لی کوآن یو جدید سنگاپور کا بانی تھا۔ سنگاپور تیسری دنیاکا واحد ملک ہے جو صرف ایک نسل میں ہی جدید دنیا کے ناصرف مقابل کھڑا ہوا بلکہ کہیں آگے نکل گیا۔ سنگاپور کا پاسپورٹ اس وقت دنیا میں سب سے طاقتور پاسپورٹ ہے۔ ملائیشیا کے ساحلوں کے قریب واقع چھوٹے سے جزیرہ نما ملک میں کیچڑ اور کچرے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھا‘لیکن لی کوآن یو نے اسے دنیا کا کامیاب اور ترقی یافتہ ملک بنا دیا۔ 1965ء میں سنگاپور کی فی کس آمدنی تقریباً چار سو ڈالر تھی لیکن 1990ء میں یہ بارہ ہزار ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ لی کے سیاسی منظر سے ہٹ جانے کے بعد بھی سنگاپور کی اقتصادی ترقی کا سفر نہیں رکا۔ لی کوآن یوکی محنت اور حب الوطنی کی وجہ سے انہیں ''سپر پارلیمنٹ‘‘ کا درجہ دیا گیا۔ وہاں کوئی قانون ان کی منظوری کے بغیر بن ہی نہیں سکتا تھا۔
بینظیر بھٹو لی کوآن یوکی کرشماتی شخصیت سے اتنی متاثر تھیں کہ انہوں نے لی کوآن یو کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔ گورنر ہائوس کراچی میں عمائدینِ شہر کے ساتھ ایک عشائیہ منعقد کیا گیا جس کا مقصد شرکا کو عالمی طاقتوں کو چیلنج کرنے والے ایک ''ایشیائی شیر‘‘ کا قریب سے دیدار کرانا تھا۔ کھانے کے دوران ''سنگا پوری خاموش انقلاب‘‘ کے بانی لی کوآن یو سے پوچھا گیا ''پاکستان کی ترقی کیلئے کیا مشورے ہیں؟‘‘ مسکراہٹ کے ساتھ جواب ملا ''ترقی بعد میں کر لینا‘ پہلے گورنر ہائوس کے کمرے کی گھڑی اور ٹیلی فون لائن ٹھیک کر لو‘ باقی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے‘‘ ۔ اس پر ایک قہقہہ لگا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
ایک طرف سنگاپور کی پیپلز پارٹی کے بانی لی کوآن یو تھے جنہوں نے اس وقت تک چیونگم پر پابندی نہیں لگائی جب تک ملک کو صاف اور شفاف نہیں بنا دیا۔ لی کوآن یو نے پوری دنیا کے سیاحوں کو اس شرمندگی کا احساس دلایا کہ چیونگم کھانا اور پھینکنا انتہائی معیوب عمل ہے۔ آئینے کی طرح چمکتی سڑکوں پر کچرا تو دور جوتوں سمیت چلنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔
اب دوسری طرف پاکستان کی پیپلز پارٹی کو دیکھیں‘ ایسا قانون منظور کروا دیا کہ کچرا سڑک پر پھینکنے والے کے خلاف تو مقدمہ درج ہو گا لیکن کراچی اور سندھ کو کچرا بنانے والوں کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ محکمہ داخلہ سندھ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق سندھ میں مقررہ کچرا کنڈیوں کے علاوہ دیگر مقامات پر کچرا پھینکنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایک بار پھر ''بدنامِ زمانہ‘‘ دفعہ 144 کا استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت عوامی مقامات، بازاروں اور سڑکوں پر کچرا پھینکنے پر پابندی ہو گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ کچرے کو آگ لگانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ سندھ حکومت کو اچانک کچرے سے ایسی کیا پریشانی لاحق ہوئی کہ سیکرٹری داخلہ سندھ سے نوٹیفکیشن جاری کروانا پڑا۔ اندر کی کہانی یہ ہے کہ یہ سب اقدامات سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر قائم واٹر کمیشن کی روشنی میں کئے گئے ہیں۔ اس میں ایک تیر سے دو شکار کئے گئے ہیں‘ جس میں ایک طرف تو محکمۂ بلدیات کوعدالت عظمیٰ کے غیظ و غضب سے بچایا جانا مقصود ہے تو دوسری جانب کچھ اور مقاصد بھی ہیں۔ یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ ایسے اقدامات سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کئے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو غریب کچرے کی ایک تھیلی کہیں پھینکتے ہوئے پکڑا گیا اسے ''مجرم‘‘ تصورکیا جائے گا۔ استغاثہ عدالت میں مؤقف اختیار کرے گی کہ یہ شخص کچرا پھینکتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے لہٰذا اسے سزا دی جائے۔ مقامی عدالتیں پہلے ہی مقدمات کے ''بوجھ‘‘ تلے اتنی دبی ہوئی ہیں کہ ہر طرف تاریخیں ہی تاریخیں ملتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ''کچرا قانون‘‘ عوام کا ''کچرا‘‘ کر دے گا اور عدالتوں میں اس بات پر جرح ہو گی کہ ملزم نے کچرے کی تھیلی کس ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی۔
ناقدین تو اب یہ بھی کہتے ہیں کہ لاڑکانہ کو دنیا کے دس جدید ترین شہروں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ بدین فرانس کو ٹکر دے رہا ہے۔ تھر کی آدھی آبادی منرل واٹر پی رہی ہے۔ حیدر آباد کی سڑکیں سنگاپور کا مقابلہ کر رہی ہیں اورکراچی تو بس نیویارک اور واشنگٹن کے درمیان ''مقابلہ حسن‘‘ میں پہلے نمبر پر آنے والا ہے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ محکمۂ بلدیات سندھ کراچی اور حیدر آباد سے کچرا تو اٹھا نہیں سکا‘ گندگی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکا۔ بڑی بڑی صنعتیں اپنا فضلہ کھلے مقامات پر پھینک دیتی ہیں یا پھر انہیں عوامی مقامات پر ہی جلا دیا جاتا ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ بس غریب کے لیے ہی تمام قوانین بنتے ہیں۔ مفرور ملزم رائو انوار کو پکڑنے میں ناکام پولیس کچرا پھینکنے والوں‘ ڈبل سواری کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو ضرور پکڑے گی، سمندرمیں نہانے والوں پر ضرور ہاتھ ڈالے گی، موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ بھی ٹوٹ جائے تو پولیس کہے گی پورے صوبے کا قانون بیچ سڑک پر ''ٹوٹ‘‘ گیا ہے، پولیس شادی ہالوں کے باہر رات بارہ بجے کے بعد ایسے محاصرہ کرکے کھڑی ہوتی ہے جیسے اندر موجود ''چور اور ڈاکوئوں‘‘ کو سرنڈر کرنے کیلئے دی جانیوالی مہلت ختم ہونے والی ہو لیکن کبھی اس پولیس نے کراچی کے سٹریٹ کرمنلزکو پکڑنے کی زحمت نہیں کی۔ پولیس کی کارکردگی ایسی نہیں کہ کراچی کے شہری اپنی ہی گاڑی کے ڈیش بورڈ پر اپنا موبائل رکھ سکیں۔ ایک طرف کوئی شہری کچرا پھینک رہا ہو اور دوسری جانب کوئی فائرنگ کر رہا ہو تو پولیس فائرنگ کرنے والے کو چھوڑ کر اپنے ''آسان ہدف‘‘ یعنی کچرا پھینکے والے کو ہی ''نشانہ‘‘ بنائے گی۔
محکمۂ بلدیات سندھ کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنانے میں اس محکمے کا اہم کردار ہے۔ پورا شہر ''کچرا کنڈی‘‘ بنانے والے‘ اب کچرا پھینکنے والوں کو پکڑ رہے ہیں‘ اس سے بڑا لطیفہ کبھی سنا اور پڑھا ہی نہیں جا سکتا۔ کراچی کو گندگی کا ڈھیر بنا دیا۔ شہر کے فنڈز پر ''قبضہ‘‘ کر لیا۔ پیپلز پارٹی نے کراچی سے لیا ضرور ہے لیکن اس شہر کو دیا کچھ نہیں۔ آج کا کراچی بھی سابق صدر پرویز مشرف کی وجہ سے ہی نظر آ رہا ہے‘ وہ فنڈز نہ دیتے، نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کو ''فری ہینڈ‘‘ نہ ملتا تو یہ شہر بہت پہلے ہی ''کچرا‘‘ ہو چکا ہوتا۔ جن کو آمر کہہ کر پکارا جاتا رہا وہ کم از کم کراچی کے ساتھ مخلص رہے۔ جمہوریت کی سب سے بڑی قیمت کراچی کے علاوہ کسی شہر نے نہیں چکائی۔ کسی جمہوری حکومت نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر دھول مٹی کا تحفہ اور سڑکوں کی کھدائی اور چھلائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ایک ہی سڑک کو تین‘ تین بار کھود کر بنانا فیشن بنتا جا رہا ہے۔ منافع بخش ادارے سندھ حکومت نے اپنی ''مٹھی‘‘ میں بند کر لئے۔ گاڑی کراچی کی سڑک پر چلے لیکن ٹیکس سندھ سرکار لے۔ گھر کراچی میں تعمیر ہو‘ نقشہ سندھ سرکار منظور کرے۔ محکمے کے نام کے ساتھ کراچی لکھا ہو لیکن اس کی''وارث‘‘ سندھ سرکار ہو۔ سندھ کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کراچی میں رہائش پذیر ہوں لیکن فنڈز اس شہر پر خرچ نہ کریں۔ جس شہر کے لوگ اس شہر کے ساتھ مخلص نہ ہوں تو راوی بھی پھر چین ہی لکھتا رہے گا اور عوام کو بھی یہی پڑھنے کا درس دے گا۔ اللہ کراچی پر کرم کرے۔آمین!
کراچی کی جن ڈی ایم سیز میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ''براجمان‘‘ ہیں ان علاقوں کی حالت تو ایم کیو ایم کے زیر سایہ علاقوں سے بھی بدتر ہے۔ ملیر پندرہ کا ایک فلائی اوور گزشتہ پانچ سال سے ''زیر تعمیر بورڈ‘‘ کے نیچے ''دبا‘‘ ہوا ہے حالانکہ گرین لائن سروس روٹ کے ایک درجن سے زیادہ فلائی اوورز مکمل ہونے کو ہیں۔ ڈرگ روڈ فلائی اوور کے تعمیراتی کام کی رفتارکا تقابل چیونٹی سے کیا جا رہا ہے اور جو شہری یہ روٹ استعمال کرتے ہیں‘ وہ روزانہ جتنی دیر ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں‘ دل ہی دل میں پیپلز پارٹی کا ایسا ''شکریہ‘‘ ادا کرتے ہیں کہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو شہر کا ''ٹھیکہ ‘‘خود ہی لیا ہے‘ اس لئے یہ سوال بھی اس سے کیا جانا چاہیے کہ محکمۂ بلدیات سندھ کیوں ''سو‘‘ گیا۔ کراچی سے ووٹ لینے کے دعویدار تو سب ہیں لیکن کام کا دعویدار کوئی کیوں نہیں؟ پیپلز پارٹی کو کام پر ووٹ مل سکتے تھے لیکن انہوں نے ''ٹرین‘‘ مس کر دی۔
لی کوآن یو نے آخری وقت میں بھی کہا تھا کہ ''میں بسترِ علالت پر ہوں تم لوگ مجھے قبرمیں اتارنے والے ہو لیکن اگر میں نے محسوس کیا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے تو میں اٹھ کر کھڑا ہو جائوں گا‘‘۔ کاش ذوالفقار علی بھٹو بھی کچھ ایسا ہی کہہ گئے ہوتے تو آج کم ازکم سندھ پنجاب سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتا۔