کراچی میں بارش نے سندھ حکومت سمیت تمام محکموں کی کارکردگی پر ''پانی‘‘ پھیر دیا ہے۔ سب سے پہلے سندھ حکومت کے محکمہ بلدیات کی ''گمشدگی‘‘ کی رپورٹ درج کرانی چاہئے... پھر میئر کراچی سے پوچھنا چاہئے کہ مون سون کے سیزن میں وہ ملک سے باہر کیوں گئے؟... گورنر سندھ محمد زبیر بھی جوابدہ ہیں کہ ان کے گھر (گورنر ہائوس) کے سامنے ''سوئمنگ پول‘‘ کیسے بن گیا؟؟
طویل عرصے سے کراچی والے بارش کی دعائیں مانگ رہے تھے... ان کی خواہش تھی کہ کراچی دھل کر شفاف ہو جائے... گرمی کا زور ٹوٹ جائے... لیکن جیسے ہی بارش نے کراچی کا رخ کیا شہریوں کو اپنی جان و مال کی فکر ہونے لگی۔ برساتی نالے پہلے ہی کچرے اور غلاظت سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔ ان میں پانی کی گنجائش ہی نہیں تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بارش کا پانی ان نالوں میں جانے کی بجائے کیچڑ اور غلاظت باہر آ گئی... جس سے اطراف کی آبادیاں مکمل طور پر ڈوب گئیں۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ برساتی نالوں کی صفائی کے لئے کراچی میونسپل کارپوریشن کو تقریباً 44 کروڑ روپے دیئے گئے تھے‘ وہ کہاں ''غائب‘‘ ہو گئے اس کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہے۔
سندھ میں بلدیات کا محکمہ کیا کام کرتا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ جو محکمہ بارش کا پانی نہ نکال سکا وہ کون سے ترقیاتی منصوبے بنا سکتا ہے؟ کراچی میں بارش کی چند بوندوں کے ساتھ ہی بجلی سپلائی کمپنی کا ''المونیم نظام‘‘ ایسے بیٹھ گیا جیسے کسی بوڑھے کو کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد بس میں اچانک سیٹ مل گئی ہو۔ محکمہ بلدیات سندھ کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے جیسے ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا کہ ''تم لوگوں کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے‘‘... افغان نے جواب دیا ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے؟‘‘... بس یہاں تعلیم کی جگہ بلدیات کی وزارت لکھا جانا چاہئے۔
پیپلز پارٹی کسی زمانے میں کراچی کو پیرس بنانے کی باتیں کرتی تھی لیکن پیرس نہ سہی وہ کراچی کو ''وینس‘‘ بنانے میں ضرور کامیاب ہو گئے... صرف کشتیوں کی کمی رہ گئی تھی... وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ''کشتی سروس‘‘ شروع کر دیں... ورنہ وفاق اس ''برساتی وینس‘‘ میں ''گرین یا اورنج لائن کشتی‘‘ ضرور چلا سکتا ہے۔
محکمہ بلدیات نے بارش کے پانی کی نکاسی کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی... نہ کراچی کے برساتی نالے صاف ہوئے... اور نہ ہی کچرا اٹھایا گیا۔ کسی کو کراچی سے واقعی محبت ہوتی تو اب تک یہ تمام کام ہو چکے ہوتے... لیکن افسوس!! کہ باتیں کرنا جتنا آسان ہے عمل کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔
کراچی کی سڑکو ں کی تعمیر نو کا بھی جواب نہیں... اہم شاہراہوں پر نکاسیء آب کا نظام ہی نظر نہیں آیا۔ یونیورسٹی روڈ اور طارق روڈ سمیت اہم سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں۔ جن سڑکوں پر دو سے ڈھائی ماہ ترقیاتی کام کیا گیا اور اس دوران شہریوں کو عذاب سے گزرنا پڑا‘ ان سڑکوں کو دیکھ کر ایک مزاح نگار کا جملہ یاد آتا ہے کہ ''ایسے حل سے مسئلہ ہی بہتر تھا‘‘... یہ وہ سڑکیں ہیں جہاں وزیر اعلیٰ سندھ رمضان المبارک کے ایام میں ''فخریہ دورے‘‘ کر رہے تھے... اور یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہم نے کراچی کی سڑکیں بنائی ہیں... لیکن دو روزہ بارش نے سب کو ''دھو‘‘ دیا ہے... اب تو ہر طرف صرف پانی ہی پانی ہے۔
کراچی کا ایک اہم محکمہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی تھوڑی سی بارش میں پورا کھل گیا۔ اس محکمے کو واٹر بورڈ کہنا ہی غلط تھا کیونکہ کراچی کو پانی کی فراہمی طویل عرصے سے معطل ہے اور اب یہ محکمہ سیوریج کا پانی بھی نہیں نکال پاتا... تو اس کی حالت اس گانے جیسی ہو گئی ہے ''کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا؟؟؟‘‘۔
کراچی میونسپل کارپوریشن اور چھ ڈی ایم سیز کی کارکردگی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ نے کراچی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے... ایک کہتا ہے‘ اختیار دو‘ تو دوسرا کہتا ہے‘ جو اختیار ہے پہلے وہ استعمال کرو... لیکن اس لڑائی میں کراچی والے بری طرح پس رہے ہیں اور 66 ملی میٹر کی دو تین بارشیں مزید ہو گئیں تو پھر شہریوں کو گھروں کی پہلی منزل پر ہی اپنا دفتر قائم کرنا پڑے گا... جن کے پاس نیچے کے گھر ہیں‘ ان کے لئے اس پانی کو نکالنے سے زیادہ اہم کام کیا ہو سکتا ہے ؟
پاکستان میں اموات کے نرخ بھی سوشل میڈیا پر آ گئے ہیں لیکن اس میں بارش سے مرنے والوں کا ذکر نہیں... سوشل میڈیا پر زیر بحث یہ ''ٹیرف‘‘ سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
پاکستان میں اموات کے سرکاری نرخ
فضائی حادثے میں مرنا= 30 لاکھ روپے
جل کر مرنا = 20 لاکھ روپے
بم دھماکے میں مرنا = 10 لاکھ روپے
پنجاب میں مرنا = 20 لاکھ روپے
سندھ اور خیبر پختونخوا میں مرنا = 3 لاکھ روپے
ٹرین حادثے میں مرنا = 10 لاکھ روپے
بس حادثہ = 5 لاکھ روپے (اگر اموات 25 یا 30 سے زائد ہوں)
انصاف نہ ملنے پر خود کشی کرنا = 2 لاکھ روپے (میڈیا کوریج لازمی)
80 فیصد سے زائد جلنا = 10 لاکھ روپے
50 فیصد سے زائد جلنا = 5 لاکھ روپے
ٹانگ یا ہاتھ سے محروم ہونا = 2 لاکھ روپے
زخمی ہونا = 50 ہزار روپے
نوٹ۔ میڈیا کوریج ایک دن سے زیادہ پر 50 فیصد اضافہ
سڑک بلاک کرنے پر 30 فیصد اضافہ
صرف احتجاج کرنے پر 20 فیصد اضافہ
قائم مقام میئر کراچی ارشد وہرہ کا کہنا ہے کہ ''بارش میں شہریوں کو درپیش مشکلات سے نکالنے کے لئے صرف بلدیاتی نمائندوں اور بلدیاتی عملہ و مشینری نے کام کیا‘ بلدیاتی نمائندے نہ ہوتے تو پورا شہر مفلوج ہو جاتا‘‘... یعنی سندھ حکومت نے اختیار دینا تو درکنار بلدیاتی اداروں کی مدد تک نہیں کی... یہی وجہ تھی کہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا اور عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر کراچی سب کی آنکھوں کے سامنے دو دن میں ہی ڈوب گیا... کراچی والوں کو تو دو دن کی بارش کے بعد ہی احمد فراز یاد آ جاتے ہیں۔
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر
اور پھر بھی اگر کوئی کسر رہ جائے تو آکاش انصاری کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔
سنو جب تک یہ کچا گھر رہے گا
ہمیشہ بارشوں کا ڈر رہے گا