وہی ہوا جس کا ڈر تھا‘ حکومت نے پارلیمنٹ کو ڈھال بناتے ہوئے الیکشن کی راہ میں پھر رکاوٹ کھڑی کردی اور یوں ابھی تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کے فنڈز جاری نہیں ہوسکے۔ سپریم کورٹ کی 10 اپریل کی ڈیڈ لائن ہوا میں اڑا دی گئی ہے اور معاملہ قائمہ کمیٹی کی کورٹ میں ڈال کر حکومت نے مزید وقت حاصل کرلیا ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں ایک صفحہ پرمشتمل رپورٹ جمع کرادی ہے۔الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم نہیں کیے۔ واقفانِ حال کے مطابق الیکشن کمیشن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے لیے صرف 75 ہزار اہلکار دے سکتے ہیں‘جبکہ پنجاب میں انتخابات کے لیے تین لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کی کمی ہے۔اب رپورٹ جمع ہوچکی اورسپریم کورٹ اس پر کیا ایکشن لیتی ہے یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘لیکن ایکشن سے مجھے یاد آیا کہ رانا ثنا اللہ کو بھی سپریم کورٹ کا ممکنہ ایکشن نظرآرہا ہے کیونکہ یہ ایکشن وزیر اعظم آزاد کشمیر کی نا اہلی کہ صورت میں عدالت نے لے لیا ہے ۔وزیر اعظم آزاد کشمیر کو توہین عدالت میں نا اہل کیا گیاہے۔ شاید وزیر اعظم شہباز شریف پر بھی عدالت کی حکم عدولی پر نا اہلی کی تلوار چل سکتی ہے‘ اسی کو دیکھتے ہوئے رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ اگر وزیر اعظم کی نااہلی کی صورتحال پیدا ہوئی تو ہم بھی پوری طرح تیار ہیں۔اب کیسی تیاری کی وہ بات کر رہے ہیں‘ اس حوالے سے مجھے دو باتیں ہی سمجھ میں آتی ہیں‘ایک تو یہ کہ اگر عدالت کی حکم عدولی پر شہباز شریف کی نا اہلی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تو پھر (ن) لیگ قانونی لڑائی لڑے گی یا پھر وہی والا معاملہ ہوگا جیسا کہ 1997ء میں جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت کے ساتھ ہوا۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی چیف جسٹس سے کھلے عام استعفیٰ مانگ رہی ہیں۔ان پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔ کھلے عام عمران خان کی سہولت کاری کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اب تو سپریم جوڈیشل کونسل میں وکیل سردار سلمان احمد ڈوگر کی جانب سے چیف جسٹس اور دیگر تین ججز کے خلاف ریفرنس بھی دائر کر دیا گیاہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال‘ جسٹس اعجاز الاحسن‘ جسٹس منیب اختر اور جسٹس سید مظاہر علی نقوی کے خلاف دائر شکایت میں جوڈیشل مس کنڈکٹ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ دوسری طرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر پارلیمنٹ میں جانے اور تقریر کرنے پر تنقید کی جا رہی ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف باضابطہ ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے ‘یعنی دونوں گروپس کے سینئر ججز ریفرنس کے ریڈار پر آرہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ‘ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت اور اپنی تقریر پر صفائی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دعوت قبول کرنے سے قبل معلومات حاصل کی گئی تھیں اور یہ یقین دہانی کرائی گئی تھیں کہ صرف آئین اور اس کے بنانے کے متعلق بات کی جائے گی جبکہ مجھے بھیجے گئے پروگرام میں اس کی تصدیق بھی کی گئی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ جب بعض تقریروں میں سیاسی بیانات دیے گئے تو پھر میں نے بات کرنے کے لیے درخواست کی تاکہ کسی ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہو سکے اور پھر بات کی۔اب یہ جسٹس صاحب کی صفائی ہے کوئی اس کو قبول کرے گا کوئی اس کو رد کردے گا‘لیکن کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو حکومت نے ٹریپ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب رہی‘اور اس ٹریپ کرنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں‘جن میں سے ایک تو مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ جسٹس قاضی اگلے چیف جسٹس ہیں اور حکومت ان پر دباؤ کے ذریعے سے اپنی مرضی کے فیصلے چاہتی ہے۔قاضی فائز عیسیٰ اپنے فیصلوں کی وجہ سے اچھی ساکھ کے حامل جج سمجھے جاتے ہیں لیکن شاید ان کی ایوان میں شرکت کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں تھی اسی لیے ان پر تنقید کی گئی۔یہ سب کچھ الیکشن التوا کیس کے بعد سے شروع ہوا۔افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حکمران جو آئین کے رکھوالے بنتے ہیں ‘ اپنے ہی ہاتھوں سے آئین کو پامال کر رہے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف حکومت پر یہی الزام لگاتی ہے کہ آئین میں 90 روز کے اندر انتخابات کروانے کا کہا گیا ہے لیکن یہ حکومت انتخابات سے راہ فرار اپنا کر آئین شکنی کر رہی ہے۔ اسی طرح سے اب تو کچے میں جو آپریشن کیا جا رہا ہے اس پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ کچے کے علاقے پر ڈاکوؤں کا راج رہا ہے‘اب ایسے وقت میں یہاں گرینڈ آپریشن شروع کردیا گیا ہے جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں جنم لینے لگی ہیں کہ شاید الیکشن کو روکنے کیلئے پولیس نے یہ گرینڈ آپریشن شروع کردیا ہے۔یعنی حکومت اس آپریشن کی آڑ میں انتخابات کو تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے۔یعنی آئین کے رکھوالے آئین کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجا گیا تب سے اب تک کچھ بہتر نہیں ہوا بلکہ ابتر ہی ہوا ہے۔دوسری جانب عمران خان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی بھی طریقے سے وہ اپنی حکومت کو بچا سکیں۔انہوں نے سب سے پہلے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو غیر آئینی رولنگ دینے کا کہا‘ جس پر اسد قیصر نے معذرت کی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے ذریعے آئین کے ساتھ کھلواڑ کروایا گیا۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود عمران خان اپنی حکومت کو بچا نہیں سکے ‘تب سے اب تک عمران خان دوبارہ اقتدار میں آنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔وہ کبھی سڑکوں پر نکلتے ہیں تو کبھی اسمبلیاں توڑتے ہیں تاکہ وہ کسی طریقے سے نئے انتخابات حاصل کرسکیں۔ ان کا بنیادی مقصد اپنی مقبولیت کے بل پر پھر سے اقتدار حاصل کرنا ہے۔ عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک کو امریکی سازش کا نام دیا بعد میں وہ اپنے اس مؤقف سے بھی پیچھے ہٹ گئے۔کہنے کا مقصد یہ ہے جب سے عمران خان اقتدار سے نکلے ہیں تب سے اب تک ملک میں سیاسی افراتفری ہے۔آئین اور قانون کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے اور یہ کھیل وہ لوگ کھیل رہے ہیں جو خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی اناؤں کے اسیر ہیں۔انا سے مجھے یاد آیا کہ حکمران اتحاد میں پیپلزپارٹی نے اپوزیشن کے ساتھ لچک دکھانے کا مظاہرہ کیا ہے۔پیپلزپارٹی نے (ن) لیگ کو یہ پیغام دیا ہے کہ ملک مشکل وقت سے نکالنے کیلئے محاذ آرائی کے بجائے بات چیت سے کام لینا ہوگا۔لیکن (ن) لیگ اور جے یو آئی کو پیپلزپارٹی کی یہ تجویز پسند نہیں آ رہی۔اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان اپنی اپنی لڑائیوں کو جہاں ہے وہیں پر روک دیں اورمذاکرات سے مسائل کا حل نکالیں ورنہ اس لڑائی میں ادارے بھی تقسیم ہورہے ہیں۔ججز ساتھی ججز کے آمنے سامنے آرہے ہیں۔اور عدلیہ جیسا قابل احترام ادارہ جب سیاستدانوں کی نااہلی کے پیش نظر خود مسئلے کا حل نکالتا ہے تو پھر بھی انگلیاں عدلیہ کی جانب بھی اٹھتی ہیں اور پھر بات وضاحتوں اور صفائیوں تک جاپہنچتی ہیں۔جیسا کہ قاضی فائز عیسیٰ کو صفائی دینا پڑی۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز قابل ِاحترام ہیں ان پر انگلیاں اٹھا کر ہم اپنے اداروں کا نقصان کر رہے ہیں۔اور اسی طرح آئین کے ساتھ کھلواڑ کرکے دراصل ہم ریاست ِپاکستان اور خود اپنے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔