سائفر کہانی کچھ یوں شروع ہوئی کہ جب پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر ایک آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے عمران خان کی حکومت گرائی تو چیئرمین تحریک انصاف شدید غصے میں تھے۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی حکومت میں شامل بیشتر وزرا کو اس بات کا احساس تھا کہ تقریبا ًپونے چار سالہ حکومت کے دوران اپنی کارکردگی کے اعتبار سے وہ عوام میں غیر مقبول ہوچکے ہیں۔ سیاسی مبصرین کھلے عام یہ تبصرے کر رہے تھے کہ آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ یہ بات خود عمران خان صاحب کو بھی معلوم تھی کہ الیکشن کے ذریعے ان کا اقتدار میں واپس آنا ممکن نہیں۔ایسے میں جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو خان صاحب نے ایک دم سے اپنی تنقیدی توپوں کا رخ سابق آرمی چیف کی طرف کردیا اور ساتھ ہی اپنی حکومت کے خاتمے کو لے کر ایک امریکی سازشی تھیوری بھی عوام کے سامنے پیش کردی۔سابق وزیر اعظم نے 27 مارچ 2022ء کو جلسے میں ایک پرچی لہراتے ہوئے کہاکہ یہاں کے مقامی میر جعفروں ‘میر صادقوں نے امریکا کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کا تختہ الٹا۔ عمران خان کی سائفر کہانی نے اس وقت ٹویسٹ لیا جب ان کی سائفر سے متعلق ایک مبینہ آڈیو لیک ہوئی۔ ایک نامور صحافی کے بقول یہ آڈیو آئی بی نے ریکارڈ کی تھی جس میں اسد عمر ‘اعظم خان‘ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے درمیان سائفرپر حکمت عملی بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ عمران خان اس آڈیو کال میں یہ کہتے پائے گئے کہ ہم نے سائفرپر کھیلنا ہے۔ ہم اپنی مرضی سے سائفر کے منٹس بنا لیں گے۔امریکا کا نام نہیں لیں گے ۔ بعد میں عمران خان کے منہ سے سازشی کا لفظ نکل ہی گیا۔اس آڈیو کا منظر عام پر آنا تھا کہ عمران خان اپنے سائفر بیانیے سے ایک قدم پیچھے ہٹتے نظر آنے لگے۔ یوں وہ اپنے سازشی بیانیے سے 360 ڈگری کا یوٹرن لے گئے۔پہلے مظلومیت کارڈ کھیلا گیا کہ ان کو حکومت سے ہٹانے کی سازش امریکا نے کی ۔پھر خان صاحب فرمانے لگے کہ انہیں ہٹانے کی سازش یہاں پر ہوئی یعنی پاکستان سے ایکسپورٹ ہوئی پھر امریکا پہنچی۔ خان کے سیاسی مخالفین کے مطابق یہ بات کر کے دراصل انہوں نے خود کو فیس سیونگ دینے کی کوشش کی ۔عمران خان اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اینٹی امریکا اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بہت بکتا ہے۔ خان صاحب نے اس کا فائدہ اٹھا نے کیلئے امریکی سازش کا بیانیہ بنایا اور پھر سوشل میڈیا اور اپنی تقریروں کے ذریعے اسے خوب پھیلایا۔ دوسری طرف انہوں نے پاکستان کے خارجہ تعلقات کو خراب کیا۔اس آڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد معاملہ ایف آئی اے میں گیا۔ ایف آئی نے کپتان کو25 جولائی کو طلب کرلیا ہے۔دوسری جانب سائفر تحقیقات پر لاہور ہائی کورٹ نے حکم امتناع بھی واپس لے لیا ہے۔عمران خان سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر امریکا نے سازش کی تھی تو پھر ان کے پاس اس کے ثبوت بھی ہوں گے۔
سب کو معلوم ہے کہ امریکا اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کتنے اہم ہیں۔ امریکا ایک سپر پاور ہے‘ آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی ادارے اس کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ عمران خان کے اینٹی امریکا بیانیے نے امریکا کے ساتھ تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ لیکن جب ان کو خود اس بات کا احساس ہوگیا کہ امریکا کی مدد کے بغیر اقتدار میں نہیں آسکتے تو انہوں نے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے امریکہ میں لابنگ فرم کی خدمات حاصل کر لیں۔ عمران خان سے یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ اگر امریکا نے ان کی حکومت گرانے کی سازش نہیں کی تھی تو پھر وہ امریکا کو سازش کا حصہ کیوں بناتے رہے؟ حکومت اب عمران خان پر سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا کیس چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔وزرا کے مطابق سابق وزیر اعظم نے سائفر گم کر کے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جس پر انہیں سزا ہوسکتی ہے۔سائفر کیسے گم ہوا ؟ اس کی بھی ایک کہانی ہے۔ہوا کچھ یوں کہ وزارتِ خارجہ کو واشنگٹن میں تعینات اپنے سفیر سے سائفر موصول ہوا۔جس کے بعد اس کی پانچ کاپیاں اہم عہدیداروں جن میں وزیراعظم‘ وزیر خارجہ‘ سیکرٹری خارجہ‘ آرمی چیف ‘ ڈی جی آئی ایس آئی شامل ہیں‘ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔وزارتِ خارجہ نے سابق وزیراعظم کے سٹاف میں سے ایک ڈپٹی سیکرٹری کو وزارت کے دفتر بلایا اور اسے یہ سائفر لفافے میں بند کرکے اعظم خان کو دینے کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے یہ لفافہ وزیر اعظم ہاؤس بجھوایالیکن وہ وزیر اعظم سے کھو گیا۔پھر موجودہ حکومت نے وزیر اعظم کے ریکارڈ سے سائفر کاپی غائب ہونے پر انکوائری کرائی جس میں اعظم خان نے حکومت کو بتایا کہ انہوں نے سائفر کی کاپی عمران خان کو دی تھی۔ طے شدہ ایس او پیز کے تحت اس طرح کا سائفرباضابطہ طور پر وزیر اعظم کے دفتر کے جوائنٹ سیکرٹری کوموصول ہوتا ہے‘ جوائنٹ سیکرٹری اسے وزیراعظم کو دکھاتا ہے ‘پھراسے اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔ ایک ماہ بعد سائفر کی کاپیاں وزارتِ خارجہ کو واپس کر دی جاتی ہیں لیکن اس بار مذکورہ سائفر وزارتِ خارجہ کو واپس نہیں کیا گیا۔ اعظم خان نے اپنے بیان میں سائفر کے بیانیے پر پانی پھیر دیا ہے۔وہ عمران خان کے خلاف اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں‘ جس کے بعد کپتان کیلئے مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔وزیر قانون کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کوسائفرپر 14 سال کی قیدی کی سزا ہوسکتی ہے۔سائفر سے متعلق بیان دیتے ہوئے سابق پرنسپل سیکرٹری کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نے حقائق کو چھپا کر بے بنیاد بیانیہ بنایا اور تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے سائفر کو بیرونی سازش کا رنگ دیا۔ انہوں نے سائفر ڈرامہ صرف اپنی حکومت بچانے کیلئے رچایا۔اب قانونی لحاظ سے اعظم خان کے اس بیان کو پرکھا جارہا ہے۔بہت سے قانونی ماہرین اعظم خان کے اس بیان کو خود ساختہ بیان قرار دے رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اعظم خان کو عمران خان کی موجودگی میں یہ بیان دینا ہوگا‘ پھر اس پرباقاعدہ عدالتی کارروائی ہوگی ‘جرح ہوگی عمران خان کو صفائی کا موقع ملے گا۔ ایک قانونی نقطہ یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ164 کے تحت دیے گئے اس بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔عمران خان بھی اس پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہیں نااہل قرار دینے کیلئے سائفرکا معاملہ سامنے لایا گیا۔لیکن اب ان کے اپنے بااعتماد کھلاڑی سارے راز کھول رہے ہیں کہ اصل میں سائفر کی حقیقت کیا ہے ۔
اب سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اعظم خان 34 دن لاپتہ رہے یا اپنی مرضی سے دوست کے پاس رہے؟بہرحال یہ طے ہوچکا ہے کہ اعظم خان اب عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔ عمران خان نے سائفر کہانی کی مدد سے تحریک عدم اعتماد کو غیر قانونی ‘غیرآئینی قرار دے کر سب کو غدار قرار دے دیا تھا‘ اب وہ کہانی عمران خان کے بیانیے سے پردہ اٹھا رہی ہے۔ اب یہ بھی کہا جارہاہے کہ آنے والے دنوں میں اعظم خان توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ سمیت بہت سے مزید معاملات میں بھی اپنی زبان کھولیں گے اور القادر ٹرسٹ کیس میں تو انہوں نے نیب کے روبرو پیش ہوکر اپنا بیان بھی ریکارڈ کروادیا ہے۔ عمران خان اس وقت شدید بحرانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔وہ اپنے ساتھیوں کے مشوروں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ ایک ایک کرکے ان کے قریبی دوست‘ سیاسی رفیق چھوڑ کر جا رہے ہیں اورکچھ وعدہ معاف گواہ بن رہے ہیں۔ کاش عمران خان اپنی غلطیوں سے سیکھ جاتے۔کاش وہ سائفر کہانی بنا کر ملکی سالمیت کو داؤپر نہ لگاتے‘ لیکن انہوں نے سب کشتیاں جلادیں جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اب تحریک انصاف کی کشتی میں انگنت سوراخ ہورہے ہیں اور کپتان کشتی کے ڈوبنے سے بچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔