"IYC" (space) message & send to 7575

آہوں سے سوزِ عشق مٹایا نہ جائے گا…

''اسلاموفوبیا‘‘ لفظ اسلام اور یونانی لفظ فوبیا (یعنی ڈر ‘ خوف) کا مجموعہ ہے۔ مختلف ممالک میں غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف زہراُگل کر ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام کا خوف بیٹھ جاتا ہے اس کو ''اسلاموفوبیا ‘‘کہا جاتا ہے۔اسلام دشمن قوتیں اس وقت یورپ میں اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دے رہی ہیں اورمسلمانوں کے احساسات کو مجروح کرنے کاگھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں کے بارے میں دنیا بھر میں منفی تاثر کو بڑھایا جائے اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں جن سے مسلمانوں کا مورال گرے۔ جنوری 2023 ء میں بھی سویڈن میں قرآن پاک کی توہین کی گئی تھی جس سے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی اور اس کوبھی نام نہاد فکری اور نظریاتی آزادی کا نام دیا گیا۔ اب ایک بارپھر سویڈن میں ہی قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی۔میڈیارپورٹس کے مطابق سویڈن کے وزیر انصاف گنر سٹرومر کاکہنا ہے کہ حکومت سویڈن کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے واقعات کی روشنی میں قرآن مجید اور دیگر مقدس کتابوں کو جلانے کو جرم قرار دینے پر غور کررہی ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اب بھی صرف غور کیا جارہا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والوں کو گرفت میں لانا ہے یا نہیں۔اگر سویڈش حکومت پہلے واقعے پر ہی ٹھوس ایکشن لے لیتی اور ذمے داروں کوعبرتناک انجام سے دوچار کرتی تو دوبارہ اسی ملک میں یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر دنیا بھر میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں اورکئی ممالک میں ریلیاں بھی نکالی جا رہی ہیں۔ایران اور عراق میں سویڈش سفارت خانوں کے سامنے ہزاروں افراد نے احتجاج کیا‘ عراقی مظاہرین نے سویڈن سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کابھی مطالبہ کیا جبکہ ایرانی وزارتِ خارجہ نے تہران میں سویڈن کے ناظم الامور کو طلب کرکے شدید احتجاج کیا۔جمعے کوپاکستان میں بھی قوم نے یو مِ تقدیس قرآن منایا۔او آئی سی نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پرردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے اور مذہبی بنیادوں پر نفرت کو روکنے کیلئے بین الاقوامی قانون کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ کاش تمام مسلمان ممالک اسلامو فوبیا کے خلاف سیسہ پالائی دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں۔محض بیان دینے سے ایسے واقعات کو روکا نہیں جا سکتا۔او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں اجتماعی اقدامات کی بات کی گئی ہے۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ جس ملک میں بے حرمتی کا واقعہ ہو تمام مسلم ممالک کو اس ملک کا سفارتی سطح پربائیکاٹ کرنا چاہیے جب تک ذمہ داروں کو قانون کے تحت سزا نہیں دی جاتی۔پاکستان کی کوششوں سے اسلاموفوبیا کو جرم تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں ہر سال 15مارچ کو ''اسلاموفوبیا ڈے‘‘ منانے کی قرار دادمنظور کی گئی ہے۔بلاشبہ یہ پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے لیکن اس کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔اسلاموفوبیا مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار اس لیے استعمال کیا جارہا ہے تاکہ اسلام کے امیج کو دنیا میں نعوذو باللہ کم تر اور منفی دکھایا جائے۔اور ایسا کرنے کی ایک بڑی وجہ مغربی ممالک میں تیزی کے ساتھ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہے۔ امریکہ میں چند سال قبل چھپنے والی ایک تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آئندہ چند سالوں میں اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بننے جارہا ہے۔ اسی تحقیق کے مطابق آئندہ کچھ سالوں میں بھارت دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہوگا۔امریکی ریسرچ رپورٹ کے مطابق جس طرح مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام 2040 ء میں امریکا کے دوسرے بڑے مذہب کا درجہ حاصل کرلے گا‘لیکن پہلے نمبر پر عیسائیت ہی برقرار رہے گی۔یہ تحقیق 2007ء ‘2011 ء اور 2017ء میں کی جانے والی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے کی گئی ہے جس میں اسلام سمیت دیگر مذاہب کو شامل کیا گیا ہے۔تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ اس اعتبار سے یہ آبادی 2050 ء میں 8.1 ملین تک بڑھ سکتی ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق 2040 ء تک امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بننے کے بعد امریکا میں مسلمانوں کا کردار بھی اہم ہوگا۔اسی تحقیق کا تجزیہ کرنے پر سامنے آیا ہے کہ 2050 ء تک بھارت مسلم آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا کوپیچھے چھوڑ کر پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک بن جائے گا اور دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2050 ء میں اگرچہ دنیا کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی حصہ عیسائیت کو ماننے والوں پر مشتمل ہوگا‘ تاہم سب سے زیادہ تیزی سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا۔ جس کی وجہ بلند شرح پیدائش اور نوجوان افراد کی تعداد میں اضافہ ہے۔ 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی مجموعی آبادی میں عیسائیوں کی کل تعداد دو ارب 38 کروڑ‘ مسلمانوں کی کل تعداد ایک ارب 91 کروڑ‘ ہندوؤں کی تعداد ایک ارب16 کروڑ‘ بدھ مت کے پیروکاروں کی کل تعداد 50 کروڑ 70 لاکھ اور یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ 46 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے اور اب 2023ء میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب تک جاپہنچی ہے اور وہ وقت جلد آنیوالاہے جب اسلام دنیا کا بڑا مذہب بن جائے گا‘یہی اسلام مخالف قوتوں کو ہضم نہیں ہورہا۔آپ دیکھئے کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی۔سلطنت عثمانیہ تین برا عظموں پر پھیلی ہوئی تھی‘لیکن پہلی جنگِ عظیم میں جب خلافت ِ عثمانیہ کو شکست ہوئی تو بر صغیر کے مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں کے خلاف یہاں خلافت کو ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعدسے پوری دنیا میں مسلمانوں کیخلاف کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور قتلِ عام کا سلسلہ مختلف ممالک میں اور مختلف اوقات میں ہوتا رہا اور آج بھی جاری ہے۔80ء کی دہائی سے اب تک دنیا بھر میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف بلاوجہ ایک ایسی سازشی مہم شروع کی گئی جس کے تحت مسلمانوں کو دہشت گردی اور منفی سوچ کا حامل قرار دینے کی تگ و دو جاری ہے۔
اسلامو فوبیا کے واقعات ایک عرصے سے جاری ہیں۔ یورپ اور بھارت میں مسلم خواتین کو سکارف پہننے سے زبردستی روکا گیا تو کبھی کھلے عام ان مسلمانوں کو‘ جو مغربی ممالک کی شہریت اپنا چکے ہیں‘ چوک چوراہوں میں گھسیٹا گیا۔ بھارت میں بھی مسلمانوں کا قتلِ عام اسلاموفوبیا کی بدترین مثالوں میں سے ایک ہے۔اسی طرح ظلم کے بادل برما کے مسلمانوں پر برسائے گئے ‘ نیوزی لینڈ جو بہت مہذب ہونے کا دعویدارہے‘ یہاں مسجد میں کھلے عام گولیاںبرسائی گئیں اور نمازیوں کو شہید کیاگیا۔ فریڈم آف ایکسپریشن کی آڑ میں مسلمانوں کی دل آزاری کی کوششیں کی گئی لیکن ان کوششوں کوکسی بھی لحاظ سے آزادیٔ اظہارِ رائے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔یہ کسی المیے سے کم نہیں کہ اس وقت عیسائی‘ ہندؤ‘ بدھ مت کے پیروکار اور یہودی سبھی مسلمانوں کے خلاف پُرتشددکارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم اکثریت کے خطوں کشمیر اور فلسطین میں بھارت اور اسرائیل مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں جبکہ اقوام متحدہ ان کی آزادی اور خودمختاری کیلئے قراردادیں منظور کر چکا ہے۔ جو اس کے دہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اسلام امن کا مذہب ہے۔امن کی تربیت دیتا ہے اور شر کو رَد کرتا ہے۔ شر کو رَد کرنے والے اس مذہب کے خلاف اسلاموفوبیا کوٹول کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جس کو عالم اسلام مل کر روک سکتی ہے ورنہ مسلمانوں کے احساسات کی پامالی یوں ہی جاری رہے گی۔اسلاموفوبیا جیسے ظلم کاخاتمہ کرنا ہے تو مسلم ممالک کو ایک ہونا ہوگا اور جس دن ایسا ہوگیا اس کے بعد کسی کو بھی اسلام کے خلاف سازش کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں