اپنے کالم کی انہی سطروں میں متعدد بار گزارش کی گئی کہ راقم کو پنجاب میں 30اپریل کو الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے اور الیکشن جب بھی ہوں گے‘ ایک ساتھ ہوں گے۔ اس کی وجہ کوئی علمِ نجوم یا ٹھوس معلومات نہیں تھی بلکہ سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے طالب علم کے طور پر مجھے وہ ماحول بنتا نظر نہیں آرہا تھا جو انتخابات سے قبل سالہا سال سے دیکھ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب کا صوبائی الیکشن کا شیڈول واپس لیتے ہوئے 8اکتوبر الیکشن کی نئی تاریخ مقرر کر دی ہے‘ یعنی وہی تاریخ جب پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے اس کی جو وجوہات بیان کی ہیں‘ میری نظر میں زمینی حقائق کے علاوہ آئینی سکیم سے بھی مطابقت رکھتی ہیں‘ جن کی بنیاد وزارتوں اور اداروں سے مشاورت پر ہے۔ آئین میں وفاق اور صوبوں کے مابین علیحدہ علیحدہ انتخابات کی گنجائش موجود نہیں کیونکہ وفاق میں اور صوبوں میں بیک وقت نگران حکومتیں نہیں ہوں گی تو انتخابات کی شفافیت پر سوالات کھڑے ہوں گے۔ یہی دیکھ لیں کہ اگر موحودہ سیٹ اَپ کے زیر نگرانی پنجاب میں انتخابات ہوتے ہیں اور بالفرض ان میں پی ٹی آئی کو اکثریت نہیں ملتی تو کیا وہ دھاندلی کا الزام نہیں لگائے گی؟ اسی طرح اگر پنجاب میں کوئی جماعت حکومت بنا لیتی ہے تو وفاق میں ہونے والے انتخابات میں اسے حکومت بنانے سے کون روک سکتا ہے؟ عمران خان کا تو 2013ء سے مقدمہ ہی شفاف انتخابات ہیں جو بعدازاں باقی جماعتوں کا بھی مقدمہ بن گیا۔ تو کیا علیحدہ انتخابات کروا کر ایسی پھوٹ ڈال دی جائے جس کا نتیجہ انتشار اور سیاسی افراتفری کے سوا کچھ نہیں ہوگا؟ جس ملک میں نظریۂ ضرورت کے تحت ملک کی قسمت 35سال کیلئے ڈکٹیٹروں کے حوالے کردی گئی کیا وہاں پر آئین کی حفاظت اور مستقبل کے انتشار سے بچنے کیلئے آئینی حدود میں رہتے ہوئے نظریۂ ضرورت کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟
دوسری جانب عمران خان کا اعتراض ہے کہ اگر الیکشن کمیشن 30اپریل کو انتخابات نہیں کرواتا تو پھر وہ 8اکتوبر کو بھی انتخابات ہوتے نہیں دیکھ رہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اور الیکشن کمیشن نے مل کر آئین پر واردات کی ہے‘ کون گارنٹی دے سکتا ہے کہ 8اکتوبر کو الیکشن ہوگا؟ اگر ایک مرتبہ آئین کا قتل ہونے دیا تو پھر یہ سلسلہ نہیں رُکے گا۔ عمران خان نے کہا کہ اس سے قبل ضیاالحق نے کہا تھا کہ وہ 90دن میں انتخابات کرائیں گے لیکن 11سال تک ملک پر حکومت کرتے رہے۔ اگر خان صاحب کے اس اعتراض کو دیکھا جائے تو ان کی بات اس حد تک تو جائز ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر الیکشن کمیشن نے 30اپریل کے انتخابات ملتوی کیے ہیں‘ وہ وجوہات 8اکتوبر کو بھی موجود ہوں گی کیونکہ معاشی مسائل اور سکیورٹی مسائل اس قدر جلد ختم نہیں ہونے والے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی ضد اور اَنا کے ہاتھوں ملک کو ان حالات کی جانب دھکیل دیا جہاں آئین اور اس کی سکیم پر سوالات اٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اگر چوہدری پرویز الٰہی کی بات مانتے اور پنجاب میں اسمبلی نہ توڑتے تو وہ نہ صرف اس بلی چوہے کے کھیل سے محفوظ رہتے جس کے تحت انہیں چھپ کر عدالت جانا پڑتا ہے یا پھر گرفتاری کے ڈر سے اپنے کارکنوں بشمول بچوں اور عورتوں کو ڈھال بنانا پڑتا ہے‘ انہیں مقدموں کی طویل قطار کا سامنا ہے‘ بلکہ پنجاب کی حکومت میں رہتے ہوئے وہ وفاقی حکومت کو مذاکرات کی ٹیبل پر آنے پر بھی مجبور کر سکتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آئین کی پامالی کا سلسلہ تو خود خان صاحب نے شروع کیا تو یہ بھی شاید غلط نہ ہوگا۔ جس طرح عمران خان نے سائفر کے جھوٹے بیانیے پر ایک فعال پارلیمنٹ کو اپنے ڈپٹی سپیکر کی طرف سے تڑوایا جس کی صدرِ مملکت نے توثیق کر دی‘ وہ بھی قابلِ مذمت اقدام تھا جس کے آفٹر شاکس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ پی ڈی ایم کی تو اس وقت کوشش ہوگی کہ موجودہ پارلیمنٹ اکتوبر تک کام جاری رکھے کیونکہ صدرِ مملکت نے ستمبر میں عہدے سے سبکدوش ہو جانا ہے‘ اور یہی پارلیمان اگلا صدر بھی منتخب کر جائے۔ ستمبر میں ہی چیف جسٹس آف پاکستان بھی ریٹائر ہو جائیں گے اور اسی حکومت کی موجودگی میں نئے چیف جسٹس بھی آجائیں گے۔ ہو سکتا ہے پھر حکومت کی کوشش ہو کہ اسمبلی کی مدت مزید چھ ماہ بڑھا کر انتخابات 2024ء تک لے جائیں‘ جیسا کہ مولانا فضل الرحمان اکثر کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں لیکن اس صورتحال سے سیاسی انتشار کم نہیں ہوگا‘بلکہ بڑھے گا۔
یہی وجہ ہے کہ اب خان صاحب کیلئے واحد امید اعلیٰ عدلیہ ہے‘ کیونکہ ان کے خیال میں اگر عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے پر سٹینڈ نہ لیا تو پھر الیکشن اکتوبر میں ہونا بھی محال ہے۔ پی ٹی آئی نے الیکشن تاریخ کی تبدیلی کے خلاف مشترکہ آئینی درخواست عدالتِ عظمیٰ میں دائر کر دی ہے۔ تحریک انصاف کی درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے آئینی مینڈیٹ اور عدالت کے فیصلے سے انحراف کیا‘ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے‘ الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق 30اپریل کو الیکشن کرانے کا حکم دیا جائے۔ لیکن پی ٹی آئی نے خلافِ توقع الیکشن کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کی پٹیشن دائر نہیں کی بلکہ عدالت سے آئینی سوالات کی صورت میں فیصلہ مانگا ہے کہ آیا الیکشن کمیشن نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور کیا وہ عدالت کا فیصلہ ماننے کا مجاز نہیں؟
بنیادی طور پر اب الیکشن کے اس معاملے کا فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے‘ لیکن حکومتی حلقوں کی جانب سے پہلے ہی یہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے 63ون ایف کی تشریح کے دوران آئین کو بیان کرنے کے بجائے آئین میں ترمیم کردی تھی‘ جس کی بدولت پنجاب سے حمزہ شہباز کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پنجاب میں بحران نے جنم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے بھی اس دفعہ تیاری کے ساتھ عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کچھ سخت تقاریر کے بعد اور اٹارنی جنرل شہزاد الٰہی کے استعفیٰ کے بعد کسی ایسے شخص کو اٹارنی جنرل لگانے کی کوشش کی جائے گی جو واضح ذہن کے ساتھ اپنے دلائل عدالت کے سامنے رکھ سکے۔ اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ آیا عدالتِ عظمیٰ اس قضیہ کا کیا حل نکالتی ہے کیونکہ ملک اس وقت جن سنگین مسائل کا شکار ہے‘ اس کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کے علاوہ بعض اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ سب اپنی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور ملک کو ان مسائل سے نکالنے کی کوشش کریں جن میں پاکستان دھنس چکا ہے۔