انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی جوڑ توڑ بھی اپنے عروج پر جا پہنچا ہے۔ کون سی سیاسی جماعت آئندہ انتخابات میں کنگز پارٹی بنے گی‘ تجزیہ کاروں کی نظریں اس پر جم گئی ہیں۔ نو مئی کے واقعات کے بعد سے تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی‘ اس کے سیاسی بطن سے ایک نئی جماعت استحکامِ پاکستان پارٹی وجود میں آ ئی۔ اس جماعت کی سربراہی جہانگیر ترین کے حصے میں آئی‘ گو کہ وہ ابھی خود الیکشن لڑنے کے اہل نہیں‘ لیکن وہ رہنما جن کو 2018ء کے عام انتخابات کے بعد ہوا کے دوش پر لا کر تحریک انصاف میں شامل کیا گیا تھا‘ وہ پھر سے ہوا کے دوش پر جہانگیر ترین کی جماعت میں شامل ہونے لگے جس کے بعد یہ سوچ اُبھرنے لگی کہ شاید اگلے انتخابات میں کنگز پارٹی استحکامِ پاکستان پارٹی ہو لیکن میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد یہ تاثر غلط ثابت ہو گیا اور اب (ن) لیگ کو کنگز پارٹی کہا جا رہا ہے۔ اس بات کا اعتراف پیپلز پارٹی بھی کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں مسلم لیگ (ن) کو کنگز پارٹی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ موجودہ کنگز پارٹی کا وہی حال کریں گے جو 2008ء میں اُس وقت کی کنگز پارٹی کا کیا تھا۔ مضبوط سہاروں پر کھڑی کنگز پارٹی انتخابات میں ہمیشہ سبقت لے جاتی ہے‘ تبھی تو اس کو کنگز پارٹی کہا جاتا ہے۔ کنگز پارٹی کا خمار چڑھتا ہے اور اُتر بھی جاتا ہے۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی وقت میں کنگز پارٹی رہی ہیں۔ ملک میں سیاسی جماعت کا قیام تو قدرے آسان ہے لیکن اس کی عوامی سطح پر پذیرائی ایک انتہائی کٹھن مرحلہ ہے۔ کئی سیاست دانوں نے اپنی اپنی سیاسی جماعتیں بنائیں لیکن ان میں سے بیشتر کو عوامی سطح پر کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہو سکی‘ بلکہ یہ جماعتیں صرف الیکشن کمیشن کے رجسٹریشن ریکارڈ کا حصہ بننے کے سوا کوئی خاص مقام حاصل نہ کر سکیں۔ اس وقت الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب فہرست کے مطابق کمیشن کے پاس 168 جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ 12اکتوبر 1999ء کو جب میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو اس کے بعد مسلم لیگ (ن) سے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا عمل شروع ہوا۔ اس پر مرحلہ وار کام ہوا اور شروع میں مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنے والوں یا اس سے ناراض رہنماؤں نے ایک ہم خیال گروپ بنایا جسے مسلم لیگ ہم خیال کا نام دیا گیا لیکن جلد ہی وہ ایک سیاسی جماعت میں بدل گیا۔ ابتدا میں اس جماعت کے کرتا دھرتا سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر رہے پھر اس جماعت کی باگ ڈور گجرات کے چوہدری برداران یعنی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے سنبھال لی۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) سے مسلم لیگ (ق) وجود میں آئی۔ اس کنگز پارٹی نے 2002ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور پیپلز پارٹی کے10ارکان کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنالی۔ پیپلز پارٹی سے الگ ہونے والے ارکان نے اپنے گروپ کو پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا نام دیا۔
اسے محض اتفاق کہیں یا پھر نام کا کرشمہ کہ پرویز مشرف کے علاوہ ایوب خان اور ضیا الحق نے بھی سرکاری سطح پر جس سیاسی جماعت کی سرپرستی کی وہ مسلم لیگ ہی تھی۔ البتہ ان کے ساتھ سابقے اور لاحقے مختلف رہے۔ ایوب خان کے دور میں اسے کنونشن مسلم لیگ تو ضیا الحق کے دور میں صرف پاکستان مسلم لیگ ہی کہا گیا۔ ضیا الحق کے بعد مسلم لیگ تقسیم در تقسیم ہوئی۔ مسلم لیگ (ن)‘مسلم لیگ جونیجواور پھر مسلم لیگ ضیا وجود میں آئیں۔ پہلے سے موجود مسلم لیگ فنکشنل اب بھی قائم ہے۔ ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ تخلیق کی جس کے مقابلے میں مسلم لیگ کونسل موجود رہی۔ پھر پیر پگارا کی مسلم لیگ فنکشنل سامنے آئی اور اس کے ایک رکن محمد خان جونیجو 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد وزیراعظم بنے۔ 1992ء میں مسلم لیگ (ن) کی داغ بیل ڈالی گئی جس نے 1993ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کنگز پارٹی مسلم لیگ (ق) کا وجود عمل میں آیا‘ پرویز مشرف نے اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد بھی رکھی۔ بعد ازاں مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کا حصہ رہنے والے سیاست دان شیخ رشید احمد نے اپنی جماعت عوامی مسلم لیگ قائم کی۔ کسی ایک سیاسی جماعت کے زیر عتاب آنے پر اس کی تقسیم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد پیپلز پارٹی براہِ راست نشانے پر تھی۔ پیپلز پارٹی سے بھی اس کے چوٹی کے رہنما الگ ہوئے بلکہ نئے نام سے پیپلز پارٹی کا دوبارہ جنم ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر جب مشکل وقت آیا تو ان کے قریبی ساتھی اور ان کی کابینہ کے ارکان ایک ایک کرکے ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے رکن مولانا کوثر نیازی نے علیحدگی اختیار کی اور پروگریسو پیپلز پارٹی کے نام سے پارٹی بنائی۔ پھر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے نے لاہور میں مساوات پارٹی تشکیل دی۔ اسی طرح 1986ء میں پیپلز پارٹی کے دو اہم اور بڑے نام‘ سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفٰی جتوئی اور سابق گورنر پنجاب غلام مصطفٰی کھر نے نیشنل پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی سفر میں کئی دھڑے بنے۔ ان میں ایک دھڑا بے نظیر بھٹو کے بھائی نے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے نام سے بنایا۔ اسکے علاوہ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما رانا شوکت محمود نے زیڈ اے شہید بھٹو کی بنیادرکھی جس میں پی پی سے تعلق رکھنے والے پرانے رہنما شریک ہوئے لیکن بعد میں یہ پارٹی پیپلز پارٹی شہید بھٹو میں ضم ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے پیٹریاٹ اور شیر پاؤ کے لاحقے سے بھی دو دھڑے وجود میں آئے۔ 2002 میں اسوقت کی پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن کی کسی قسم کی تادیبی کارروائی سے محفوظ رہنے کیلئے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین تشکیل دی اور اسی نئے نام سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروایا تاکہ 2002ء میں ہونیوالے انتخابات میں حصہ لے سکے۔ اب بھی پیپلز پارٹی اسی نام سے انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالی جائے تو جماعت اسلامی میں 1956ء کے ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے سوا کوئی بڑی تقسیم نہیں ہوئی جب جماعت اسلامی کے امین احسن اصلاحی سمیت کئی رہنماؤں نے اس سے راہیں الگ کر لی۔ جماعت اسلامی نے 1993ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے بجائے پاکستان اسلامی فرنٹ کے نام سے حصہ لیا لیکن کامیابی نہ ملی۔ جے یو آئی کے دو دھڑے جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) اور جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق) کی شکل میں موجود ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنی جماعت بنائی اور ایک مرتبہ رکنِ اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے بھی تحریکِ استقلال نامی جماعت قائم کی تھی‘ یہ جماعت کبھی انتخابات میں توکامیاب نہ ہوئی البتہ اس جماعت سے میاں نواز شریف اور چند دیگر مشہور شخصیات نے سیاست شروع کی تھی‘ اعتراز احسن اور محمود علی قصوری بھی کچھ عرصے کیلئے اسکا حصہ رہے۔ محمود علی قصوری جب تحریکِ استقلال میں شامل ہوئے تو کہا گیا کہ تحریکِ استقلال کو پارلیمنٹ میں نشست مل گئی ہے کیونکہ وہ اُسوقت رکنِ اسمبلی تھے۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تو اپنی جماعت کو تحریک انصاف میں ضم کر دیا ۔ 1993ء کے عام انتخابات کے بعد اس بات پر چرچا ہوا کہ ملک نے دو جماعتوں کی سیاست کی طرف سفر شروع کر دیا ہے لیکن یہ تجزیے بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب رہیں۔سیاست دانوں نے سب سے زیادہ گزشتہ 20برس میں سیاسی جماعتوں کو خیر باد کہا اور ایک جماعت سے دوسری اور پھر تیسری جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تشکیل پر نظر دوڑانے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ کنگز پارٹی اپنا وجود مستقل قائم نہیں رکھ سکتی اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف نئی جماعتیں بنانا تو آسان ہوتا ہے لیکن ان کا وجود برقرار رکھنا اتنا ہی مشکل۔