ہمارے ہاں یہ جملہ اکثر سننے کوملتا ہے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں لیکن ملکی سیاست کو دیکھیں تو یہ اس وقت قانونی جنگ کی حالت میں ہے اور قانون کو بھی لیول پلینگ فیلڈ کے زاویے سے جوڑا جارہا ہے۔قانون کا معیار ایک نہیں‘ دو ہیں۔ ایک طرف انصاف کے دہرے معیار کا رونارویا جا رہا ہے۔ جس کسی کو اس کی مرضی کے مطابق انصاف ملتا ہے‘ اس کی نظر میں انصاف اعلیٰ ہوتا لیکن اگر فیصلہ حمایت میں نہ ہو تو قانون کو جس کی لاٹھی اُس کی بھینس قرار دے دیا جاتا ہے۔آپ میاں نواز شریف کے معاملے کو دیکھ لیں۔وہ شخص جو پولیٹیکل انجینئرنگ کا شکار ہوا‘ چار سال جلا وطن رہا‘جس کو پاناما کے ذریعے سیاست سے آؤٹ کیا گیا‘آج انصاف اور قانون کے ادارے اس سے کی گئی زیادتیوں کا اعتراف کر رہے ہیں اور کیسز پر میرٹ پر فیصلہ دے رہے ہیں‘ مگر یہ ناقدین کو کس قدر گراں گزر رہا ہے۔ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں نوازشریف کی اپیلیں بحال ہوئیں تو کہرام سا مچ گیا۔کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ جس طرح نواز شریف کو اقامہ پر نکالاگیا کیا وہ زیادتی نہیں تھی؟اگر نواز شریف کیخلاف العزیزیہ اور ایون فیلڈ کیس میں کچھ تھا تو اب تک سامنے کیوں نہیں آسکا؟مجھے لگتا ہے کہ نیب کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ ان کیسز میں سے کچھ نہیں نکلنا۔ اگر نوازشریف کیخلاف نیب ریفرنسز واپس لے لیے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈیل ہوگئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگاکہ نواز شریف کے کیسز میں نیب کچھ بھی ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔اب جیسا کہ نواز شریف کے کیسزکی اپیلیں بحال ہوچکی ہیں تو یہ کیسز جلد اپنے انجام کوپہنچ جائیں گے۔ویسے بھی نیب ہمیشہ سے پولیٹکل انجینئر نگ کیلئے استعمال ہوتا آیا ہے۔بیشتر رہنما اس کوکالا قانون قرار دیتے ہیں اور کچھ اس کو معیشت کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔یہ ادارہ عمران خان کے دورمیں بھی مخالفین کیخلاف استعمال ہوا۔عمران خان نواز شریف کو للکارا کرتے تھے کی نواز شریف واپس آئیں گے تو وہ ان کی جیل کی ساری سہولتیں بندکر دیں گے لیکن حالات دیکھئے کہ آج عمران خان کے بڑے بول خودد اُن کے آگے آگئے ہیں۔عمران خان کو جیل کا سیل تنگ لگا تو سیل کو بڑھا دیا گیا‘ پھر عمران خان نے ورزش کیلئے سائیکل مانگی تو انہیں وہ دے دی گئی۔تحریک انصاف کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو بھٹو کی طرح سیاست سے آؤٹ کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔بلاشبہ بھٹو کاjudicial murder کیا گیا‘ بھٹو کو خاموش کروادیا گیا لیکن وہ تاریخ میں اَمر ہیں۔مارشل لا ء کے دور میں اُن کا تختہ الٹا گیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو اس وقت مقبول ترین لیڈر تھے اور عمران خان بھی اس وقت مقبول ترین لیڈر ہیں لیکن ان پر سنگین نوعیت کے کیسز بنائے گئے ہیں۔سانحہ نو مئی ‘پھر سائفر جس کا قومی سلامتی سے تعلق ہے۔سائفر میں اُن کیلئے پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر پرتازہ سماعت میں عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ عمران خان کے پاس بطور وزیر اعظم سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کااختیار نہیں تھاجبکہ عمران خان کے وکلا یہ دلیل دے رہے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جلسے میں جو کاغذ لہرایا وہ سائفر نہیں تھا۔اگر ایسا ہے تو اُن پر دھوکے کا مقدمہ چلنا چاہیے کہ انہوں نے بیانیہ بنانے کے لیے عوام کو گمراہ کیا۔پراسیکیوٹر ایف آئی اے کے مطابق اگرجرم ثابت ہوتا ہے تو 14 سال قید یا سزائے موت بنتی ہے۔ سیکرٹ ڈاکومنٹ پبلک کرنے پر بطور وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل248 کے تحت استثنا حاصل نہیں۔اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں مقدمے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن پانچ کا اطلاق ہوتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کا کیس ہے کہ وزارت خارجہ نے سائفر کو ڈی کوڈ کر کے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کو بھجوایا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم سائفر کو وصول کیا اوربظاہر گم کر دیا۔جیسا کہ میں پہلے بھی کہتا آیا ہوں اور یہ بات ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بھی بتائی کہ اس کیس میں ملزم نے خود اعتراف کیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کی معلومات پبلک تک پہنچائیں جس کے وہ مجاز نہ تھے۔سائفر ایک خفیہ دستاویزتھی جس کو آشکار نہیں کی جاسکتا تھااور محسوس ہورہا ہے کہ عدالت بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کیونکہ عدالت کا کہنا ہے کہ پالیسی کے مطابق سائفر کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے جسے غیر مجاز افراد کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا اور سائفر کو کچھ وقت کے بعد واپس فارن آفس جانا ہوتا ہے۔بظاہر لگ رہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے چیئرمین پی ٹی آئی کو شاید سزا ہوجائے لیکن چیئرمین پی ٹی آئی تو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اس کیس میں اپنی بے گناہی ثابت کریں گے‘ لیکن گواہان نے ان کیلئے الگ مشکل پیدا کردی ہے اور اس کیس میں ان کے لیے بچنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔مشکل تو جسٹس مظاہر نقوی کے لیے بھی نظر آرہی ہے۔ان کی ایک مبینہ آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں وہ مبینہ طور پر چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔اب سپریم جوڈیشل کونسل نے آٹھ ماہ بعد اس پر نوٹس لیا ہے اورجسٹس مظاہر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے۔کونسل میں کل 29 شکایتیں رکھی گئی جن میں سے 19کو رد کردیا گیا اور دس کو شامل کرلیا گیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس پر کیافیصلہ کرتی ہے۔اس سے پہلے موجودہ چیف جسٹس کو بھی ایک ریفرنس کا سامنا کرنا پڑا تھاجس پر حال ہی میں صدر مملکت نے لب کشائی کی ہے۔صدرعارف علوی نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس انہوں نے نہیں بھیجا تھا بلکہ حکومت کے کہنے پر ایسا کیا تھا۔ میرے خیال میں وہ درست کہہ رہے ہیں کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ یہ ریفرنس چیئرمین پی ٹی آئی کے کہنے پر بنایا گیا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھاکہ وہ یہ ریفرنس نہیں بھیجنا چاہتے تھے‘ انہوں نے سارا ملبہ اُس وقت کے وزیر قانون فروغ نسیم پر ڈال دیا کہ وہ ریفرنس دائر کرنے کے ذمہ د ار تھے۔اب عمران خان صدر عارف علوی سے بھی نظریں پھیر رہے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ صدر مملکت نے کوئی ڈیل کرلی ہے۔شیرافضل مروت تو کہتے ہیں کہ ان سے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاں ہے کہ وہ عارف علوی سے ناامید ہوچکے ہیں۔ خان صاحب کو تو ہر طرف ناامیدی ہی نظر آرہی ہے اور وہ امید کی کرن پیدا کرنے کیلئے اپنے مخالفین سے بات کرنے کیلئے بھی تیار ہوگئے ہیں جن کو وہ طرح طرح کے القابات سے نوازا کرتے تھے۔میں بات کر رہاہوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پی ٹی آئی کے وفد کے درمیان حالیہ ملاقات کی۔اگر پی ٹی آئی جمعیت علمائے اسلام (ف) سے اتحاد کرلیتی ہے تو کیاتحریک انصاف کا سپورٹر اور ووٹر اس کو قبول کرلے گا؟ اب توپیپلزپارٹی کی شیری رحمان صاحبہ بھی کہہ رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے بغیر انتخابات کے نتائج کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ممکن ہے آنے والے دنوں میں مولانا فضل الرحمن‘پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف پی ڈی ایم طرز کا اتحاد بنالیں ۔ یہ اتحاد ہوا تو (ن) لیگ اور نوازشریف کا راستہ روکنے کیلئے ہو گا کیونکہ اس وقت یہ جماعتیں نواز شریف کی مقبولیت اور قبولیت سے خائف ہیں۔