کراچی میں نہ پانی آتا ہے اور نہ ہی جاتا ہے۔ لوگ پینے کے پانی کو ترستے اور سڑکوں پر کھڑے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ تھوڑی سی بارش اتنی تباہی مچا دیتی ہے کہ اس کے اثرات کئی دن تک گاڑیوں‘ گھروں اور سڑکوں پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ بدھ کی شام ڈھائی سے تین گھنٹے کی بارش نے کراچی کی سڑکوں کے بخیے اور حکمرانوں کے دعوے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ بارش تھم گئی لیکن پانی گھروں‘ گلیوں‘شاہراہوں اور دکانوں میں اب بھی کھڑا ہے۔ بدقسمت اور لا وارث کراچی 54 ملی میٹر کی بارش میں ایک بار پھر ڈوب گیا۔
کراچی میں بارش کے ''سائیڈ افیکٹس‘‘ بہت زیادہ ہیں۔ دو کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی کے شہر میں جب بادل برستے ہیں تو ہر محکمے کی کارکردگی کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ بدھ کو بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ بارش کی پہلی بوند کے ساتھ ہی بجلی کے دو سو فیڈر ٹرپ کر گئے۔ آدھا کراچی اندھیرے میں ڈوب گیا اور کئی گھنٹوں تک ڈوبا رہا۔ کراچی کے باسی حالات کے رحم و کرم پر تھے اور کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔ کچھ دیر پہلے بارش میں نہانے والے کچھ دیر بعد پسینے میں نہا رہے تھے، روشنیوں کا شہر اندھیروں میں بدل گیا۔ پانی کے ساتھ ساتھ اندھیرے میں بھی ڈوبا رہا۔ گھر‘ گلیاں‘ چوراہے سب پانی اور اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بارش جاری ہو تو کراچی میں بجلی کی تقسیم کے ذمہ دار ادارے کا عملہ ایک بیان دے کر بری الذمہ ہو جاتا ہے کہ ''بارش میں مرمتی کام نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی لیکن ہم ابھی تک بجلی کے ننگے تاروں کو کپڑے نہیں پہنا سکے۔ ایسے تار پانی میں بھیگنے کے بعد کسی کام کی نہیں رہتے ''کاپر‘‘ فروخت کر کے ''ایلومینیم‘‘ فٹ کیا جائے گا تو نتیجہ بھی ایسا ہی نکلے گا۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جتنی قیمت میں بجلی کے تاروں کا ''کاپر‘‘ بیچا گیا اب اگر دوبارہ پورا سسٹم ''کاپر‘‘ پر منتقل کیا جائے‘ تو اس کی لاگت تین گنا زیادہ آئے گی۔
کراچی میں بارش کے بعد ٹریفک جام پورے شہر کو مفلوج کر رکے رکھ دیتا ہے۔ بدھ کو بھی بارش کے بعد تمام شاہراہیں پانی سے بھر گئیں اور پھر ہزاروں گاڑیاں ہارن ہی بجاتی رہ گئیں۔ کراچی میں چند محکموں کا کام نہ ہونے کے برابر ہے‘ جن میں ٹریفک پولیس سرِ فہرست ہے۔ یہ بات دعوے کے ساتھ کی جا سکتی ہے کہ اگر ٹریفک پولیس کا محکمہ نہ بھی ہو تو کراچی کی ٹریفک پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جو حال سڑکوں اور تعمیراتی کاموں کا ہے‘ اس نے ٹریفک پولیس کا کام تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔ آن لائن ٹیکسی کمپنیوں کی وجہ سے روزانہ ہزاروں امپورٹڈ اور مقامی گاڑیاں رجسٹرڈ ہو رہی ہیں لیکن ان کے چلنے کے لئے وہی سڑکیں ہیں جو ان سے پہلے تھیں۔ کراچی میں جتنی ٹریفک اس وقت سڑکوں پر موجود ہے اس کے لئے سڑکیں انتہائی ناکافی ہیں‘ محکمہ بلدیات سندھ تو اس معاملے سے قطع تعلق کرتا نظر آ رہا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ کی دلچسپی بھی تعمیراتی کاموں کی رفتار جتنی ہی نظر آتی ہے۔ ڈرگ روڈ کا ایک انڈر پاس جتنا جلد تعمیر کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا وہ اتنا ہی تاخیر کا شکار ہوا ہے اور اسی جلد بازی میں شاید ٹھیکے دار پانی کی نکاسی کا نظام رکھنا ہی بھول گئے اور اب تک ہونے والی دو‘ تین بارشوں میں یہ انڈر پاس پانی میں ڈوبا ہوا ہی نظر آیا ہے‘ انڈر پاس تعمیر ہونے کے بعد اس کے افتتاح کی ''ننھی خواہش‘‘ نے عوام کو تاحال عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا‘صد شکر کہ یہ کام گزشتہ روز پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ ایسی ہی ایک خواہش صدر مملکت ممنون حسین نے جمعرات کو ظاہر کی۔ وہ لاہور سے راولپنڈی بذریعہ ٹرین سفر کرنا چاہتے تھے لیکن بھول گئے کہ ان کی خواہش ہزاروں مسافروں کے لئے عذاب بن جائے گی اور ایسا ہی ہوا‘ پوری ٹرین کو پروٹوکول نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ لاہور اسٹیشن پر کرفیو کا سا سماں تھا‘راستے کے تمام پھاٹک بند کر دیے گئے‘ بس ایک خواہش نے سب کا حال بے حال کر دیا۔ یہی حال کراچی کی کئی سڑکوں کا ہے۔
سندھ حکومت نے جس سٹائل کی سڑکیں بنائی یا بنوائی ہیں ان کا میٹریل تو بدھ کی بارش میں سب کو نظر آ گیا‘ کئی سڑکوں پر گڑھے پڑ گئے جبکہ بیشتر سڑکیں برساتی نالا تعمیر ہونے کے باوجود تادم تحریر پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں‘ کاش موئن جو دڑو کا انجینئر زندہ ہوتا تو اس سے ہی ماسٹر پلان لے لیا جاتا وہ یقینا سندھی ہوتا‘ اس لئے سندھ کے حقوق کی ترجمانی بھی ہو جاتی اور کم از کم کراچی کا انفراسٹرکچر ایسا بن جاتا کہ لوگ صدیوں بعد بھی اس کی تعریف کرتے۔ کئی سال قبل کسی نے کہا تھا کہ ''ضلع دادو کو کراچی بنائیں گے‘‘ لیکن اب ایسا لگتا ہے کراچی کو ہی دادو بنا دیا گیا ہے۔ اندرون سندھ کے وزرا اور ارکان پارلیمنٹ شاید اپنے آبائی علاقوں جیسا ماحول چاہتے ہیں اس لئے کراچی کو بھی ایک ''دیہی علاقہ‘‘ بنا دیا گیا ہے‘ جہاں لوگ شلوار کے پائنچے اوپر کرکے گھٹنوں گھٹنوں پانی میں سے شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ گزرتے ہیں‘ کیچڑ میں لت پت‘ ٹریفک جام میں پھنسے اور اندھیرے میں گھرے کراچی والے سندھ کے حکمرانوں کو بد دعائیں دے رہے ہیں۔ کراچی تو اب ایسا شہر بن گیا ہے کہ اسے تباہ کرنے کے لئے بم اور مہلک ہتھیاروں کی ضرورت نہیں اس کے لئے بارش ہی کافی ہے۔ ہماری ناکام حکمت عملی اور افسران کی نااہلی ہی کراچی کو باآسانی ڈبو سکتی ہے۔کراچی کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے۔ کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہونے پر حالات میں بہتری لانے کے دعوے کیے جاتے ہیں ‘ لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا؛ چنانچہ اگلی بار پھر ویسی ہی صورت حال سامنے آ جاتی ہے۔
کراچی میں ہر بارش کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کراچی بلڈنگ کنڑول اتھارٹی )کا ایک اعلامیہ ضرور جاری ہوتا ہے کہ ''300 عمارتیں مخدوش قرار دے دی گئی ہیں‘‘ تمام رپورٹرز بھی اس طرح کی ایک خبر دے کر اپنا ''کوٹہ‘‘ پورا کر دیتے ہیں لیکن بارش سے قبل لیاقت آباد میں ایک نئی عمارت جس طرح زمیں بوس ہوئی ہے‘ اس نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے وجود کو ہی چیلنج کر دیا ہے۔ اس عمارت کا نقشہ کیسے منظور ہوا؟ بلڈنگ افسر نے کتنے پیسے لئے؟ بجلی اور گیس کے میٹر کیسے جاری کئے گئے؟ ایسے بے شمار سوالات عوام کے ذہنوں میں ہیں۔ اس سانحہ میں 7 قیمتی جانیں ایک ادارے کی بے حسی کی وجہ سے ضائع ہو گئیں لیکن ان سے پوچھنے والا کون ہے؟ یہ خبریں میڈیا پر آ چکی ہیںکہ ماضی میں ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی دو کروڑ روپے یومیہ بھتہ ''اوپر‘‘ پہنچاتے تھے۔ اتنی خطیر رقم کہاں سے آتی تھی اس کا جواب لیاقت آباد کی چار منزلہ عمارت کے ملبے میں ہی مل سکتا ہے۔
کراچی میں بارش کے ''سائیڈ افیکٹس‘‘ بہت زیادہ ہیں۔ دو کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی کے شہر میں جب بادل برستے ہیں تو ہر محکمے کی کارکردگی کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ بدھ کو بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ بارش کی پہلی بوند کے ساتھ ہی بجلی کے دو سو فیڈر ٹرپ کر گئے۔ آدھا کراچی اندھیرے میں ڈوب گیا اور کئی گھنٹوں تک ڈوبا رہا۔ کراچی کے باسی حالات کے رحم و کرم پر تھے اور کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔