"IYC" (space) message & send to 7575

انتخابات کا چاند!!

اس وقت ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال بہت خراب ہے۔ ڈالر 300کی حد عبور کر چکا ہے۔ آئے روز بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ بنیادی ضرورت کی اشیا غریب کی پہنچ سے بہت دور ہو چکی ہیں۔ ایسے میں بروقت انتخابات کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن ابھی تک یہ طے نہیں پا سکا کہ انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں لگی ہوئی ہے۔ جمعہ کے روز پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں 90روز میں انتخابات کرانے کا مؤقف اختیار کیا گیا۔ اجلاس میں مردم شماری پر بھی سوال اٹھایا گیا حالانکہ مراد علی شاہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری پر رضا مندی ظاہر کر چکے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی صرف اپنی گیم کر رہی ہے۔(ن) لیگ پہلے ہی اپنا بہت سا سیاسی سرمایہ داؤ پر لگا چکی ہے‘ اس لیے وہ بھی یہ سمجھتی ہے کہ انتخابات میں زیادہ تاخیر اب اسے بھی سوٹ نہیں کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اب جتنی بھی مہنگائی ہو گی‘ معیشت جتنی بھی خراب ہو گی‘ اس کا اچھا برا نگران حکومت کے کھاتے میں جائے گا۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن تو ہاتھ کھڑے کر چکا ہے کہ 90روز میں انتخابات کرانا ممکن نہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں چار ماہ کا وقت لگے گا اور اسی وجہ سے انتخابات اپنے مقررہ وقت پر نہیں ہو سکیں گے۔ الیکشن کمیشن کے اس اعلان نے اُن خدشات کو درست ثابت کر دیا ہے جن کا اظہار قومی اسمبلی کی تحلیل سے پہلے کیا جا رہا تھا۔ آئین کے مطابق اگر اسمبلی اپنی معیاد مکمل کرکے ختم ہوتی ہے تو پھر 60دنوں میں انتخابات ہوں گے اور وقت سے پہلے تحلیل کی صورت میں 90دن سے پہلے انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن الیکشن کمیشن انتخابات وقت پر نہ کرانے کیلئے ایک آئینی جواز تراش رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت دو آئینی تقاضے ہیں جن کا پورا ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک آئینی تقاضا پورا کیا جاتا ہے تو دوسرا نظر انداز ہوتا ہے۔ حلقہ بندیوں کے عمل کو ادھورا چھوڑا جائے تو یہ بھی ایک قانونی سقم ہے۔ اگر حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تو پھر انتخابات وقت پر نہیں ہوتے‘ یہ بھی آئینی عمل سے ہٹ کر ہو جائے گا‘ لہٰذا اب اہم سوال یہ ہے کہ آئین شکنی سے کس طرح سے بچا جائے؟
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دونوں ہی انتخابات بر وقت کرانے کی حامی ہیں اور دونوں جماعتوں کی طرف سے اُن کا مؤقف بھی سامنے آگیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر بروقت انتخابات نہ کرانے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے دائر درخواست میں الیکشن کمیشن کو بروقت انتخابات کرانے کا پابند کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک خط میں چیف الیکشن کمشنر کو 90روز میں انتخابات کیلئے تاریخ کا تعین کرنے کیلئے مشاورت کی دعوت دی‘ خط میں مؤقف اپنایا گیا کہ نو اگست کو سابق وزیراعظم شہباز شریف کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کی گئی‘لہٰذا صدر آرٹیکل (5)48 کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90دن میں الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا پابند ہے لیکن چیف الیکشن کمشنر نے صدر سے ملاقات سے انکار کرتے ہوئے جوابی خط میں لکھا کہ اب الیکشن ایکٹ کی شق 57میں 26جون کو ترمیم کردی گئی ہے‘ اس ترمیم سے پہلے صدر الیکشن کی تاریخ کیلئے کمیشن سے مشاورت کرتا تھا‘ اب شق 57 میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کو تاریخ یا تاریخیں دینے کا اختیار ہے۔ جس کے بعد اب یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار آخر کس کے پاس ہے؟
ماہرین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 57میں ترمیم کے بعد صدرِ مملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ‘ چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے اسی تناظر میں ملاقات سے انکار کیا گیا۔ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن پابند ہے کہ ازسرنو حلقہ بندیاں کرے۔ الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 17کے تحت حلقہ بندیوں کا شیڈول بھی جاری کر چکا ہے جس کے مطابق یہ عمل 14دسمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ حلقہ بندیوں کے بعد ووٹر لسٹوں کا مرحلہ درپیش ہوگا‘ اس میں بھی کم از کم تین ماہ درکار ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر الیکشن کمیشن مارچ میں انتخابی شیڈول جاری کرسکے گا۔ انتخابی شیڈول کے بعد بھی الیکشن کے انعقاد میں مزید دو ماہ لگیں گے‘ اس لیے آئندہ عام انتخابات مئی 2024ء سے پہلے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ماہرِ قانون عابد زبیری کی رائے ہے کہ چونکہ وزیراعظم نے صدر کو ایڈوائس کی تھی کہ وہ 9اگست کو اسمبلی تحلیل کردیں لہٰذا صدر نے اسمبلی کو تحلیل کردیا۔ اس لیے اب صدر ہی الیکشن کی تاریخ دیں گے۔ ایک ماہرانہ رائے یہ بھی دی جا رہی ہے کہ پنجاب میں اسمبلی تحلیل کی سمری پر گورنر پنجاب نے دستخط نہیں کیے تھے‘ اُس وقت گورنر نے یہ جواز پیش کیا تھا کہ کیونکہ اُنہوں نے سمری پر دستخط نہیں کیے لہٰذا وہ انتخابات کی تاریخ دینے کے مجاز نہیں۔ اسی لیے اگر صدر اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط نہیں کرتے تو پھر ہی الیکشن ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا اختیار ہوتا لیکن اب چونکہ اسمبلی صدر کے دستخط سے تحلیل ہوئی ہے اس لیے انہیں انتخابات کی تاریخ کے تعین کا آئینی حق حاصل ہے۔ یہ قانونی سوال بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ کیا الیکشن ایکٹ‘ آئین کو بائی پاس کر سکتا ہے؟ چیف الیکشن کمشنر پر تنقید ہو رہی ہے کہ وہ امریکی سفیر سے مل سکتے ہیں تو صدرِ مملکت سے کیوں نہیں؟ البتہ وہ الیکشن کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی پہلے تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی اور پھر (ن) لیگ کے وفد سے۔ تحریک انصاف نے ملاقات میں الیکشن کمیشن کے سامنے 90روز میں انتخابات سمیت 3مطالبات رکھے ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف)نے صرف صاف شفاف انتخابات پر زور دیا۔اُمید ہے سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن مل کر الیکشن کی کوئی راہ نکال لیں گے۔اب اگر چیئرمین پی ٹی آئی کی بات کی جائے تو توشہ خانہ کیس میں شاید انہیں ریلیف مل جائے۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس کیس کا فیصلہ کرنے کو کہا ہے جس کے بعد سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھے گی۔ یہ چہ مگوئی بھی ہو رہی ہے کہ عمران خان توشہ خانہ کیس میں سے نکل آئے تو سانحہ نو مئی کا کیس انہیں آ گھیرے گا۔
احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن لیول پلیئنگ فیلڈ سب کو ملنی چاہیے۔ نواز شریف بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کے خواہشمند ہیں‘ لیکن انہیں اب تک Safe Sideنہیں مل رہی‘ شاید اسی لیے شہباز شریف اور نواز شریف کی لندن میں ہونے والی تازہ ملاقاتوں میں یہ طے پایا ہے کہ نواز شریف ستمبر میں پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ اب نواز شریف اکتوبر کے وسط میں آئیں گے یعنی یوں کہا جائے کہ نواز شریف کا ابھی واپس نہ آنے سے بھی یہ تاثر ملتاہے کہ فی الحال الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے۔ بہرحال عام رائے یہی ہے کہ کسی بھی سنگین آئینی مسئلے اور بحران سے بچنے کیلئے انتخابات کا بروقت انعقاد نہایت ضروری ہے۔ انتخابات میں تاخیر کے باعث ملک میں صرف بے چینی ہی نہیں بڑھے گی بلکہ صدرِ مملکت اور سینیٹ کے ارکان کے انتخاب کا معاملہ کا بھی التوا میں چلا جائے گا جو کسی صورت بھی جمہوریت اور آئینی اداروں کیلئے اچھی علامت نہیں ہوگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں