مانگ رہا ہوں آپ میرے بچوں پرشیلنگ کیوں کررہے ہیں؟‘‘
کلاکوٹ تھانے کے باہر لیاری کی بلوچ خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد جمع ہونا شروع ہوئی تو سندھ حکومت کی پریشانی بھی بڑھنے لگی کہ کہیں معاملہ گلے نہ پڑجائے کیونکہ لیاری پانی کیلئے ترسا ہوا سب سے بڑا علاقہ ہے جہاں پیپلز پارٹی نے ہر بار پانی دینے کے بہانے الیکشن جیتالیکن کبھی پانی لیاری والوں کا مقدر نہ بن سکا۔لیاری کے عوام پانی کیلئے آج بھی اتنا ہی ترستے ہیں جتنا 1988میں ترستے تھے ۔پرویز مشرف دور میں مصطفی کمال ہی تھے جنہوں نے لیاری میں پانی کے مسئلے کو جزوی طور پر حل کیا تھا۔لیاری میں مکمل تو نہیں لیکن بعض علاقوں میں پانی کی سپلائی شروع ضرور ہوئی تھی ۔یہ اسی کا کمال تھا کہ لیاری والوں نے اپنے محسن کیلئے کلاکوٹ تھانے کا گھیرائو کرنے کا پروگرام بھی بنالیا تھا ۔ مہاجر اوربلوچ کلاکوٹ تھانے کے باہر ایک ہی نعرہ لگارہے تھے کہ ''مصطفی کمال کو رہا کرو‘‘۔
پاک سرزمین پارٹی کو ابھی ایک سال ہوا ہے لیکن سندھ حکومت نے اسے ایک قدیم پارٹی بنادیا ۔پی ایس پی ملین مارچ تو نہ کرسکی لیکن شاہراہ فیصل پر عوام کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی ۔ کیمرے کی آنکھ نے وہ مناظر بھی دکھائے جو عام طور پر نظر نہیں آتے ۔قومی پرچم پہلی بار آنسو گیس کے اثرات کم کرنے کیلئے موثر ترین ''ہتھیار‘‘کی صورت میں نظر آیا۔
بعض سیاسی نقادوں کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو اس مرحلے پر مفاہمانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے اتنی سختی سے گریز کرنا چاہئے تھا، کئی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ پرامن احتجاج کرنا جمہوری کلچر کا حصہ ہے اور آئین اس کی اجازت دیتا ہے ۔پیپلز پارٹی اب اتنی مضبوط نہیں رہی کہ جھگڑوں کو پھیلائے اور مخالفین کی تعداد میں اضافہ کرے۔طاقت سے وقتی طور پر تو مخالف سیاسی تحریکوں کو کچلا جاسکتا ہے لیکن انہیں ختم نہیں کیا جاسکتااور کراچی تو ویسے ہی اپوزیشن کا مزاج رکھنے والا شہر ہے ۔مصطفی کمال کی پارٹی اگر پرانی ہوتی اور ان کی تنظیم گلی گلی میں پھیلی ہوتی توسندھ حکومت کے خلاف زیادہ موثر ردعمل آسکتا تھا۔
تین مہاجر تنظیموں جن میں سے ایک کی قیادت مصطفی کمال‘ دوسری کی فاروق ستار اور تیسر ی کی آفاق احمد کررہے ہیں اوریہ سب نہ آسانی سے خاموش بیٹھنے والے ہیں اور نہ ہی ہار ماننے والے ۔ہوسکتا ہے کہ فی الحال ان میں اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ جیت سکیں لیکن مہاجر ووٹروں کا بھی کچھ پتہ نہیں کسی بھی وقت سڑکوں پر آکر واقعی ملین مارچ کرسکتے ہیں اس لئے جذباتی سیاست سے گریز کرنا چاہئے ۔
صوبائی وزیر ناصر شاہ نے کہا کہ ''ہمت ہے تو کراچی بند کرکے دکھائو‘‘یہی بات 1972میں اس وقت کے گورنر سندھ میر رسول بخش تالپور نے چیلنج کرتے ہوئے کی تھی کہ ''جمعہ کے علاوہ کسی اور دن ہڑتال کرکے دکھائو ‘‘اور پھر تاریخ نے یہ بھی رقم کیا کہ پورا ہفتہ کراچی میں ہڑتا ل رہی اور آخر کار میر رسول بخش تالپور کو گورنر کا عہدہ چھوڑنا پڑا ۔ناصر شاہ تحمل مزاجی میں ''کنجوس ‘‘نکلے وہ چاہتے تو معاملات اتنے خراب نہ ہوتے جتنے کردیئے گئے۔
مصطفی کمال کا پرامن احتجاج آنسو گیس ‘واٹر کینن اور لاٹھی چارج کے بعد اخبارات کی شہہ سرخیوں میں بدل گیا اور ہر اخبار نے اسے نمایاں طور پر شا ئع کیا جبکہ ٹی وی چینلز بھی اڑھائی سے تین گھنٹے تک اس معاملے کی ''لائیو‘‘کوریج کرتے نظر آئے جس سے سندھ حکومت کے بارے میں اچھا تاثر نہیں گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کا کہنا ہے کہ ''مصطفی کمال بانی ایم کیو ایم ٹو بن رہا ہے ‘‘ابھی ایک مہاجر تنظیم کے احتجاج پر سندھ حکومت کی یہ حالت ہے تو اگر تینوں مہاجر تنظیمیں ایک ہوگئیں اور ایک ساتھ وزیراعلیٰ ہائوس کا گھیرائو کرنے نکل پڑیں تو سندھ حکومت کہاں کھڑی ہوگی اور ان کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کرے گی ان سوالات کا جواب شاید مراد علی شاہ صاحب کے پاس نہ ہو۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں