عمران خان صاحب گزشتہ روز لاہور سے ''جیل بھرو تحریک‘‘ کا آغاز کر چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کی طرف سے گرفتاریاں دینے کے بعد تحریک انصاف کا سیاسی کھیل اب دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ادھر حکومت تحریک انصاف کی اس سیاسی چال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ دوسری طرف لیکن انتخابات کب ہوں گے؟ کیسے ہوں گے؟ اب ایک معمہ بن چکا ہے۔ سیاسی داؤ پیچ کے لیے صفیں تیار ہیں۔ ایسے میں سوالات کا ایک انبار ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا کہ کیا ہم اس پیچیدہ صورتحال سے بچ نکلیں گے؟ یا پھر ہم بدامنی اور انارکی کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ ان مسائل کا حل جمہوری عمل میں پوشیدہ ہے‘ وہی جمہوری عمل جو صدیوں میں پنپ کر آج ایک مضبوط نظام زندگی اور حکومت میں تبدیل ہو چکا ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے پاکستان بننے سے لے کر آج تک جمہوریت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے‘ اس کے نتیجے میں ہم جمہوریت کے ثمرات سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایک دوسرے کی بات سننا‘ اپنی بات طریقے سے منوانا‘ ہم اس عمل سے کوسوں دور ہیں۔ اس وقت بات صرف پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کی قیادت کی نہیں رہ گئی‘ جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں۔اس وقت ادارے بھی اسی طرح ادھیڑ بن کا شکار نظر آتے ہیں جیسے ہمارا باقی معاشرہ۔ بہرکیف عمران خان کو حفاظتی ضمانت مل چکی ہے۔وہ ہائی کورٹ پیشی کیلئے نکلے تو ان کے ساتھ ایک بڑا جلوس تھا اوریہ جم غفیر عدالت عالیہ میں ان کی حاضری میں تاخیر کا سبب بھی بنا۔ عدالت کی جانب سے انہیں حاضری کی ڈیڈ لائن دیے جانے کے بعد اگر عمران خان کی گاڑی کو تیز نہ دوڑایا جاتا اور وہ بروقت لاہور ہائی کورٹ نہ پہنچ سکتے تو ان کے لیے ممکنہ طور پر اس عدم پیشی کے نتائج مختلف ہو سکتے تھے کیونکہ عدالتیں اس قسم کے معاملات میں عموماً حساس واقع ہوتی ہیں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو ایل این جی کیس کی پیشیاں باقاعدگی سے بھگت رہے تھے‘ ایک بار جب احتساب عدالت وقت پر نہ پہنچ پائے تو عدالت نے ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔مگر سیاسی جماعتیں اس قسم کے واقعات سے اپنی مرضی کے معانی اخذ کرتی ہیں اور پھر انہیں بیانیے کی صورت میں آگے بڑھاتی ہیں جس سے بعض اوقات مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔
ابھی یہ سیاسی بحران جاری ہی تھا کہ صدرِ مملکت کے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے سے یہ سیاسی بحران آئینی بحران میں تبدیل ہو گیا۔ صدر عارف علوی نے الیکشن کی تاریخ‘ یہ حقیقت جاننے کے باوجود دی کہ یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے موجود ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ بات ایک خط کے ذریعے صدر صاحب کے گوش گزار کردی تھی کہ وہ الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر مشاورت نہیں کر سکتے کہ معاملہ ابھی عدالت کے سامنے موجود ہے۔
آئین کہتا ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں 90روز کے اندر انتخابات کروانا ہوں گے لیکن حکومت ہے کہ وہ الیکشن کرانے کو تیار نہیں۔ حکومت کے لگائے گورنرز صوبائی الیکشن کی تاریخ نہیں دے رہے۔ گورنر پنجاب کہتے ہیں کہ میں نے تو اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط نہیں کیے‘ میں کیسے تاریخ دے دوں؟ پھر سوال اٹھتا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا آخر کیوں تاریخ نہیں دے رہے؟ انہوں نے تو اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط بھی کیے تھے۔ خود سوچئے کہ کیا ان حرکات سے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ جمہوری و سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کی دانستہ کوشش ہو رہی ہے۔ اگر تبدیلی الیکشن کے ذریعے نہیں آئے گی تو پھر ہمارا ماضی بتاتا ہے کہ ہمارے یہاں تبدیلیاں پھر غیر جمہوری راستوں سے آتی ہیں۔ ہم کیوں 90روز کے اندر الیکشن نہ کروا کر آئین شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں؟ پی ٹی آئی اس حوالے سے پی ڈی ایم پر الزام لگاتی ہے کہ وہ الیکشن سے بھاگ رہی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سیاستدان کبھی الیکشن سے بھاگ سکتا ہے کیونکہ اس کی سیاسی زندگی میں الیکشن لازم و ملزوم ہے۔ وہ حلقے کی سیاست کرتا ہے‘ کبھی وہاں سے جیتتا ہے کبھی ہارتا ہے۔ وہ اس عمل سے بارہا گزر چکا ہے‘ اس لیے مجھے اس تاویل کی سمجھ نہیں آتی کہ سیاستدان الیکشن سے کیوں بھاگیں گے۔ کہیں اس کا مطلب پھر یہ تو نہیں کہ وہ اس وقت الیکشن کے حق میں نہیں؟ اس سے تو لگتا ہے کہ وہ اس وقت کسی تبدیلی خاص طور عمران خان کی ممکنہ تبدیلی کے حق میں نہیں؟ کیا معاشی بحران اور دہشت گردی کا سر اٹھاتا ناگ‘ الیکشن کے ملتوی ہونے کا سبب قرار پا سکتے ہیں؟ اس طرح تو مستقبل میں ایک عجیب صورتحال پیدا ہو جائے گی کہ کوئی حکومت پانچ سال مکمل کرے گی اور سیاسی جماعتیں اس خوف سے کہ اگلے انتخابات میں اس کا ناپسندیدہ سیاستدان اقتدار میں آسکتا ہے‘ وہ حیلے بہانوں سے الیکشن ملتوی کرنے کی کوشش کریں گی۔ نگران حکومتوں کو دوام دیں گی‘ اس طرح تو پاکستان کا نظام حکومت تباہ و برباد ہوکر رہ جائے گا۔
اُدھر عمران خان صاحب اپنی ضمانت کروا کر جماعت کے کارکنان کو جیل بھجوا رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ قومی اسمبلی سے استعفے دے چکے‘ جہاں اب وہ واپس جانے کے لیے دن رات عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے میں مصروف ہیں کہ کسی طرح مجھے اسمبلی میں واپس بھیج دیں۔ حکومت کا حال دیکھیں تو پہلے وہ عمران خان کو اسمبلیوں میں واپس دیکھنا چاہتی تھی لیکن جب وہ واپس آنے لگے تو سپیکر نے پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کر لیے۔ یعنی پہلے تحریک انصاف کی قیادت نے پارلیمنٹ کو بے توقیر کی‘ اسے نامکمل بنایا اور اب حکومت مُصر ہے کہ وہ اسی لنگڑی لولی پارلیمنٹ کو الیکشن تک چلائے گی۔ اگر دونوں پارٹیوں کو جمہوریت کا ذرا بھی پاس ہوتا تو وہ کم از کم پارلیمنٹ کو یوں بے توقیر تو نہ کرتیں۔ یہی نہیں‘ چیئرمین نیب کا اچانک استعفیٰ اور یہ پیغام کہ وہ کسی غیرقانونی احتساب کا حصہ نہیں بنیں گے‘ حکومت کے طرزِ عمل پر سوال اٹھاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس تمام صورتحال کا جائزہ لیں تو نتیجہ یہی سامنے آتا ہے کہ پی ڈی ایم اور پاکستان تحریک انصاف کے رویوں سے سیاسی و جمہوری عمل اور آئین کی پاسداری خطرے میں ہے۔ صوبوں میں بروقت الیکشن نہ کروانے سے اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ ایک طویل نگران سیٹ اَپ کی تیاری کی جارہی ہے جس میں دیگر اہم حلقوں کی منشا بھی شامل نظر آتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت بنگلہ دیش ماڈل کو پاکستان میں دہرانے کی کوشش ہورہی ہے جہاں تین سال کے لیے نگران قومی حکومت بنا ئی گئی تھی لیکن بات یہ ہے کہ اس نگران حکومت نے جیسے ہی الیکشن کرائے حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کی پارٹیاں دوبارہ قومی منظر نامے پر ابھریں اور یوں یہ ماڈل بنگلہ دیش میں بھی ناکام ٹھہرایا گیا۔ بہتر ہے کہ ہم اپنی اور دوسروں کی غلطیوں سے سیکھیں اور صرف اور صرف آئین کی عملداری کو یقینی بنائیں۔ الیکشن کرائیں‘ عوام جسے مینڈیٹ دیں اسے حکمرانی کا موقع دیں۔ مجموعی طور پر سیاسی جماعتیں اور سیاست دان موجودہ بحران کو اس نہج تک لانے کے ذمہ دار ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وہ اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں۔