آخرکار مسلم لیگ (ن)کی جان میں جان آ گئی۔ میاں محمد نواز شریف چار سال کی جلاوطنی کاٹنے کے بعد وطن واپس آگئے ہیں۔مسلم لیگ (ن)کا مینارِ پاکستان پر بڑا پاور شو دیکھنے کو ملا۔ میاں نواز شریف نے خطاب میں کہا ہے کہ میرے دل میں انتقام کی تمنا نہیں‘ قوم کی خدمت کرنا چاہتاہوں‘ ہمیں ڈبل سپیڈ سے دوڑنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین پرعمل درآمد کرنے والے ریاستی ادارے‘جماعتیں اور ریاست کے ستونوں کومل کرکام کرناہوگا۔اس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ بنیادی مرض دور کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے ملک باربار حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔
جلسے کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ جلسے کی تیاریوں میں مریم نواز‘شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایک ساتھ نظر آئے۔اس سے پہلے ایک تاثر ابھر رہا تھا کہ (ن) لیگ میں صف بندی ہے۔شریف خاندان میں ٹکراؤ ہے‘ لیکن میاں نواز شریف کی آمد کے موقع پر تینوں رہنما مینارپاکستان پر ایک ساتھ نظر آئے۔یہ امید کی جاسکتی ہے کہ نوازشریف (ن) لیگ میں موجود اختلافات کو ختم کرکے اپنی جماعت کومضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کی واپسی کی اشد ضرورت تھی۔(ن) لیگ نے پی ڈی ایم کی حکومت میں شرکت کرکے اپنا پولیٹیکل سرمایہ لوز کیا۔ایسے میں نواز شریف وطن واپس آئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف (ن) لیگ کے علاوہ ملکی سیاست کا بھی اہم حصہ ہیں۔ ان کی واپسی پربہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب پاکستانی سیاست میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوگی۔میاں نواز شریف پاکستان کے تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ وہ تجربہ کار ہیں اور ہر بار انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ ان کی زندگی اور سیاست کی کہانی نشیب وفراز سے بھری پڑی ہے۔اُن کی واپسی پر عوام کی ان سے توقعات اورامیدیں مزید بڑھ گئی ہیں۔عوام کی نظریں 2017 ء کے پاکستان پر ہیں‘ جس میں مہنگائی کم اور لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر تھی اور سی پیک تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔لیکن بدقسمتی سے پولیٹیکل انجینئرنگ کی و جہ سے نواز شریف عملی سیاست سے باہر ہوگئے۔ ان کو مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔اب نواز شریف کیلئے حالات سازگار ہوگئے ہیں‘ آج (ن) لیگ کے متوالوں نے اپنے قائد کا پرتپاک استقبال کیا ۔ نوازشریف بہت بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔اور وہ بھی مینارپاکستان میں جہاں جلسہ کرنا آسان نہیں اور خاص طور پر تب جب آپ کی جماعت مشکلات سے دوچار ہو۔لیکن (ن) لیگ نے دلیری کے ساتھ یہاں جلسہ کیا۔ایک وقت تھا جب نواز شریف کا نام ٹی وی پر چلانے پر پابندی تھی لیکن اب ہر طرف ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ان کے مخالفین اب اس پر شور مچا رہے ہیں کہ نوازشریف کو اتنی جلدی مقدمات میں ریلیف کیسے مل رہا ہے۔ یہ سوال اس وقت بھی پوچھا جانا چاہیے تھا جب ایک شخص کو ایک ہی دن میں 12 ضمانتیں ملی تھیں۔نوازشریف کے کیسز کی بات کی جائے تو ان کے وکلاکا پہلے ہی یہ کہنا تھا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل کی منظورکرنے میں کوئی وقت نہیں لگے گا کیونکہ نیب مریم نواز اور ان کے شوہر محمد صفدر کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے ہی 2018 ء میں ایون فیلڈ ریفرنس میں ان کی سزاؤں کو معطل کر دیا تھا۔ایسے میں میاں نواز شریف کو بھی اس کیس میں ریلیف ملے گا اور پھر ہم نے دیکھا کہ انہیں ریلیف ملا اوران کی 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور ہوگئی ۔پھر اسی طرح جب نواز شریف نومبر 2019 ء میں علاج کے لیے بیرون ملک گئے توالعزیزیہ کیس میں ان کی سزا کے خلاف اپیل پر 60 فیصد کارروائی پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی۔اب نواز شریف کو 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت ملی ہے لیکن حتمی نہیں ہے ‘ابھی ان کا ریلیف عارضی ہے۔جہاں تک ان کی نا اہلی ختم ہونے کی بات ہے تو جیسا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ عدلیہ آزاد ہے ‘ ایسے میں الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی سزا پانچ سال کرنے کے قانون کو بھی عدالت میں لے جایا جائے گا جہاں ممکن ہے سپریم کورٹ اس قانون کو تسلیم کرلے پھر نواز شریف کیلئے قانونی پیچیدگی ہوسکتی ہے۔اعظم نذیر تارڑ اور عرفان قادر جیسے ماہرین قانون توکہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کی نا اہلی ختم ہوچکی ہے ا ور وہ قانونی طور پر انتخابات لڑنے کے اہل ہیں۔گو کہ کچھ قانونی ماہرین کی رائے کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک ایکٹ سے ختم نہیں کیاجاسکتا‘ اس کیلئے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے ذریعے آئین کوبدلنا ہو گا۔اب اس پر مختلف آراہیں لیکن اس حوالے سے حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر24 اکتوبر کے بعد نواز شریف گرفتار ہوئے تو کون (ن) لیگ کی مہم چلائے گا ‘تو یقینی طور پر شہباز شریف مہم چلائیں گے۔مریم نواز بھی جلسے کرتی نظرآئیں گی۔یوں انتخابی مہم تو چلے گی لیکن اہم بات یہ ہے کہ انتخابی مہم کامیاب بھی ہو گی؟ انتخابی مہم کامیابی کے زیادہ چانس اسی صورت میں ہوں گے جب نواز شریف خود میدان میں ہوں گے۔ شاید اسی لئے ان کے مخالفین نہیں چاہتے کہ نواز شریف میدان میں ہوں۔ پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں وہ بہت زیادہ مایوس نظر آرہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بار بار مسلم لیگ (ن) کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے حال ہی میں ایک تقریر میں کہا کہ ایک شخص کیلئے انتخابات کو روکا گیا اور لندن سے ملک کو نہیں چلایا جاسکتا ‘ ان کا اشارہ نواز شریف کی طرف تھا۔بلاول کی اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ ایک شخص کی واپسی کیلئے الیکشن روکا گیا تو پھر کیا خود بلاول بھٹو اور ان کی جماعت نے یہ کوشش نہیں کی کیونکہ وہ پہلے انتخابات جلد کروانے پر راضی نہیںتھے۔بلاول نے یہ بھی کہا کہ لندن سے ملک کو نہیں چلایا جاسکتا۔میاں نواز شریف بھی یہ بات جانتے ہیں کہ ملک باہر بیٹھ کر نہیں چلتا‘اس لیے وہ واپس تشریف لائے ہیں۔یہی پیپلزپارٹی تھی جو پہلے نوازشریف کو ملک واپس آنے کا مشورہ دیتی تھی ‘اداروں سے محاذ آرائی نہ کرنے کا مشورہ دیتی تھی لیکن اب اگر (ن) لیگ کے تعلقات ٹھیک ہو چکے ہیں تو یہ بات پیپلزپارٹی کو ہضم نہیں ہورہی۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سب کو انتخابی میدان میں اترنے کا موقع ملنا چاہیے تو ضرورایسا ہونا چاہیے۔کسی کو بھی انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ عمران خان اس وقت خود اپنی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔اپنی کھوئی ساکھ اور مقبولیت کو بڑھانے کیلئے انہوں نے ایک سائفر کاسہارا لیا لیکن اب اس معاملے پر سب تدبیریں الٹی ہوگئی ہیں۔اعظم خان اور اسد مجید نے سائفر کو اڑا کر رکھ دیا ہے اور یوں عمران خان کے امریکی سازش بیانیے کی دھجیاں اُڑ گئی ہیں۔جس کے بعد شاید اب عمران خان کا سائفر کیس سے نکلنا ممکن نہیں رہا۔اگرعمران خان اپنے کیسز میں بے گناہ ثابت ہوجاتے ہیں تو انہیں بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔بہرحال نواز شریف کی واپسی کی صورت میں (ن) لیگ کوٹھنڈی ہوا کا جھونکاملا ہے اور(ن) لیگ کے حالات بہتر ہوتے نظر آرہے ہیں۔اب دیکھنایہ ہے کہ نواز شریف مضبوط بیانیے کے ساتھ بہتر منشور بھی دے سکیں گے ‘یہ اُن کیلئے بڑا امتحان ہوگا۔