ملکی سیاست میں جاری ہلچل دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دے کر اور دو صوبائی اسمبلیاں توڑ کر سیاسی طور پر عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ یہی ان کے حفاظتی حصار تھے جس نے انہیں مقدمات میں گرفتاری اور سیاسی توڑ پھوڑ سے بچا رکھا تھا۔ فواد چودھری کی اچانک گرفتاری کے بعد اگلا نمبر کپتان کا بھی ہو سکتا ہے اور وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں‘ اسی لیے انہوں نے اپنے کارکنان کو زمان پارک کے باہر جمع کرلیا ہے تاکہ کارکن اپنے کپتان کے فیصلوں کا خراج ادا کریں اور انہیں گرفتار ہونے سے بچائیں۔ اپنی پارٹی اور چودھری پرویز الٰہی کی مخالفت کے باوجود پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی توڑ کر عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو سہارا فراہم کردیا ہے جس کے بعد یہ کمزور ترین حکومت بھی خود کو شیر محسوس کررہی ہے۔ اپنے ان اقدامات سے اب عمران خان کو‘ حقیقی اپوزیشن کو پہلی بار پاکستان کے جمہوری نظام میں پیش آنے والے مسائل کا بھی مزہ چکھنا ہوگا کیونکہ اکتوبر 2011ء میں جب لاہور جلسے کے بعد اُن کی مقبولیت کو چار چاند لگے تو انہیں ایک کنٹرولڈ ماحول میسر آیا‘ جہاں ان کے گرد گہرا حفاظتی حصار بھی موجود تھا۔ جو کچھ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں آصف زرداری اور نواز شریف کے خلاف ہوا‘ اس کا تو عشر عشیر بھی کبھی عمران خان کے ساتھ نہیں ہوا۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ کپتان نے بطور وزیراعظم جس طرح اپوزیشن کو دیوار سے لگوایا‘ مختلف مقدمات میں انہیں حوالۂ زنداں کیا گیا‘ اُن کا میڈیا ٹرائل ہوا اور خود خان صاحب نے توشہ خانہ کی گنگا میں ہاتھ دھوئے‘ ممنوعہ فنڈنگ کیس سے خود کو بچائے بھی رکھا اور ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر فوقیت دی۔ اس نے فی الحا ل پی ٹی آئی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ سونے پہ سہاگا‘ عمران خان نے تمام ایوانوں سے رخصت لے کر خود کو سسٹم سے تقریباً آؤٹ کر لیا ہے۔
پی ٹی آئی جو گزشتہ ہفتے تک ایوانوں میں اپنی عددی برتری کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی‘ اب اس جماعت کی سیاست سڑکوں اور عدالتوں تک محدود ہو چکی ہے۔ عمران خان کو ایسے اقدامات اس وقت کرنا چاہئے تھے جب عام انتخابات قریب نظر آرہے ہوتے‘ لیکن جو اس وقت ملک کی معاشی حالت ہے‘ اس سے تو کچھ اور ہی لگتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے دونوں صوبوں اور پی ٹی آئی کی چھوڑی نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانے کے لیے حکومت سے 55 ارب روپے مانگے ہیں جن میں سے 25ارب مانگے گئے ہیں‘ مگر الیکشن کمیشن کو ابھی تک پانچ ارب روپے جاری کئے گئے ہیں اور الیکشن کمیشن نے وزارت خزانہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں بقایا 20 ارب روپے فوری ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
د وسری جانب‘ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی سے قریبی رشتے داری ہونے کے باوجود اُن سے نہیں بنتی‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نقوی صاحب آصف زرداری‘ نواز شریف اور پی ٹی آئی کے بہت سے لیڈروں کے نہایت قریب ہیں۔ انہوں نے آتے ہی چیف سیکرٹری‘ آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور کو تبدیل کر دیا ہے۔ چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قانون کی کتاب کے مطابق چلنے کے عادی ہیں اور پریشر بالکل نہیں لیتے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور سی سی پی او لاہور بلال کمیانہ دونوں ہی مشہور پولیس افسر آفتاب چیمہ کے شاگرد ہیں۔ چیمہ صاحب جارحانہ انداز میں پولیسنگ پر یقین رکھتے تھے‘ لہٰذا لگتا ہے کہ ان کے شاگرد بھی اسی طرح کی پولیسنگ کریں گے۔ اوپر سے خان صاحب نے پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی کے خلاف جو بیانیہ بنانے کی کوشش کی وہ بھی حیرت انگیز دکھائی دیتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نگران وزیراعلیٰ ان کی حکومت گرانے کے اہم ترین کردار ہیں۔ پہلے تو خان صاحب فیصلہ کر لیں کہ اپنی حکومت گرانے کا الزام انہوں نے کس کس پر لگانا ہے؟ موصوف نے بات امریکی انڈر سیکرٹری ڈونلڈ بلوم سے شروع کی تھی اور انہیں اپنی حکومت کی فراغت کا اہم کردار گردانا تھا۔ پھر ان کے الزام کی کلہاڑی قمر جاوید باجوہ صاحب پر گری۔ اب انہوں نے تمام تر الزام ایک صحافی پر ڈال دیا ہے‘ یعنی بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ عمران خان صاحب کی کس بات پر اعتبار کیا جائے اور کس بات پر نہیں۔ بہتر ہوتا کہ خان صاحب نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی کو کڑوی گولی سمجھ کر نگل لیتے‘ انہیں خوش آمدید کہتے اور ان پر اخلاقی دباؤ رکھتے کہ وہ صاف اور شفاف الیکشن کروائیں۔ لیکن جس طرح خان صاحب شخصیات کے خلاف براہِ راست الزام تراشی کرتے ہیں‘ اس کے بعد بھی اگر وہ یہ توقع رکھیں کہ مخالف اپنے دل میں ان کے لیے نرم گوشہ رکھے تو یہ ناممکن ہے۔ خاص طور پر جس طرح پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے باقی افسروں کو ٹارگٹ پر لیے رکھا‘ ان کے احکامات کا ٹھٹھہ اڑایا‘ فواد چودھری کی گرفتار ی اسی کا شاخسانہ ہے۔ آپ کیوں آئینی اداروں کو یوں للکارتے ہیں‘ جس کے بار ے میں آئین واضح ہے کہ آپ ان پر بلاوجہ کی الزام تراشی نہیں کر سکتے۔ کیا یہ وہی الیکشن کمیشن نہیں جس کے زیر انتظام ہونے والے تمام ضمنی انتخابات آپ جیتے؟ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان کو جو سزا دی گئی‘ وہ ہرگز اتنی سخت نہیں کہ ہم کہیں اس سے خان صاحب کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ خان صاحب ایک جہاندیدہ سیاست دان بنیں اور حالات سے سمجھوتا کرکے اس کے درمیان سے اپنے لیے راہیں‘ تلاش کریں۔ اقتدار میں واپسی کیلئے صرف مقبولیت کافی نہیں‘ سٹیک ہولڈرز اور سب کو ساتھ لے کر چلنا بھی لازمی امر ہے۔
ویسے بھی ملک کی جو معاشی حالت ہے‘ عوام جس طرح پس رہے ہیں‘ ایسے میں دنیا کا کوئی بھی نارمل ملک ہوتا تو وہاں تمام لیڈر سر جوڑ کر بیٹھتے اور ملک کو اس بھنور سے نکالنے کی کوشش کرتے۔ لیکن عمران خان کی ضد اور دوسری جانب پی ڈی ایم حکومت کی فیصلے کرنے میں تاخیر سے دیوالیہ پن کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا ہے۔ اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے کی ضد کا موازنہ اسد عمر کی بطور وزیرخزانہ آئی ایم ایف نہ جانے کی ضد سے کیا جا سکتا ہے۔ دونوں کا انجام معاشی تباہی کی صورت میں ہوا۔ اسد عمر تو نا تجربہ کار تھے‘ اسحاق ڈار کو نجانے کیا ہوگیا ہے۔ وہ شاید سمجھ نہیں پا رہے کہ دنیا گزشہ سات‘ آٹھ برسوں میں بہت آگے بڑھ چکی ہے اور آئی ایم ایف بھی پاکستان کی معاہدوں پر وعدہ خلافی سے تنگ آچکا ہے‘ اس لیے وہ کسی صورت اپنی شرائط سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ آئی ایم ایف جانتا ہے کہ پاکستان کو اگلے پانچ سے چھ ماہ میں آٹھ سے دس ارب ڈالر ادا کرنے ہیں جو وہ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ادا نہیں کر سکتا۔ اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ وزیراعظم کو بھی آئی ایم ایف سے ہونے والی میٹنگز میں بیٹھنا پڑ رہا ہے تاکہ وہ آئی ایم ایف کو بتا سکیں کہ پاکستان مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے میں کتنا سنجیدہ ہے لیکن آئی ایم ایف کہتا ہے کہ زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ شرائط پر عملدرآمد کریں‘ ٹیکس شرح بڑھائیں اور ایکسچینج ریٹ پر کنٹرو ل ختم کریں۔ دیکھیں اب کیا بنتا ہے‘ ایک جانب سیاسی عدم استحکام اور دوسری جانب معاشی بدحالی۔ خدا ہی خیر کرے!!