"IYC" (space) message & send to 7575

انتخابات اور سیاسی غیریقینی

وزیراعظم شہباز شریف یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ وہ اپنی مدت یا اس سے پہلے چلے جائیں گے اور نگران سیٹ اَپ کو اقتدار سونپ دیا جائے گا۔ سیاسی اُفق پر الیکشن کے بادل منڈلا تو رہے ہیں لیکن برسیں گے یا نہیں‘ اس پر چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ حکومت کے دو اہم اتحادیوں کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ اور ظاہر ہے اس کی بڑی وجہ جو نظر آتی ہے وہ نئی مردم شماری اور اس کے مطابق حلقہ بندیاں ہیں۔ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے نزدیک نئی مردم شماری کی آڑ میں الیکشن کو التوا میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر (ن) لیگ سمیت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی بھی ٹائم پر انتخابات کا انعقاد چاہتی ہیں تو پھر بڑی رکاوٹ کیا ہے‘ جس کی وجہ سے انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں؟ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار مقتدرہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب تک وہاں سے گرین سگنل نہیں آئے گا‘ تب تک انتخابات کا ہونا ممکن نہیں۔ اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کی جو بات زیر گردش ہے‘ اس کا پس منظر بھی یہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں نواز شریف صاحب اسحاق ڈار کو اسی لیے نگران وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں کہ انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ جو بھی نگران وزیراعظم آئے گا وہ بروقت انتخابات کروا دے گا۔ شاید اسی لیے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اگر معاشی طرز کے حامل شخص یا کسی ٹیکنو کریٹ کو نگران وزیراعظم بنایا گیا تو پھر یہ سیٹ اَپ طوالت اختیار کر سکتا ہے۔ ویسے بھی معاشی ایمرجنسی کو بنیاد بنا کر انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی باتیں بھی ہوتی رہی ہیں اور اگر ایسا سیٹ اَپ وجود میں آ گیا اور آئی ایم ایف کے ساتھ اُس کی اچھی انڈرسٹینڈنگ بھی ہو گئی تو تمام جماعتوں کیلئے انتخابات کروانا ایک خواب بن جائے گا۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف ڈار صاحب کو نگران وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں۔ اور اس کی سیاسی اور آئینی وجہ بتائی جاتی ہے۔ سیاسی وجہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں 90روز میں انتخابات نہیں کروائے گئے‘ جس سے ایک مثال تو قائم ہو چکی ہے۔ جہاں تک آئینی وجہ کا تعلق ہے تو جیسا کہ آئین کے تحت نگران وزیراعظم بننے والا شخص عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اسحاق ڈار سینیٹر ہیں‘ وہ نہ پہلے الیکشن لڑتے ہیں اور نہ آگے الیکشن لڑنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہے۔ اسی لیے بطور نگران وزیراعظم ان کی تعیناتی ہر لحاظ سے نواز شریف کو سُوٹ کرتی ہے۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق اسحاق ڈار کا نام پیش کرکے دراصل مقتدرہ کو بھی ایک پیغام دیا گیا کہ سیاسی فیصلے سیاستدانوں کو کرنے دینے چاہئیں۔ دوسری طرف خواجہ آصف نے اس حوالے سے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ جس کسی نے بھی اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کی تجویز دی اس نے مناسب بات نہیں کی۔ اسحاق ڈار نے نگران وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کبھی نہیں کیا‘ ہمارے کسی اجلاس میں بھی اس پر بات نہیں ہوئی‘ ہمیں موقع نہیں دینا چاہیے کہ لوگ ہماری طرف انگلیاں اُٹھائیں‘ سیاسی قیادت کے قریب ترین کسی شخصیت کو نگران وزیراعظم نہیں بنانا چاہیے‘ الیکشن کو غیر جانبدار بنانے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ خواجہ آصف شاید ڈار صاحب کی مخالفت کر رہے ہیں اور ایسا وہ کسی کے اشارے پر کر رہے ہیں لیکن میری نظر میں خواجہ صاحب درست کہہ رہے ہیں۔ فرض کریں نواز شریف اپنے پلان کے مطابق کام کر جاتے ہیں تو کیا پھر انتخابات پر سوال نہیں اُٹھیں گے کہ ایک قریبی ساتھی کو نگران وزیراعظم بنایا گیا تاکہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں اور پھر یہ انتخابات بھی متنازع ہو جائیں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ ایک نظیر بن جائے گی اور آئندہ کوئی بھی اپنا قریبی شخص نگران وزیراعظم لگا کر مطلوبہ نتائج اور مقاصد حاصل کرلے گا۔ اس لیے نگران سیٹ اَپ غیرجانبدار ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اسحاق ڈار کو پارٹی کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا ہے جیسا کہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ ان کی بن نہیں سکی۔ اسی طرح ایسے کئی اور بھی ان کے مخالفین ہیں جنہوں نے ان کے نگران وزیراعظم بننے کی بات کو راز نہیں رہنے دیا اور جان بوجھ کر میڈیا پر لیک کیا۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ڈار صاحب نے خود اس بات کو باہر نکالا۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ڈار صاحب کی نگران وزیراعظم بننے کی خبر (ن) لیگ کی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر ہی نکالی گئی ہو تاکہ ردِعمل چیک کیا جا سکے کہ ان کا نام کس کو ہضم ہوگا اورکس کو نہیں۔ اب میڈیا پر بات آنے کے بعد بلاشبہ اسحاق ڈار کے نگران وزیراعظم بننے کے امکانات کم ضرور ہوئے ہیں لیکن ختم نہیں ہوئے۔ خواجہ آصف لاکھ مخالفت کرلیں‘ مسلم لیگ (ن) میں ہوگا وہی جو نواز شریف کا فیصلہ ہوگا لیکن یہ بھی اسی صورت میں ہوگا اگر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کہیں اور سے نہ ہوا۔
پیپلز پارٹی بھی ڈار سے متعلق خبرکو جھوٹ قرار دے رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی پہلے اس بات پر راضی تھی بلکہ اس نے (ن) لیگ کو فری ہینڈ دیا کہ وہ جس کو چاہے نگران وزیراعظم منتخب کر لے لیکن بدلے میں پیپلز پارٹی پھر سے سندھ میں اپنی مکمل حاکمیت کے ساتھ ساتھ وفاق میں بھی شراکت داری چاہتی تھی ‘یہ خواہش مگر نواز شریف کی جانب سے رد کردی گئی جس کے بعد پیپلز پارٹی اس معاملے میں پیچھے ہٹ گئی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی جلد ایک اور اہم بیٹھک ہو سکتی ہے جس میں ممکنہ طور پر زرداری صاحب معاملات سیٹل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب بھی اپنے معاملات کو سیٹل کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا صاحب دبئی بیٹھک پر اعتماد میں نہ لینے پر اپنے اتحادیوں سے نالاں تھے۔ اصل میں مولانا بھی نگران وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن ان کا یہ خواب کسی صورت پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اور شاید مولانا بھی اتنے پُرامید نہیں اس لیے وہ بیک اَپ پلان پر بھی کام کرتے نظر آرہے ہیں۔اسی لیے شاید وہ پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ میں محاذ بنانے پر کام کر رہے ہیں اور یہ محاذ وہ جی ڈی اے کے ساتھ مل کر بنانا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ابھی حال ہی میں جی ڈی اے رہنماؤں سے ملاقات کی اور آئندہ انتخابات میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی خلاف سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات کی اور مزید ملاقاتوں پر بھی اتفاق کیا گیا۔ یعنی مولانا عام انتخابات میں اپنے قدم جمانے کے چکروں میں ہیں۔ مولانا کی یہ کوشش ہے کہ کسی طریقے سے جی ڈی اے کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے۔ مولانا کی پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی خواہش ظاہر کر تی ہے کہ مولانا نے سندھ میں بھی نشستوں پر نظریں جما لی ہیں۔ دوسری جانب ایم کیو ایم بھی جی ڈی اے سے تعلقات کو مضبوط کر رہی ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ انتخابات کا ماحول بن چکا ہے لیکن یہ بے یقینی بدستور اپنی جگہ پر موجود ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں؟ اس کا پتا تبھی چلے گا جب نگران حکومت کا قیام عمل میں آئے گا۔
اس وقت تمام مسائل کا حل مکمل طور پر غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات ہی ہیں۔ بر وقت انتخابات اور ایک مضبوط حکومت کے قیام سے ملک میں سیاسی افراتفری کا خاتمہ ہو جائے گا جس کے معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری صورت میں ہم اگر مگر کی قیاس آرائیوں میں ہی اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں