پہلی بار ورلڈ بینک کا شکریہ ادا کرنے کو دل چاہتا ہے کہ جس نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کراچی کی تباہی کے ذمہ داروں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کراچی کی بدحالی پر مبنی رپورٹ میں بلدیاتی اور صوبائی اداروں کی ناقص کارکردگی کا پول بھی کھل گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر کے انتظامی اداروں میں رابطے نہیں ہیں‘ جس کی وجہ سے صفائی اور سیوریج کا نظام ابتر ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ناکافی ٹرانسپورٹ سسٹم بھی شہر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جرائم اور بدنظمی کے باعث روشنیوں کا شہر اندھیروں کا شکار ہے۔ ناقص طرز حکمرانی اور اداروں کی کمزور صلاحیت کراچی کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کراچی کو قابل رہائش اور میگا سٹی بنانے کے لئے 10 برس میں ایک ہزار ارب روپے درکار ہوں گے... جس کا مطلب ہے کہ ہر سال کراچی کو 100 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور وفاقی و صوبائی بجٹ سے یہ رقم کراچی کو فراہم کرکے شہر کا انفراسٹرکچر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
کراچی والوں نے اب تک ورلڈ بینک کو اچھے الفاظ میں کبھی یاد نہیں کیا۔ ''معاشی بیمار ممالک‘‘ کو قرضوں میں جکڑنے والا یہ ادارہ اب تک کئی ممالک کو اپنی مکمل گرفت میں لے چکا ہے۔ پاکستان کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ایئر پورٹس سے لے کر موٹر وے اور پٹرول پمپس تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس گروی ہیں۔ ورلڈ بینک کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جس ''ٹرین‘‘ کا نام پاکستان ہے اس کا ''انجن‘‘ کراچی ہے۔ ٹیکسوں کا 65 فیصد سے زائد کراچی ہی ادا کرتا ہے... یعنی عالمی قرضوں کا سود کراچی ہی ادا کرتا ہے۔ زرعی ملک کی ''زرعی حالت‘‘ بھی ''سنڈیوں‘‘ نے بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ جس ملک میں سب کچھ ہو اور وہ قرضوں پر چل اور پل رہا ہو اس کا حال ہی اس کا مستقبل بن جاتا ہے۔
کراچی کے مسائل اتنے ہیں کہ ورلڈ بینک کی پوری ٹیم بھی گننے بیٹھے تو غش کھا کر گر جائے... اس لئے ورلڈ بینک نے چند اہم مسائل کی نشان دہی کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ بلدیاتی اور صوبائی اداروں کی ناقص کارکردگی کا جو ذکر ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے‘ ہم اپنے کالموں میں مسلسل کرتے رہے ہیں۔ صوبائی اداروں نے فنڈز اپنی مٹھی میں ایسے دبا کر رکھے ہیں کہ کہیں سے ایک روپیہ بھی کراچی کی ترقی کے لئے غلطی سے خرچ نہ ہو جائے۔ بلدیاتی اداروں نے بھی قسم اٹھا رکھی ہے کہ جب تک پورے پیسے نہ مل جائیں کچرا نہیں اٹھائیں گے۔ ایسی صورتحال میں سیوریج اور صفائی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ تمام حکمران کہتے ہیں کہ اداروں کو مضبوط کریں گے لیکن کمزور بھی خود ہی کرتے ہیں۔ کراچی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ تمام اداروں کو جان بوجھ کر تباہ کر دیا گیا۔ صوبائی حکومت نے دودھ دینے والی ''گائے‘‘ اپنے پاس رکھی تو ٹکر مارنے والا ''بیل‘‘ دوسروں کو دے دیا۔ سڑکوں کا وہ حال ہے کہ گاڑیاں بھی ''سسک سسک‘‘ کر چلتی ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر کراچی کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ سے جان چھوٹی تو سٹریٹ کرائمز نے کراچی کا ''گلا‘‘ پکڑ لیا۔ رواں سال سب سے زیادہ وارداتیں کراچی شہر میں ہوئی ہیں۔
کراچی اس وقت ''آئی سی یو‘‘ میں ہے اور اس کی دیکھ بھال اور علاج تو دور ہمارے حکمران اسے ''آکسیجن‘‘ تک فراہم نہیں کر رہے۔ ایک ایک کر کے کراچی کے تمام ادارے یا تو وفاق نے چھین لئے یا پھر سندھ حکومت نے ان پر ''قبضہ‘‘ کر لیا... اور یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔ کراچی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ تک نہیں دیا جا رہا... سب کے ہاتھ باندھ کر کہہ دیا کہ آئو ہمارا مقابلہ کرو۔
کیسا حسن اتفاق ہے کہ جب کراچی میں سرمایہ کاری اپنے جوبن پر تھی... صنعتیں برق رفتاری سے چل رہی تھیں... معیشت کا پہیہ رواں دواں تھا... تو ٹارگٹ کلنگ بھی ہو رہی تھی‘ بھتہ خوری عروج پر تھی اور اغوا برائے تاوان کے واقعات بھی ''تیز رفتاری‘‘ سے جاری تھے۔ جب تک ٹارگٹ کلنگ کو ''کِل‘‘ کیا گیا... بھتہ خوری کا خاتمہ ہوا... اُس وقت تک کراچی کی صنعتیں اپنی آخری سانسیں گن چکی تھیں۔ آج کراچی میں سڑکوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ اداروں کا قتل عام کیا جا رہا ہے... اور صنعتوں کا دم گھونٹا جا رہا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کا کراچی خود کفیل تھا... لیکن آج کا کراچی واقعی لا وارث ہے۔
ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں وفاق اور سندھ حکومت کو یہ مشورہ بھی دے دیا ہے کہ کراچی کو ہر سال 100 ارب روپے کی ضرورت ہے... اس شہر کو قابل رہائش اور میگا سٹی بنانے کے لئے 10 برس میں ایک ہزار ارب روپے درکار ہوں گے...اور ظاہر ہے کہ یہ رقم وفاق اور صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا اور کراچی کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جاری رہا تو کراچی صرف نام کا میگا سٹی رہ جائے گا۔
کراچی کے ساتھ ایک اور ظلم یہ بھی ہوا کہ نئی حلقہ بندیوں میں ووٹروں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا ہے... اردو بولنے والوں کا ایک پورا حلقہ ہی ختم کر دیا گیا ہے... ضلع وسطی سے قومی اسمبلی کی ایک نشست ملیر ''ٹرانسفر‘‘ کر دی گئی ہے... جبکہ ضلع جنوبی کی بھی ایک نشست کورنگی کا حصہ بنا دی گئی ہے۔ مردم شماری میں پہلے ہی کراچی کی آبادی کم دکھائی گئی۔ اب اس کے بعد کراچی کے شہری حلقوں کو دیہی قرار دے دیا گیا ہے... سونے پہ سہاگہ یہ کہ سب سے گنجان آباد علاقے وسطی کی ایک نشست ہی کم کر دی گئی... کراچی کا ایک حلقہ پونے آٹھ لاکھ ووٹروں پر رکھا گیا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ 19 سال بعد ہونے والی مردم شماری کے بعد کراچی کو صرف دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستیں ملی ہیں جبکہ ملک کے دیگر علاقوں کی صورت حال اس سے کچھ مختلف ہے۔
کراچی کی بربادی میں ''غیروں‘‘ کے ساتھ ساتھ ''اپنوں‘‘ کا بھی ہاتھ ہے...جس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل شہر صرف ایک سینیٹر ''پیدا‘‘ کر سکا۔ کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم اس وقت تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہی ہے۔ کراچی کے شہریوں کو جہاں ایک طرف دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں ووٹر بھی پریشان ہیں کہ کون سا لیڈر اصلی ہے اور کون نقلی؟... کون سی جماعت اپنی ہے اور کون سی پرائی...؟ کون سربراہ ہے اور کون کنوینئر...؟ کراچی کے ایک دانشور کا کہنا ہے کہ جس جماعت کو منزل کی جگہ رہنما کی ضرورت تھی اب اس کے پاس اتنے رہنما ہیں کہ منزل کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ آنے والے انتخابات سے قبل مہاجر سیاست کے علم برداروں کو ایک ''علم‘‘ کے نیچے جمع ہونا پڑے گا... ورنہ کراچی کے انتخابی نتائج پورے ملک کو حیران کر دیں گے۔
ورلڈ بینک کی ابھی پہلی رپورٹ آئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اسی پر اکتفا کرتے ہوئے کراچی کے لئے فنڈز فوری طور پر جاری کر دینے چاہئیں... کہیں ایسا نہ ہو کہ چیف جسٹس پاکستان‘ جسٹس ثاقب نثار ورلڈ بینک کی رپورٹ پر از خود نوٹس لے لیں... اور پھر وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری حضرات حاضریاں ہی بھگتتے رہیں۔ خوف کی وجہ سے خدمت کرنے سے بہتر ہے کہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے خدمت کی جائے۔