موجودہ حالات نے قومی حالات کی غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھا دیا ہے۔ گزشتہ برس مارچ سے چلا آ رہا سیاسی بحران‘ ملک کو سیاسی ‘ معاشی اور معاشرتی طور پر سنگین خطرات سے دوچار کرچکا ہے۔ عمران خان کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور وفاقی اتحادی حکومت کی جانب سے الیکشن میں جانے سے انکار ہرگز ایسی صورتحال نہیں جس سے مسائل کم ہوں اور ہمارا ملک آگے بڑھ سکے۔ اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے ‘ اپنے سنگین مسائل سے چھٹکارا پانا ہے تو ملک میں استحکام لانا بے حد ضروری ہے۔ مگراستحکام تب ہی ممکن ہے جب پاور کوریڈور کے تمام سٹیک ہولڈرز اکٹھے بیٹھیں ‘ کچھ بنیادی فیصلے کریں اور آگے بڑھیں۔ دنیا میں کتنے ممالک ہیں جو پاکستان کے بعد آزاد ہوئے ‘ وہ کہاں سے کہاں جا پہنچے لیکن ہم معاشی اعتبار سے وہیں کھڑے ہیں جہاں قیام پاکستان کے وقت یعنی 75 برس پہلے کھڑے تھے ۔ اس کے قصوروار ہم سب ہیں۔ سیاستدان ہوں ‘ عسکری حلقے ہوں‘ عدلیہ ہو یا پھر بیوروکریسی‘ معاشرے کے تمام طبقات نے ملک کو اس جانب دھکیلنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ کم از کم اب تو سوچ لیں کہ ملک کو ڈیفالٹ اور آئینی بحران سے کیسے بچانا ہے‘ مہنگائی اوردیگر مسائل میں پسے عوام کو کیسے ریلیف دینا ہے۔ ملک کا آدھا حصہ ہم اپنی انہی پالیسیوں کے باعث گنوا چکے ‘ اب ہم ایسا کوئی سانحہ برداشت نہیں کرسکتے۔ حتمی بات یہی ہے کہ ملک میں استحکام لانے کیلئے ہمیں اس سیاسی دلدل سے جان چھڑانا پڑے گی اور عوام کی اجتماعی دانش سے کام لینا پڑے گا۔ جمہوریت ‘ جمہور سے ہے۔ بہتر یہی ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ مقرر کریں اور پورے ملک میں بیک وقت الیکشن کروا کر وفاق اور صوبوں میں مستحکم حکومتیں قائم ہونے دیں تاکہ بدحالی کے شکار عوام کا کوئی پرسان حال ہو‘ کوئی ان کا بھی سوچے۔ معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے جامع منصوبہ تیار ہو تاکہ آئی ایم ایف سے اعتماد کے ساتھ مذاکرات کئے جاسکیں‘ نہ کہ اپنی سیاسی بقا کی خاطر آئی ایم ایف سے کئے معاہدے توڑ کر ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائیں۔
پی ٹی آئی فوری انتخابات کی حامی ہے جبکہ پی ڈی ایم انتخابات مقررہ وقت پر چاہتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان فوری انتخابات اس لئے چاہتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مقبولیت اس وقت عروج پر ہے۔ اپنے بیانیے سے وہ سیاسی مخالفین اور قومی اداروں کو دیوار سے لگا چکے ہیں۔ آپ ان کی سیاست کو پسند کریں یا اس سے اختلاف کریں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اکیلے اس وقت 13 جماعتوں پر بھاری ہیں۔ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں انہوں نے جب یہ بھانپ لیا تھا کہ بطور وزیراعظم ان کے اقتدار میں گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں تو انہوں نے جلسوں کی دھواں دھار سیریز شروع کی ‘ اپنے سائفر اور سازشی بیانیے کو اس طرح پھیلایا کہ جب انہیں اقتدار سے باہر کیا گیا تو وہ لوگ جو اُن کی پالیسیوں اور حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوکر دور جاچکے تھے وہ بھی ان کے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔
عمران خان نے پی ڈی ایم پر جس طرح سیاسی یلغار جاری رکھی اس نے پی ڈی ایم حکومت کو مسلسل دیوار سے لگائے رکھا اور ان کا کوئی بیانیہ نہیں چلنے دیا۔ کوئی بھی حکومتی لیڈرعمران خان کی جارحانہ سیاست کا مقابلہ نہیں کرسکا اور نہ ہی ان کے بیانیے کو توڑ سکا۔ گوکہ خان صاحب خود اپنے بیانیے سے یوٹرن لیتے گئے ‘ خود ہی انہیں توڑتے گئے لیکن کوئی مخالف جماعت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ عمران خان کے آڈیو ویڈیو اور توشہ خانہ وغیرہ کے جتنے بھی سکینڈل نکلے ‘ ان کے خلاف جتنے کیسز بنے ان سے بھی عمران خان کی مقبولیت میں رتی بھر فرق نہیں آیا۔ پھر لانگ مارچ کے دوران انہیں گولیاں لگیں ‘ وہ زخمی ہوئے لیکن عوام سے انہوں نے رابطہ نہیں توڑا۔ ویڈیو بیانات سے لے روزانہ کی درجنوں ملاقاتوں تک‘ وہ میڈیا کی زینت بنے رہے۔ اب حال ہی میں عمران خان نے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا جو ماسٹر سٹروک کھیلا‘ اس نے ان کے سیاسی مخالفین کو رسوا کرکے رکھ دیا ہے۔ (ن) لیگ مانے یا نہ مانے‘ پنجاب ان کے ہاتھ سے ایسے ہی پھسلتا جارہا ہے جیسے 1993ء میں پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے پھسل کر (ن) لیگ کی جھولی میں جا گرا تھا اور پھر کبھی پیپلزپارٹی کو واپس نہیں مل سکا۔
دوسری جانب پی ڈی ایم ‘ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا بیانیہ اٹھائے عمران خان کی ناکامیوں کا ملبہ اپنے سر پر اٹھانے کے دعوے کررہی ہے ۔ اب اس کی مقبولیت کا عالم وہی ہوچکا ہے جو ایک برس قبل پی ٹی آئی کا پنجاب میں تھا۔ اب میاں نواز شریف اپنی پارٹی قیادت پر جتنا بھی غصہ کرلیں ‘ انہیں لتاڑ لیں دراصل گاڑی چھوٹ چکی ہے۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز جب ملک چھوڑ کر لندن میں براجمان ہوں گے اور پھر یہ امید رکھیں گے کہ پیچھے سے پارٹی معاملات ویسے ہی چلتے رہیں گے تو اس سے بڑی خام خیالی اور کیا ہوسکتی ہے؟آپ جب اپنے لوگوں میں ہی نہیں تو نہ ہی آپ کی پارٹی اور نہ ہی آپ کا ووٹر آپ کی عزت کرے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف ملک کی خراب ترین معاشی صورتحال کے باعث امورِ سلطنت میں اتنی بری طرح پھنس چکے ہیں کہ پارٹی کو وقت دینا ان کیلئے نہایت مشکل ہوچکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان نے سیا ست میں جو تیزرفتاری قائم کردی ہے اس کا مقابلہ کرنا (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت‘ خان صاحب کی مخالف سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں۔ پی ڈی ایم کے ناقدین کے مطابق جو جذبہ اور جنون 70 برس کے عمران خان میں ہے وہ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف زرداری ‘ مولانا فضل الرحمان ‘ بلاول بھٹو اور مریم نواز میں کہاں۔ یہی نہیں‘ مرکزی قیادت کی غیر موجودگی میں مسلم لیگ (ن) کے تنظیمی ڈھانچے کی تمام تر خامیاں سامنے آچکی ہیں ‘ جہاں دوسرے درجے کی قیادت مؤثر فیصلے کرنے کی صلاحیت سے نابلد نظر آتی ہے۔ حال یہ ہے کہ پارٹی قیادت میاں نواز شریف سے وطن واپسی کا مطالبہ کررہی ہے اور میاں صاحب موجودہ سیاسی حالات میں واپس آنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر آپ قوم کے لیڈر ہیں تو پھر واپس آئیں ‘ مقدمات کا سامنا کریں اور مشکل حالات میں قوم کی رہنمائی کریں۔ لندن سے بیٹھ کر قوم کی رہنمائی نہیں ہوسکتی۔ اگر مسلم لیگ (ن) گزشتہ برس مئی میں اسمبلی توڑنے اور نئے الیکشن کروانے کے منصوبے پر عملدآمد کرلیتی اور عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد اپنا فیصلہ نہ بدلتی تو آج سیاسی حالات بہت مختلف ہوتے۔ لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ گاڑی چھوٹ چکی ہے ‘ اس لئے کم از کم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ملک میں استحکام لانے کیلئے بیک وقت پور ے ملک میں انتخابات کروانے پر غور کریں تاکہ آپ کی سیاست کا کچھ بنے یا نہ بنے ‘ کم از کم عوام اور ہمارا ملک تو سکھ کا سانس لے ۔