"IYC" (space) message & send to 7575

عمران خان کی اَنا

سیاسی جماعتوں کے وجود سے ہی معاشرے کی بقا اور ترویج ممکن ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب سے انسان نے سیاست میں قدم رکھا تو اپنی پہچان کیلئے ایک جماعت بنانا پڑی۔ اقوام عالم میں مختلف اوقات میں مختلف سیاسی جماعتیں بنائی گئیں۔ ان میں سے کچھ تو اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیا ب رہیں اور کچھ وقت کی ستم ظریفی کے ہاتھوں قصۂ پارینہ بن گئیں۔ حالیہ سیاسی منظر نامے اور جمہوری تاریخ کی بات کی جائے تو برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی جو ٹوری پارٹی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے اور امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی قدیم ترین پارٹیز سمجھی جاتی ہیں۔ جب جمہوریت نے کروٹ لینا شروع کی اور اس کا عروج شروع ہوا تو دنیا کے بڑے خطے پر بادشاہت کا خاتمہ ہو ا اور وہاں جمہوری حکومتوں نے جگہ بنائی۔ جمہوریت کی بالکل سادہ تعریف کے مطابق یہ ایک ایسا طرزِ سیاست ہوتا ہے جس میں لوگوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی اساس ہوتی ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں دو جماعتی نظام ایک لمبا عرصہ رائج رہا جو اب کئی ممالک میں ملٹی پارٹی سسٹم میں تبدیل ہو رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں بھی دو جماعتوں کی حکمرانی رہی اور دونوں نے تین تین بار اس ملک پر حکمرانی کی‘ لیکن 2011ء میں ایک نئی سیاسی جماعت مقتدر حلقوں کی سرپرستی میں مقبول ہوئی‘ اسے پراجیکٹ عمران کا نام بھی دیا جاتا ہے‘ یہ پراجیکٹ اپناعروج دیکھنے کے بعد زوال پذیر ہے اور عمران خان کی انا کی وجہ سے ان کی پارٹی اور ان کے ساتھی مشکلات کا شکار ہیں۔ایک ایک کرکے کپتان کی وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری ہے۔عمران خان کا غرور ہی تھا جس نے پہلے انہیں امریکہ اور پھر فوج سے ٹکر لینے پر اکسایا۔
عمران خان نے پہلے امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دا ر ٹھہرایا‘ اب جب ان کی جماعت کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے تو عمران خان امریکہ سے دوستی کرنے پر آگئے ہیں۔عمران خان کا امریکی سازشی بیانیہ وقفے وقفے کے ساتھ بے نقاب ہوتا چلا گیا۔عمران خان نے 27 مارچ 2022ء کوکاغذ لہرایا اور عوام کو بتایا کہ امریکہ نے ان کی حکومت گرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔پھر عمران خان نے اسے تھوڑا سا ٹوِسٹ دیا اور کہا کہ یہاں کے مقامی'' میر جعفروں اور میر صادقوں‘‘نے امریکہ کے ساتھ مل کر ان کی حکومت گرائی۔عمران خان کے بیانیے میں کہیں سے بھی ٹھہراؤ نظر نہیں آیا جس سے ثابت ہوا کہ انہوں نے عوام میں گرتی ساکھ کو دیکھتے ہوئے جان بوجھ کر اینٹی امریکہ بیانیہ اپنایا۔عمران خان امریکی سازش کا چورن بیچ کر عوام میں تو مقبول ہوگئے لیکن اداروں کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچایا۔یہی عمران خان تھے جو پہلے نجم سیٹھی پر 35 پنکچر کے الزام لگاتے تھے اور بعد میں جب ان کے خلاف کچھ ثابت نہ کرسکے تو انہوں نے اپنے بیان کو سیاسی بیان کہہ کر معاملے کو ختم کردیا۔ پھرعمران خان نے امریکہ سے تعلق بہتر کرنے کیلئے لابی فرم کا سہارا لیا۔اگر امریکہ ان کا دشمن تھا اور ان کی حکومت کے پیچھے پڑا ہوا تھا تو پھر ان سے دوستی کی کیا ضرورت پڑ گئی؟اب حال ہی میں امریکی کانگریس کی ایک رکن کے ساتھ ان کی گفتگو کی آڈیو سامنے آئی ہے جس میں عمران خان اپنے لیے مدد طلب کر رہے ہیں۔
عمران خان کی انا سے نہ صرف قومی ادارے بلکہ ان کے اپنے کھلاڑی بھی نالاں نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شیریں مزاری‘ فواد چودھری‘ عامر کیانی‘ فیاض الحسن چوہان‘ملک امین اسلم اور دیگر رہنماؤں نے نومئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں۔ان رہنماؤں نے نو مئی کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے سیاست اور تحریک انصاف دونوں چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔مجھے ذاتی طور پر اس بات کا دکھ ہے کہ شیریں مزاری تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ committed تھیں‘لیکن عمران خان کی ہوسِ اقتدار اور اداروں سے محاذ آرائی نے ان کے وفادار ساتھیوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔شیریں مزاری نے جب میڈیا ٹاک کرکے پارٹی کو چھوڑا تو ان کے چہرے پر افسردگی تھی۔وہ کہہ رہی تھیں کہ وہ نو مئی کے پرتشدد واقعات کی مذمت کرتی ہیں۔انہوں نے پہلے بھی ہر قسم کے تشدد کی کھل کر مذمت کی ہے۔شیریں مزاری مزید کہتی ہیں کہ ان کیلئے سیاست سے زیادہ اپنی فیملی اہم ہے‘اپنی والدہ‘ بچوں اور اپنی صحت کی وجہ سے وہ سیاست چھوڑ رہی ہیں۔اس کے علاوہ فیاض الحسن چوہان نے بھی نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔عمران خان کی اَنا اور ضد کا عالم دیکھئے کہ کوئی ان سے اختلاف کرتا تھا تو وہ بنی گالا یا زمان پارک میں اس شخص کی انٹری بند کردیتے تھے۔ فیاض الحسن چوہان کے بقول وہ پارٹی میں ایک سال سے سائیڈ لائن تھے اور بنی گالا میں ان کے داخلے پر پابندی تھی کیونکہ وہ عمران خان کو تشدد سے روکتے تھے۔
عمران خان اپنی اَنا کی وجہ سے اہم رہنماؤں کوکھوتے چلے جارہے ہیں۔عمران خان اپنے گرفتار شدہ ساتھیوں کو بھول جاتے ہی جنہوں نے ان کیلئے قربانیاں دیں اور وہ اپنے کپتان کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تک گئے۔ابھی کچھ دن پہلے فواد چودھری کی اہلیہ نے ایک ٹوئٹ میں خان صاحب سے اس کا شکوہ کیا کہ وہ فواد چودھری کو بھول گئے ہیں۔فواد چودھری کے بارے میں کئی دن سے کہا جارہا تھا کہ وہ تحریک انصاف چھوڑ دیں گے‘ یہ بات گزشتہ روز سچ ثابت ہوئی۔ایک ٹوئٹ میں فواد چودھری نے کہاکہ نو مئی کے واقعات کی غیر مشروط مذمت کرتا ہوں اور میں فی الحال سیاست سے وقفہ لے رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے چکا اور عمران خان سے راہیں جدا کرلی ہیں۔شاہ محمود قریشی‘مسرت جمشید چیمہ اور جمشید چیمہ کے بارے میں بھی یہ خبریں آرہی ہیں کہ وہ بھی شاید تحریک انصاف کو خیر باد کہہ دیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بڑے رہنماؤں نے بھی پارٹی چھوڑنا شروع کردی ہے تو اس سے عمران خان کی سیاسی صحت پر کیا اثر پڑے گا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیںاور ایک حلقے میں ان کو دس‘دس امیدوار دستیاب ہیں لیکن بہرحال بڑے رہنماؤں کے جانے سے عمران خان کو سیاسی نقصان تو پہنچے گااور وہ ایسے کہ ایک تو عمران خان کو جلسے‘جلوس اور دیگر سیاسی سرگرمیاں رکھنے کیلئے فنڈز دینے والے لوگ کم ہوتے چلے جائیں گے دوسرا عمران خان اب جب بھی اپنے رہنماؤں سے رابطہ کرنا چاہیں گے‘ انہیں مختلف سیاسی ٹاسک دینا چاہیں گے تو بہت سے ایسے رہنما جو پارٹی چھوڑنا چاہتے ہیں یا وہ ریاست کے خوف سے عمران خان کی بات کو سننا نہیں چاہتے وہ عمران خان کو نظر انداز کرنا شروع کردیں گے جس سے نفسیاتی طور پر عمران خان کو تکلیف پہنچے گی اور عمران خان کو یہ احساس ہوگا کہ وہ اکیلے رہ گئے ہیں۔اب عمران خان کیخلاف ان کے اپنے رہنما گواہی دے رہے ہیں کہ عمران خان نو مئی کے واقعات کے ذمہ دار ہیں اور ہوسکتا ہے کہ عمران خان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ بنے اور اگر مقدمہ بنا اور عمران خان گرفتار ہوئے تو کوئی سول عدالت اس میں مداخلت نہیں کرسکے گی۔ ابھی تو عمران خان ریگولر کیسز میں ضمانت حاصل کرلیتے ہیں لیکن فوجی عدالتوں میں انہیں ضمانت نہیں ملے گی بلکہ باقاعدہ ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔عمران خان کو چاہیے کہ وہ لچک کا مظاہرہ کریں‘اپنی انا اور غرور کو ایک سائیڈ پر رکھیں اور نو مئی کے واقعات پر شرمندگی کا اظہار کریں۔اداروں سے محاذ آرائی بند کریں تو ہی ممکن ہے ان کی پارٹی بچ جائے‘ورنہ ریاست کسی بھی طور پر عمران خان کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔اب خان صاحب نے فیصلہ کرنا ہے کی انہوں نے اپنی جماعت کو بچانا ہے یا اپنے سیاسی وجود کو جو وقت کے ساتھ بکھرتا جارہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں