یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الیکشن کا دروازہ کھل گیا ہو۔الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کروانے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن حتمی تاریخ کا اعلان ابھی باقی ہے۔الیکشن کمیشن کے اس اعلان کے بعد بہت سی قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں۔ نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کہتے ہیں کہ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ ہم لمبے عرصے تک بیٹھے رہیں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ الیکشن کا ماحول بنتا دیکھ کر پیپلزپارٹی لیول پلینگ فیلڈ مانگ رہی ہے‘ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) بھی تیاریوں میں لگ گئی ہے۔ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے انتخابی مہم کا ماحول بننے جارہا ہے۔مسلم لیگ(ن)کی بات کی جائے تو اس کے کارکن اپنے قائد میاں نوازشریف کی واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ انتخابی مہم چلانے کے لیے نواز شریف کی وطن واپسی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ان دنوں لندن مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف وطن واپسی کے کچھ ہی گھنٹوں بعد د وبارہ لندن روانہ ہوگئے‘ جس کے بعد مختلف قیاس آرائیوں نے جنم لیناشروع کردیا۔ میاں نواز شریف کے ایک حالیہ بیان جس میں انہوں نے ایک بار پھر بعض سابق ججوں اور جرنیلوں پر تنقید کی ہے‘ سے یہ تاثر ابھرنے لگا ہے کہ ایک بار پھر وہ اپنے 2017ء کے بیانیے کو آگے لے کر چلناچاہتے ہیں۔ واقفانِ حال کے مطابق میاں شہباز شریف کی صرف ایک ہی روز بعد لندن واپسی کے پیچھے ایک وجہ اس طرح کے بیانات بھی ہیں اور وہ ایک اہم پیغام لے کر اپنے بھائی اور قائد کے پاس گئے ہیں‘ لیکن میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا ماننا ہے کہ انہیں مصالحانہ مؤقف اپنانے کے بجائے جارحانہ مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ لندن میں ہونے والی اس اہم میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے پہلے چھ جلسے کئے جائیں گے اور اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کا لہو گرمایا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں مسلم لیگ (ن) کے پاس میاں نواز شریف کی واپسی ہی آخری کارڈ ہے‘ جس کے استعمال کو روکنے کے لیے کچھ قوتیں سرگرم ہیں تاکہ میاں صاحب 21اکتوبر کو پاکستان نہ آسکیں۔ نوازشریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آئیں گئے یا نہیں اس کا انحصار خود اُن پر ہے۔بہرحال مسلم لیگ (ن) کیلئے اگر کوئی اُمید کی کرن ہے تو وہ نواز شریف کی وطن واپسی اور ان کا الیکشن مہم میں حصہ لینا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف کو لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرنا پڑا کہ میاں نواز شریف کی واپسی کی تاریخ میں کسی قسم کا کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا اور وہ 21 اکتوبر کو ہی وطن واپس آئیں گے ۔ میاں شہباز شریف ریاستی اداروں کے ساتھ مفاہمت کے قائل ہیں جبکہ نواز شریف ''ووٹ کوعزت دو‘‘ کی بات کرتے ہوئے لوگوں کی آواز بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں‘ اور یہ کوشش پھر سے ان کے تازہ بیان میں نظر آئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے جارحانہ مزاج رکھنے والے گروپ کے مطابق پاکستان میں عام طور پر مقتدرہ مخالف بیانیے کو پسند کیا جاتا ہے اس لئے میاں نواز شریف پُرامید ہیں کہ وہ چوتھی بار بھی ملک کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد کا خود پر یہی یقین پیپلزپارٹی کو گہرے شبہات میں ڈال رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کی 2008 ء کے انتخابات کے بعد وفاق میں کارکردگی ناقص رہی جس کے بعد جنوبی پنجاب بھی اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور وہ سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اس وقت چیئر مین پی ٹی آئی کی گرفتاری اور 9 مئی کے واقعات کے بعد پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی کم ہوتی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طاقتور حلقوں کی سرپرستی میں بازی لے سکتی ہے۔ اسی لئے وہ( ن) لیگ کے قائد میاں نواز شریف کے اتنے پراعتماد ہونے سے پریشان ہے اورلیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کا شکوہ کر رہی ہے۔بلاول بھٹو تو اپناحالِ دل سناتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ انہیں لیول پلینگ فیلڈ (ن) لیگ سے چاہیے۔ پیپلزپارٹی کی وفاق پر اس لیے بھی نظر ہے کہ اس کو پتہ ہے کہ اب نیب ریفرنسز بحال ہوچکے ہیں اور گھیرا کسی وقت بھی تنگ ہوسکتاہے‘ ایسے میں پیپلزپارٹی کی سندھ اور وفاق میں حکومت بنانا ضرورت بھی ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کے فیصلے کے بعد نیب ذرائع کے مطابق اسلام آباد‘ راولپنڈی اور کوئٹہ کی احتساب عدالتوں کو مقدمات واپس بھیج دیے گئے ہیں۔نیب پراسیکیوشن نے 80 مقدمات کا ریکارڈ احتساب عدالت اسلام آباد میں جمع کرادیا ہے۔مقامی احتساب عدالت کو بھیجے گئے مقدمات میں سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف پارک لین کیس‘ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور دیگرکے خلاف یونیورسل سروسز فنڈز کیس‘راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور پراجیکٹس کیس اور فرزانہ راجہ کے خلاف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیس سمیت دیگر کیسزبھی ہیں۔ آصف زرداری اور اومنی گروپ کے ڈائریکٹرز کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیسز بھی بحال ہوچکے ہیں۔ نیب مقدمات میاں نواز شریف سمیت دیگر لیگی رہنماؤں پر بھی ہیں جو پھر سے بحال ہوگئے ہیں‘لیکن پیپلزپارٹی نیب کیسز بحال ہونے سے زیادہ پریشان نظر آتی ہے۔ ایسے میں سینئر سیاستدان چوہدری شجاعت حسین نے آصف علی زرداری کو مشورہ دیا ہے کہ ملک محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا‘ ملکی صورتحال کی وجہ سے مل کر چلنے کی ضرورت ہے۔حالیہ عرصے میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے دست و گریباں رہی ہیں جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا‘ نہ آگے ہوگا بلکہ اس سے سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے۔ یہی بات چوہدری شجاعت نے آصف زرداری صاحب کو سمجھائی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین نے آصف زرداری سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ سیاسی محاذ آرائی کے حوالے سے میاں نواز شریف سے بھی بات کریں گے۔ اگرچہ زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں کی جارہی‘ وہ آئین کے مطابق اور زمینی حقائق سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔یعنی آصف زرداری صاحب کا اشارہ بھی لیول پلینگ فیلڈکی طرف ہے۔ زرداری صاحب کے نزدیک زمینی حقائق یہی ہیں کہ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے جبکہ( ن) لیگ کو کھل کر کھیلنے کی آزادی مل رہی ہے۔ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی( ق) لیگ سے بھی اتحاد کرلے کیونکہ وہ اس وقت وفاق پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور پیپلزپارٹی کی پوری کوشش ہے کہ جیسے تیسے وہ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ بعید نہیں کہ اس مقصد کے لیے وہ استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کے ساتھ بھی الحاق کر لیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما ندیم افضل چن تو پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر بلاول بھٹو نواز شریف صاحب سے ملنے لندن جاسکتے ہیں تو پھر وہ کسی کو ملنے اٹک جیل کیوں نہیں جاسکتے۔پیپلزپارٹی یہ بھی شکوہ کر رپی ہے کہ تحریک انصاف کے لوگوں کو توڑ کر (ن) لیگ میں شامل کیاجارہا ہے۔ اندازہ کریں کہ پیپلزپارٹی لیول پلینگ فیلڈکا تو مطالبہ کرتی ہے لیکن وہ اپنے لوگوں کو یہ دینے کوتیار نہیں۔ مصطفی نواز کھوکھر کی مثال دیکھ لیجئے ‘وہ پارٹی سے اختلافِ رائے کرتے تھے اس لیے انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا‘ اب لطیف کھوسہ کی پارٹی رکنیت معطل کردی گئی ہے۔ جمہوری جماعتوں میں اختلافِ رائے عام سی بات ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسا نہیں ہے۔بہرحال اب الیکشن قریب ہیں اورسیاسی رسہ کشی عروج پر جاتی دکھائی دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ مل جائے تو اُن کا کام بن جائے گاجبکہ مسلم لیگ (ن) کو لگتا ہے کہ اس سازگار ماحول میں میاں نوازشریف واپس آگئے تو اقتدار اس کی جھولی میں آگرے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ کس کی امیدیں بھر آتی ہیں اور کس کا دل بھر آتا ہے۔