"ISC" (space) message & send to 7575

ڈاراور کراچی …!!

قومی خزانے کے ''انچارج ‘‘اسحق ڈار نے وفاقی بجٹ پیش کردیا ہے۔اس بار تو بجٹ رمضان المبارک میں آیا ہے ۔اس ماہ مبارک میں ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے ویسے ہی مہنگائی کا بوجھ عوام کی کمر توڑ دیتا ہے ۔اور اب تو سونے پر مہنگائی کا سہاگہ ہوگیا ہے ۔وفاقی بجٹ میں 500 ارب کے ٹیکس اور 565 مصنوعات پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ سے مہنگائی کا جہازاڑنے کیلئے رن وے پر تیا ر کھڑا ہے۔ 565 اشیاء پر اچانک 15 فیصد ڈیوٹی کے اضافے سے کم وبیش ہر چیز پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔بجٹ کی خاص بات یہ ہے ملک کا سب سے بڑا شہرکراچی اسحق ڈار صاحب کونظر ہی نہیں آیا۔
سندھ کے صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ''وفاق نے بڑے منصوبوں میں کراچی کو نظر انداز کیا ہے‘‘۔اب کھوڑو صاحب ازالہ کرسکتے ہیں سندھ حکومت کا بجٹ آنیوالا ہے۔دیکھیں گے کراچی کو کیا دیا جاتا ہے ۔ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بننے کے بعد بھی''معیار‘‘ پر پوری نہیں اُتررہیں۔کراچی میں پانی کا بحران اب بھی عروج پر ہے۔بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر اقتدار میں موجودشخصیات بھی نوٹس لیتے لیتے تھک گئیں ۔لیکن بجلی کا مسئلہ حل ہونے سے مزید دور ہوتا جارہا ہے ۔ٹریفک جام کی صورتحال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ کراچی کے ڈی آئی جی ٹریفک کو بیان دینا پڑا کہ ''شہری افطار سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل نکلیں‘‘۔ایسی صورتحال میں سندھ حکومت کو کراچی کے ان سنگین مسائل پر فوری توجہ دینا ہوگی ورنہ معاملات بہت خراب ہوسکتے ہیں ۔ وفاقی بجٹ میں اگر کراچی کو نظر انداز کیا گیا ہے تو سندھ حکومت کے پاس بھرپور موقع ہے کہ کراچی پر ترقیاتی منصوبوں کی بارش کردے۔بڑے بڑے منصوبے شروع کردے ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد توصوبے کے پاس زیادہ وسائل ہیں‘پیسہ ہے ‘مالیاتی ایوارڈ ہے ۔
سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''دسمبر2018ء تک سڑکوں کے42بڑے اور146 چھوٹے پراجیکٹ مکمل کریں گے‘‘۔ اب یہ سندھ حکومت کا امتحان ہے کہ وہ اپنے وعدے میں کس قدر کھری اترتی ہے۔ اور کیاوہ واقعتاً کراچی کو سندھ کا حصہ سمجھتی ہے یا نہیں؟۔ ابھی تک تو کراچی کے ساتھ ایسا سلوک کیا جارہا ہے جیسے کراچی سندھ کا حصہ ہی نہ ہو۔کیا خوب مذاق ہے کہ کراچی کی دولت اسلام آباد اور اندرون سندھ استعمال کی جارہی ہے۔کوئی محروم ہے تو وہ خود کراچی ہے یعنی چراغ تلے ہی اندھیراہے۔ یہ ایسی کھلی زیادتی ہے جس پر کوئی بھی ادارہ انصاف دینے کیلئے تیار نہیں۔ایک شاطرانہ طریقہ تو یہ بھی نکالا گیا تھا کہ کراچی کے لئے ترقیاتی بجٹ کا اعلان کرو اور آخر میں اس ترقیاتی پروگرام کو معطل کرکے فنڈز واپس خزانے میں جمع کرادو۔اہلیان کراچی کو صرف پروجیکٹ کا اعلان کرکے ہی خوش کردیا جاتا ہے عملاً کچھ نہیں ہوتا۔ پالیسی یہ بنائی گئی ہے کہ ملک کوقرضوں پر چلالولیکن کراچی کو ترقی کا موقع نہیں دو۔ اورکراچی دشمنی کی سزا پورے پاکستان کو منتقل کردی جاتی ہے۔
ملائشیا میں مہاتیر محمد نے ایک فارمولا دیا تھا کہ ملائیشیامیں صنعتیں دگنی کردو ملائشیا ایشین ٹائیگر بن جائے گا۔ نریندر مودی نے بھی یہی نعرہ گجرات میں لگایا کہ صنعتیں دگنی کردوں گا۔ لیکن افسوس !!یہاں سندھ سے نہ کوئی آواز اٹھی اور نہ ہی وفاق کو کوئی درد محسوس ہواکہ کراچی کی معیشت دگنی کردیں ۔۔تاہم یہ صدائیں سنائی دیتی ہیں کہ ہم کراچی کے صنعتی کارخانے بند کردیں گے۔ اس رویے کے ساتھ ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے؟۔۔کراچی میں آپریشن کے بعد یہ امکان پیدا ہوا تھا کہ وفاقی حکومت بحالی کے لئے خصوصی فنڈز دے گی جس طرح سوات اور وزیرستان میں دیئے گئے تھے۔ بلوچستان آپریشن کے خاتمہ کے اعلا ن کے بعد خصوصی امداد دے کر بلوچستان کی رکی ہوئی ترقی کا پہیہ نہ صرف چلایا گیا بلکہ معاشی خوشحالی میں اضافہ بھی کیاگیا۔
ایسا لگتا ہے کہ اس بات پرقومی اتفاق رائے ہے کہ کراچی کو آگے نہ بڑھنے دیا جائے کراچی کو ترقی نہ کرنے دیا جائے اور کراچی کو پھلنے پھولنے سے روکا جائے لیکن سارے عمل کی سزا ملک بھر کے عوام کو ملتی ہے اور ہمارے حکمرانوں کو کشکول اٹھاکر دنیا سے قرضوں کی بھیک مانگنا پڑتی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم پاکستان کو خوشحال کرنے کے لئے کراچی ‘ حیدرآباد‘ فیصل آباد‘ حب ‘ نوری آباد‘ کوٹری اور ملتان کو ترقی دیں۔ یہ تمام علاقے جب ترقی کی اونچائی پر جائیں گے تو ملک خود بخود ہوائوں سے باتیں کرے گا ۔اور پاکستان کے نہ صرف وقار میں اضافہ ہوگا بلکہ ہم قرضوں کی ذلت کے دلدل سے نکلنے کے قابل بھی ہوجائیں گے۔زیادہ ٹیکس لگانے سے ملکی معیشت زیادہ تیزی سے زوال پذیر ہوتی ہے۔ٹیکس ترقی کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے جب حکومتیں سرمایہ کاروں کے پاس فاضل دولت نہیں رہنے دیتیں تو وہ اس قابل ہی نہیں رہتے کہ نئی صنعتیں لگائیں اور نئی صنعتوں کا نہ لگنا معاشی جمود کا نقارہ بجاتا ہے۔ جب صنعتکار کے پاس حکمران اضافی دولت چھوڑیںگے تو اس کے بطن سے اضافی صنعت پیدا ہوگی اس وقت حکمران اور بیورو کریسی مل کر صنعت و تجارت کا'' قتل عام‘‘ کررہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں تجارت اِن ''جلادوں‘‘ سے اپنی گردن کیسے بچاتی ہے؟
وفاقی بجٹ میں اگر کراچی کو نظر انداز کیا گیا
ہے تو سندھ حکومت کے پاس بھرپور موقع ہے کہ کراچی پر ترقیاتی منصوبوں کی بارش کردے۔بڑے بڑے منصوبے شروع کر دے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد توصوبے کے پاس زیادہ وسائل ہیں‘پیسہ ہے ‘مالیاتی ایوارڈ ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں