کراچی کو وفاقی حکومت کی جانب سے 25 ارب روپے کا پیکیج دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ پیکیج شاہد خاقان عباسی کو وزاتِ عظمیٰ کا ووٹ دینے کا ''انعام‘‘ ہے۔ اس سے قبل کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے شہر کے لئے صرف 45 ارب روپے کے پیکیجز دیے گئے تھے‘ جن میں گرین لائن بس پروجیکٹ بھی شامل ہے۔ یہ ''زیرہ‘‘ بھی وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے منہ میں ڈالاگیا ہے۔ سندھ حکومت نے تو 10 کھرب 43 ارب روپے سے زائد کے بجٹ میں سے کراچی کی تعمیر و ترقی کے لئے صرف 40 ارب روپے مختص کئے... جس میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے لئے صرف ایک ارب روپے رکھے گئے تھے۔
کراچی کی موجودہ آبادی دو کروڑ تیس لاکھ سے زائد ہے... جو نئی مردم شماری میں ایک کروڑ 70 لاکھ ظاہر کی گئی ہے... جبکہ تازہ اعداد و شمار میں لاہور کی آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ بتائی گئی ہے... لیکن لاہور کے ایک اورنج لائن منصوبے کا بجٹ 300 ارب روپے ہے۔ اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 150 ارب روپے کا ٹیکس دینے والا کراچی کتنی ناانصافیوں کا شکار ہے۔ آبادی اور وسائل میں تفریق روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آبادی جتنی بڑھ رہی ہے وسائل اتنے ہی گھٹ رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ مسائل کے حجم اور شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کراچی کی بھاری آبادی کے سبب انفراسٹرکچر کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے‘ یعنی اس شہر کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی حاصل نہیں ہیں۔ دور کیا جانا‘ کراچی میں شہریوں کو پینے اور دوسرے استعمال کے لئے صاف پانی کا مسئلہ عرصے سے ارباب بست و کشاد کے سامنے اٹھایا جا رہا ہے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہو گیا۔ اس مسئلے کی شدت میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ دوسری طرف بے ہنگم انداز میں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہونے والی ترقی لوگوں کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے... بدترین ٹریفک جام معمول بنتا جا رہا ہے... اور یہ سب کچھ ''مس مینجمنٹ‘‘ کا نتیجہ ہے۔ کراچی میں ایک ہی سڑک کو بار بار بنایا جا رہا ہے... وجہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ جو سڑک بن جاتی ہے اسے ویسی ہی حالت میں رہنے کیوں نہیں دیا جاتا اور شہر کی دوسری شکست و ریخت کا شکار سڑکوں کی مرمت و تعمیر کی طرف کیوں توجہ نہیں دی جاتی؟ اہلیانِ کراچی ہر نئے وزیر اعظم سے امید لگا لیتے ہیں کہ وہ شاید اس شہر کے لئے کچھ کریں... شاہد خاقان عباسی صاحب سے بھی امیدیں باندھ لی گئی ہیں... کیونکہ کراچی میں ایک طرف بے اختیار میئر ہے‘ اور دوسری جانب بااختیار سندھ حکومت جو ابھی تک کراچی کو دل سے تسلیم نہیں کرتی۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر بلدیات کے پاس فنڈز ہیں‘ لیکن وہ کراچی پر دل کھول کر خرچ نہیں کر رہے۔ پتا نہیں اس کی کیا وجہ ہے۔
عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر‘ کراچی‘ دنیا کے گنجان ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ کراچی کی آبادی ٹوکیو، ممبئی، نیویارک اور دیگر کئی بڑے شہروں سے بھی زیادہ ہے۔ کراچی میں امن و امان قائم ہوا تو دیگر کئی طرح کے مسائل سر اٹھانے لگے‘ جن میں لوڈ شیڈنگ اور ٹریفک جام سب سے اہم ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے تو اب ''مردہ گھوڑا‘‘ بنتا جا رہا ہے۔ اب تو سرکلر ریلوے کی ''مقبوضہ‘‘ جگہ واگزار کرانے والی ٹیمیں بھی واپس آ گئی ہیں... کراچی سرکلر ٹرین کے روٹ کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے... کہیں سے پٹریاں غائب ہو گئیں تو کہیں راستہ ہی گم ہو گیا‘ اور آج اس کی جگہ بڑے بڑے کمرشل پلازے ''سینہ‘‘ تانے کھڑے ہیں... اب تو بنکاک طرز کی سکائی ٹرین یا برطانیہ طرز کی ٹیوب سروس ہی کراچی والوں کو ''ٹریفک جام‘‘ کے عذاب سے نجات دلا سکتی ہے‘ اور سرمایہ کاروں کے دل میں کراچی کے لئے ''نرم گوشہ‘‘ پیدا کر سکتی ہے... لیکن یہ کام 25 یا 50 ارب روپے میں نہیں ہو سکتا... صرف 25 ارب روپے کراچی کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
حال ہی میں عالمی ادارے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی تازہ ترین رپورٹ منظر عام پر آئی ہے‘ جس نے کراچی سے وفاقی اور صوبائی حکومت کے ''پیار محبت‘‘ کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ اس رپورٹ میں کراچی کو رہائش اختیار کرنے کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بد ترین شہر قرار دیا گیا ہے... بد ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر دمشق‘ دوسرے پر لاگوس اور تیسرے نمبر پر طرابلس ہے... بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ اور کراچی اب ایک جیسے شہر بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ شرمندگی کی بات یہ ہے کہ بھارت کے تمام شہروں کی حالت روشنیوں کے شہر سے بہتر ہے۔ برطانوی ادارے نے یہ درجہ بندی دنیا بھر کے 140 شہروں کو 100 میں سے نمبر دے کر بنائی ہے اور یہ نمبرز صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچے، امن و امان اور دہشت گردی کے خطرے کے لحاظ سے دئیے جاتے ہیں۔ گندگی کے ڈھیروں کی وجہ سے شہر کراچی کو دنیا کے ناقابل رہائش 10 بدترین شہروں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے... اور ایک سو چالیس بڑے شہروں کی لسٹ میں کراچی کا ایک سو چونتیسواں نمبر ہے۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی میں صحت کی صورتحال پر کیا اور کتنی توجہ دی۔ تعلیم کے شعبے میں کیا ترقی ہوئی۔ بنیادی ڈھانچے کا بھی ڈھانچہ سب کے سامنے آ چکا ہے۔ امن و امان کی صورت حال ضرور بہتر ہوئی جس کا کریڈٹ بھی پاک فوج کو ہی جاتا ہے... جبکہ دہشت گردی کے خلاف ''نامعلوم جنگ‘‘ ہم 15 سال سے لڑ رہے ہیں۔
کراچی آج بھی سابق صدر پرویز مشرف کو دل سے یاد کرتا ہے کیونکہ انہوں نے اس شہر کی ترقی پر دل کھول کر فنڈز خرچ کئے... لیکن اس کے بعد کراچی کسی بڑے پیکیج کو ترس گیا۔ چھوٹے چھوٹے پیکیجز ''انائونس‘‘ کئے جاتے ہیں... شہر کی آبادی کو ''لفٹ‘‘ ہی نہیں کرائی جاتی۔ بس جو دل کہے وہ فنڈز کراچی کے نام کئے جاتے ہیں... ''منی پاکستان‘‘ کے مقدر میں ''منی پیکیجز‘‘ ہی لکھے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے مسائل پر نگاہ ڈالیں تو کسی سیاسی جماعت کا منشور کسی انتخابی مہم میں پیش کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی... روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ آج تک نیا محسوس ہوتا ہے... سیاستدان انتخابی جلسوں میں جو تقاریر کرتے ہیں وہ کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں... فلاں سال لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی... ہر گائوں میں بجلی پہنچائیں گے... سڑکیں اور موٹر ویز بنائیں گے... گھر گھر سوئی گیس آئے گی‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ تمام مسائل حل ہو جائیں تو سیاستدانوں کے لئے انتخابی جلسوں میںکرنے کی تقریریں کیا رہ جائیں گی... اس کے بعد ووٹ کس بنیاد پر مانگا جائے گا... ہمارے سیاستدان بھی کتنے عجیب ہیں کہ ہر الیکشن میں وہ نعرے لگاتے ہیں جو دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کا ''ٹریڈ مارک‘‘ ہیں۔ یہ تمام مسائل بلدیاتی اداروں کے ہیں‘ جن کے حل کے لئے ہمارے وزرائے اعظم تک ایسے بات کرتے ہیں جیسے وہ یورینیم سے بجلی پیدا کر رہے ہوں... ہم ایٹمی طاقت تو بن گئے لیکن ابھی تک یہ طے نہ کر سکے کہ وفاقی حکومت کیا کام کر سکتی ہے... صوبائی حکومت کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور بلدیاتی ادارے کس مقصد کے لئے رکھے گئے ہیں؟
ہمارے سیاستدان بھی کتنے عجیب ہیں کہ ہر الیکشن میں وہ نعرے لگاتے ہیں جو دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کا ''ٹریڈ مارک‘‘ ہیں۔ یہ تمام مسائل بلدیاتی اداروں کے ہیں‘ جن کے حل کے لئے ہمارے وزرائے اعظم تک ایسے بات کرتے ہیں جیسے وہ یورینیم سے بجلی پیدا کر رہے ہوں...