"IYC" (space) message & send to 7575

انتخابات: شفاف یا متنازع؟؟

حالیہ دنوں میں مختلف سیاسی شخصیات نے عام انتخابات کے 8 فروری کو انعقاد کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دہشت گردی کو قرار دیا جارہا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے حال ہی میں ایک بیان دیا ہے کہ دہشت گردی کی لہر پھیل رہی ہے لیکن اُمید ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ یعنی انہیں بھی ماحول انتخابات کے لیے سازگار نہیں لگ رہا؟ لیکن ضروری تو یہ ہے کہ آئین پر ہر حال میں عمل کیا جائے۔ انوار الحق کاکڑ کی طرح گورنر کے پی نے بھی اس تشویش کا اظہار کیا کہ خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں دہشت گردی جڑ پکڑ رہی ہے جس کے بعد وہاں انتخابی سرگرمیاں مشکل ہو جائیں گی۔ یعنی انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ ابھی تک یہی سوال گھوم رہا ہے لیکن اس سوال کا جواب ہمیں کچھ حد تک مل گیا ہے۔ کیونکہ اب وزارتِ خزانہ نے 8 فروری کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو 17ارب 40کروڑ روپے جاری کر دیے ہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزارتِ خزانہ نے اس سے قبل 10ارب روپے جاری کیے تھے۔ اب تک مجموعی طور پر الیکشن کمیشن کو 27ارب 40کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ بجٹ میں الیکشن کے لیے کل 42ارب روپے مختص کیے گئے تھے یعنی ابھی الیکشن کمیشن کو 15 ارب روپے مزید ملنے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو ان فنڈز کے اجرا سے یہی نظر آ رہا ہے کہ انتخابات ہونے جارہے ہیں لیکن اگر الیکشن کمیشن کو باقی فنڈز دسمبر کے وسط تک جاری نہ ہوئے تو اسے انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن وزارتِ خزانہ کو الیکشن کے لیے فنڈز کے اجرا کے حوالے سے بار بار لکھتا رہا ہے لیکن وزارتِ خزانہ نے کسی قسم کا کوئی ردِ عمل نہیں دیا جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے سیکرٹری خزانہ کو طلب کر لیا کہ وہ دو دن کے اندر اندر پیش ہوں۔ اس نوٹس کا مطلب یہ تھا کہ جب سیکرٹری خزانہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے پاس پہنچتے تو ان کے خلاف الیکشن کمیشن ایکشن لے سکتا تھا اور ان کے خلاف فردِ جرم عائد ہو سکتی تھی۔ یہاں تک کہ ان کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی تھی کیونکہ نگران حکومت میں سب سے زیادہ اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس ہیں۔ ہر نگران حکومت میں الیکشن کمیشن کے پاس زیادہ اختیارات آجاتے ہیں کہ وہ کسی بھی سیکرٹری کو فارغ کر سکتا ہے‘ کسی کا بھی ٹرانسفر کر سکتا ہے‘ کسی کا بھی ٹراسفر روک سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ کسی وزیر کو بھی ڈی سیٹ کر سکتا ہے۔ اس لیے سیکرٹری خزانہ کو یہ پتا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن نے اُن کو بلا لیا تو پھر وہ بڑی مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سیکرٹری خزانہ کو یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ دو دن کے اندر الیکشن کمیشن کو تمام فنڈز جاری کر دیے جائیں گے۔ اور اب جیسے ہی باقی فنڈز جاری ہوں گے تو 8فروری کو انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی جائیں گی۔ یعنی الیکشن کمیشن نے اس معاملے میں اپنی رِٹ دکھائی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن ہر صورت انتخابات کروا کر ہی دم لے گا اور اس حوالے سے اس کی نیت صاف ہے۔ اب دہشت گردی کے نہ رکنے والے واقعات اور پہاڑی علاقوں کے خراب موسم کی صورتحال بھی آڑے نہیں آئے گی۔
(ن) لیگ کو بھی اب انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں۔ حالیہ دنوں مسلم لیگ (ن) نے سرگودھا میں اُمیدواروں کے انٹرویوز کیے۔ مسلم لیگ (ن) انتخابات کے حوالے سے اپنی حکمت عملی بناتی اور اُس پر کام کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ گو کہ (ن) لیگ کی ٹکٹوں کی تقسیم پر آپسی اختلافات بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ دانیال عزیز اور احسن اقبال حالیہ دنوں میں ایک دوسرے کے مد مقابل نظر آئے ہیں لیکن اس سب کے باوجود بہرحال (ن) لیگ کی انتخابی سرگرمیاں کچھ بہتر لگ رہی ہیں۔ اصل سوال مگر یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن انتخابات میں شفافیت یقینی بنا پائے گا یا نہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہی ہیں اور یہ شکوہ کر رہی ہیں کہ صرف ایک جماعت کو اس وقت کھل کر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے اور وہ مسلم لیگ (ن) ہے۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ 2018 ء میں (ن) لیگ کو لیول پلیئنگ میسر نہیں تھی۔ جس طرح میاں نواز شریف کو نکالا گیا‘ یہ سب کہانی اب منظر عام پر آچکی ہے۔ پھر جس طرح 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی‘ وہ حقائق بھی سب کے سامنے ہیں۔ نواز شریف کو عملی سیاست سے باہر کیا گیا۔ پھر آر ٹی ایس بٹھا کر تحریک انصاف کی حکومت بنائی گئی یہاں تک کہ پنجاب میں بھی آزاد اُمیدواروں کو جہازوں پر بٹھا کر تحریک انصاف کے حوالے کیا گیا۔ اب ہر کسی کی نظر میں لیول پلیئنگ فیلڈکی تعریف اور ہے۔ تحریک انصاف کی نظر میں لیول پلیئنگ فیلڈ یہ ہو سکتی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر تمام کیسز ختم کر دیے جائیں‘ اُنہیں انتخابات کے لیے اہل کر دیا جائے۔ اسی طرح (ن) لیگ کا یہ مطالبہ ہے کہ میاں نواز شریف کی نا اہلی ختم ہو اور وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ گو کہ (ن) لیگ کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلی الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد ختم ہو گئی ہے۔ پھر اسی طرح پیپلز پارٹی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یہ ہو گی کہ اقتدار صرف اس کے حوالے کیا جائے۔
انتخابات کی شفافیت پر اس لیے بھی سوال اٹھ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی کو مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ توشہ خانہ‘ سائفر اورالقادر ٹرسٹ کے مقدمات ان کے لیے مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اب بلے کے نشان کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ انٹرا پارٹی انتخابات بھی متنازع ہو چکے ہیں۔ سائفر کیس کا فیصلہ بھی اب ہفتوں کی گیم رہ گئی ہے جس میں خان صاحب کو سزا بھی ہو سکتی ہے اور اس کے بعد انتخابات کروا دیے جائیں گے۔ یہ سب عوامل یہ پتا دیتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو نکالنے والی غلطی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس غلطی کو ٹھیک کرنے کے چکر میں مزید غلطی تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی صورت میں ہو رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ غلطی ٹھیک کرنے کے لیے پھر سے اسی غلطی کو دہرایا جائے‘ لیکن افسوس کہ ایسا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض تجزیہ کاروں کی نظر میں الیکشن کمیشن شاید شفاف انتخابات نہ کروا سکے۔ بانی تحریک انصاف مگر جیل میں بیٹھے اب بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ انتخابات میں میدان ماریں گے کیونکہ وہ اب بھی عوام میں مقبول ہیں۔ لیکن کیا اُنہیں واقعی قبولیت حاصل ہے‘ یہ اصل سوال ہے۔ ہو نہ ہو‘ ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ خود بھی اس کے ذمہ دار ہیں‘ انہوں نے خود اپنے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ بند کی یا یوں کہہ لیں کہ اُنہوں نے لیول پلیئنگ فیلڈ کے دروازے کے تالے کو اپنے ہاتھوں سے لاک کرکے چابی تالاب میں پھینک دی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنی غلطیوں سے سیکھنے کو تیار نہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سائفر کیس کی سماعت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے نو مئی واقعات کی ساری ذمہ داری (ن) لیگ پر ڈال دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر نو مئی کے واقعات میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا تو ان کی جماعت کے رہنماؤں کی اشتعال انگیز تقریریں پھر کیا تھیں؟ ان کی جو آڈیو کالز لیک ہوئیں‘ وہ کیا تھیں؟ بہتر تو یہی ہے کہ خان صاحب اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور آگے بڑھیں‘ پھر ممکن ہے ان کی واپسی کا کوئی راستہ بن جائے۔ اب صرف انتخابات کا انعقاد ہی نہیں بلکہ ان کا شفاف ہونا بھی نہایت ضروری ہے‘ ورنہ پھر ایک جماعت دوسری کو سلیکٹڈ کے لقب سے نوازتی رہے گی اور سیاسی کشیدگی مزید طول پکڑتی جائے گی جس کی وجہ سے انتخابات پر تنازعات کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں