پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش ایک سرکس کا روپ دھار چکی ہے‘ جس میں دن رات نت نئے تماشے ہورہے ہیں لیکن ملک و قوم کیلئے کوئی بامعنی قدم نہیں اٹھایا جارہا۔ سیاسی ماحول اتنا کشیدہ ہو چکا ہے کہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی اور سمت دیکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے بدھ کے روز لاہور میں جس ریلی کا اعلان کر رکھا تھا‘ اسے روکنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا‘ اس سے ہماری سیاست کا مخاصمت میں بدل جانے کا عندیہ مل رہا ہے۔ گو کہ اس وقت صوبے میں نگران حکومت موجود ہے‘ جس کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں لیکن ایک سیاسی ریلی کو اس طرح روکنا اس کی غیر جانبداری پر سوال نہیں اٹھاتا؟
پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی میں لفظی گولہ باری جاری ہے۔ پوائنٹ سکورنگ کی بھرپور کوشش ہورہی ہے۔ اس دوران سب سے زیادہ نقصان آئین‘ معیشت اور عوا م کا ہورہا ہے۔ اعلیٰ عسکری قیادت نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ وہ سیاست میں نہیں پڑے گی‘ سیاستدان اپنے مسئلے خود نمٹائیں‘ جس کے بعد اب سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ اگلے ماہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ایک سال مکمل ہو جائے گا لیکن بدترین مہنگائی اور کوئی سیاسی سمت نہ ہونے کے باعث اس وقت عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ غریب عوام اب دو کے بجائے ایک وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم موجودہ مہنگائی کا ذمہ دار عمران حکومت کو ٹھہراتی ہے لیکن کوئی حکومت سے تو پوچھے کہ بے شک گزشتہ دورِ حکومت مثالی نہیں تھا اور عوام مہنگائی سے تب بھی بے حال تھے مگر شہباز حکومت نے خود کیا کیا؟ ان کی حکومت میں مہنگائی 12 سے 32فیصد پر پہنچ گئی‘ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جبکہ شرحِ سود 20 فیصد ہونے سے کاروبار کا بالکل ہی بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ حکومتی بے چینی تو ایک طرف‘ عمران خان صاحب بھی اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سے بے چین ہیں اور پھر سے اقتدار کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کپتان کو دیکھ کر لامحالہ ذہن میں آجاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ انہوں نے اقتدار کی محبت میں تمام حربے استعمال کر ڈالے۔ پہلے قومی اسمبلی توڑی جسے سپریم کورٹ نے دوبارہ بحال کیا۔ اس کے بعد پھر سے عوام کی جانب سے دیے گئے پانچ سالہ مینڈیٹ کا احترام نہ کیا اور اپنا سیاسی پینترا قرار دیتے ہوئے دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑ ڈالیں۔ اس سے قبل وہ امریکی سازش کا خود ساختہ بیانیہ بھی بنا چکے ہیں اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے آئی ایم معاہدے کی خلاف ورزی بھی کر چکے ہیں‘ جس کے اثرات ابھی تک ملکی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں۔دوسری طرف پی ڈی ایم حکومت کی سیاست کا جائزہ لیں تو اس کے طرزِ عمل سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق پنجاب اور کے پی میں 90 دن کے اندر اندر الیکشن کا انعقاد کروانے کو تیار ہے۔ اس کی بڑی نشانی مریم نواز کے حالیہ بیانات اور تقاریر ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں یہ تو کہتی سنائی دیتی ہیں کہ الیکشن ضرور ہوں گے لیکن ساتھ ہی پہلے ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہونے کی شرط بھی عائد کرتی ہیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب تک نوازشریف کے خلاف فیصلوں پر نظر ثانی نہیں کی جاتی ‘ملک میں الیکشن نہیں ہو سکتے۔ وہ اپنے سیاسی جلسوں میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے خلاف مسلسل سخت زبان استعمال کر رہی ہیں۔ اپنی ایک حالیہ تقریر میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو نشانے پر لیا۔ اگر مریم نواز کے الزامات اور مطالبات کو ایک لمحے کے لیے درست مان لیا جائے (جوکہ درست نہیں) تو خود مریم نواز صاحبہ نے اب تک اپنے قائد کو ریلیف دلوانے کے لیے عدالتوں میں کون سی نظر ثانی اپیلیں دائر کی ہیں؟ اس وقت ملک میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے‘ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بھی میاں شہباز شریف براجمان ہیں اور میاں نواز شریف پھر بھی لندن میں بیٹھے ہیں۔ ایسے میں مریم نواز صاحبہ کیسے یہ خیال کر سکتی ہیں کہ اُن کے تمام مسائل از خود حل ہو جائیں گے۔ کیا قانونی لڑائی کو سیاسی جلسوں میں لڑا جا سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ طریقہ صاف ہے‘ اس مقصد کے لیے میاں نواز شریف کو ملک واپس آنا ہوگا۔ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا اور پھر اپنی قانونی لڑائی قانونی ضوابط پورے کرتے ہوئے لڑنا ہوگی۔ صرف نوازشریف کو ریلیف دلوانے کے لیے حکومت کیوں اور کیسے آئین شکنی کرکے صوبائی انتخابات کو 90 دن سے آگے لے جا سکتی ہے؟
سپریم کورٹ کے فیصلے پر پی ڈی ایم کو تحفظات ہو سکتے ہیں اور وہ اس فیصلے کی مرضی کی تعبیرات بھی کر رہی ہے لیکن آپ جو بھی کہیں‘ یہ اکثریتی فیصلہ ہے‘ آئین کی روح کے مطابق ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ایسی کوئی مثال قائم نہیں کی جانی چاہیے کہ آئندہ جب بھی اسمبلیوں کی مدت پوری ہو تو 90 دن کے اندر انتخابات کروانا مشکل ہو جائے اور ہر دفعہ عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی معاشی اور سکیورٹی مسائل کی بنا پر الیکشن میں تاخیر کا مطالبہ کیا ہے‘ شاید وہ اس پاور گیم میں آئین اور اداروں کو پہنچنے والے نقصان سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف کی سیاست تضادات کا شکار نظر آتی ہے‘ آئے روز نت نیا بیانیہ بنا لیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے مخالفین مل کر کبھی انہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکے جتنا وہ خود کو پہنچاتے ہیں۔ بدھ کے روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے لاہور میں ریلی نکالنے کا اعلان کیا گیا۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے مذکورہ ریلی کو عدلیہ سے یکجہتی کی ریلی قرار دیا گیا جبکہ جماعت کے قیادت اس سے پہلے خود نظام عدل کے حوالے سے جارحانہ رویے کا مظاہرہ کر چکی ہے۔ مختلف کیسز میں جب جماعت کی قیادت کو پیشیوں پر بلایا جاتا ہے تو ان کی طرف سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے۔ خان صاحب پہلے اپنی خرابیٔ صحت کی وجہ سے عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے اور اب سکیورٹی ایشوز کو وجہ بتایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مگر سیاسی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں‘ خان صاحب ہفتے کے روز سانگلہ ہل میں انتخابی مہم کے آغاز کے لیے جو عوامی جلسہ کرنے جارہے ہیں کیا وہاں سکیورٹی خطرات نہیں ہوں گے؟
شنید ہے کہ خان صاحب اعلیٰ عسکری قیادت سے ملاقات کے بھی متمنی ہیں جن کی طرف سے یہ کہہ کر ملاقات سے انکار کیا جا چکا ہے کہ سیاستدان اپنے مسائل خود حل کریں۔ ایک جانب تحریک انصاف کی قیادت مقتدر حلقوں کے حوالے سے جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اور دوسری طرف سیاسی امور کے حوالے سے ملاقات کی بھی متنی ہے‘ یہ کیسا طرزِ عمل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہماری سیاسی اشرافیہ ذاتی مفادات کو مقدم جان کر ملک پر حکمرانی کرے گی اور قومی مفادات کو پس پشت ڈالے گی اور پھر اس بات پر نالاں بھی ہوگی کہ ہمارا قافلہ کیوں لٹا؟ ہماری قیادت کدھر تھی تو اس پر بے اختیار یہ مصرع صادق آتا ہے کہ 'مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے‘۔