کہتے ہیں کہ صبر آتے آتے ہی آتا ہے۔صبر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں لیکن جو صبر کرجائے پھر کامیابی اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب کبھی ان پر مشکل وقت آیا تو انہوں نے صبر کے دامن کو تھامے رکھا۔ یہی طرزِ زندگی ہمیشہ نواز شریف کے برُے وقت کو اچھے وقت میں بدل دیتا ہے۔بنیادی طور پر نواز شریف سب سے زیاد ہ تجربہ کار سیاستدان ہیں۔چار دہائیوں سے وہ سیاست کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ مشکلوں سے کیسے لڑنا ہے۔نواز شریف کی سیاست کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو 90ء کی دہائی میں جب حکومت آنے جانے کا کھیل تماشاچل رہا تھا‘ اس کھیل تماشے میں نواز شریف کی پہلی حکومت اٹھارہ جولائی 1993ء میں اُس وقت کے صدرِ مملکت اسحاق خان کی چپقلش کی نذر ہو گئی۔ پھر بھی میاں صاحب نے اپنی سیاسی جستجو کو جاری رکھاجس کے بعد وہ ایک بار پھر اقتدار میں آئے‘ یوں اس بار انہیں دو تہائی اکثریت ملی اور وہ 17 فروری 1997ء کو دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن پھر مارشل لاء لگ گیا اور پرویز مشرف نے ان کا اقتدار غیر آئینی طریقے سے ختم کردیا۔ معزول وزیر اعظم کو اٹک جیل بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے جیل کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ دوست ملک سعودی عرب کی مداخلت سے نواز شریف کی سزا کو ختم کرکے جلاوطنی میں بدلا گیا اوروہ طویل عرصہ جلا وطنی کاٹ کر 2007ء میں واپس آئے اور 2013 ء میں وہ تیسری بار وزیر اعظم بنے۔یوں دیکھا جائے تو نواز شریف نے اب تک جلاوطنی کے بعد صرف ایک الیکشن لڑا ہے ‘یعنی 26 سال میں وہ صرف ایک بار انتخاب لڑسکے ہیں۔ جس میں انہیں کامیابی ملی اور وہ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔پھر 2018ء کے انتخابات سے پہلے ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ سب کے سامنے ہیں۔انہیں انتخابات سے باہررکھا گیالیکن اب ایک بار پھر سے رُت بدل رہی ہے اور کھوکھلے کیسز میں جان نہ ہونے کی وجہ سے وہ ڈھیر ہو گئے۔ العزیزیہ کیس میں بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو بری کر دیا ۔جس کے بعد ایکبار پھر سے اُن کے صبر کی بدولت ان کی چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔یہ راز تو اب سب کے سامنے آشکار ہوچکا ہے کہ صرف ایک خاندان کو پاناما کی آڑ میں ٹارگٹ کیا گیا۔ پانامہ کیس436پاکستانیوں کیخلاف تھے لیکن مقدمات صرف نواز شریف کیخلاف چلا ئے گئے‘ جس سے یہ شک اور بھی یقین میں بدل گیا کہ انہیں سوچ سمجھ کر انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
قارئین کی یادداشت کیلئے یہ بتاتے چلیں کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں صرف ایک خاندان کو ٹارگٹ کرنے پر اہم سوال اٹھائے تھے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے تھے کہ پانامہ کیس 436 پاکستانیوں کیخلاف تھا لیکن یہ صرف نوازشریف کے خلاف چلایا گیا‘ سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف پانامہ مقدمہ میں وہ بھی کیا جو لکھا نہیں۔ سپریم کورٹ نے درخواست سے فالتوکام کرتے ہوئے نااہلی بھی کی یعنی خود عدالت نے اس بات کا اعتراف کیاکہ نواز شریف کو ناجائز سزا دی گئی۔اب ظاہر ہے جب پانامہ ایک ڈرامہ تھا تو جو کیسز اس بنیاد پر بنائے گئے تھے ان کا ختم ہونا فطری تھا۔نواز شریف پر تین بڑے ریفرنسز بنائے گئے جن میں سے ایک ریفرنس ایون فیلڈ کا تھا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ شریف خاندان کے پاس نوے کی دہائی سے سینٹرل لندن میں چار فلیٹس ہیں۔ یہ الزام عائد کیا گیا تھاکہ یہ فلیٹس غیر قانونی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بنائے گئے تھے۔ لیکن شریف فیملی ان الزامات کی تردید کرتی رہی۔ اس مقدمے میں مریم نواز کو بری کیا گیا کیونکہ الزام ثابت نہ ہوسکا ‘جس کے بعد یہ صاف نظرآرہا تھا کہ نواز شریف کے خلاف بھی یہ کیس زیادہ دیر نہیں چل سکے گااور ایسا ہی ہوا۔پھر اسی طرح العزیزیہ کیس میں بھی نواز شریف کوہائی کورٹ نے بری کر دیا۔ عدالت کے مطابق نیب اس کیس کا نوازشریف کے ساتھ تعلق جوڑنے میں ہی ناکام رہا۔اس مقدمہ کا مختصرجائزہ لیں تو درحقیقت احتساب عدالت میں دائر کردہ ریفرنس کے مطابق العزیزیہ سٹیل ملز سعودی عرب میں 2001ء میں جلاوطنی کے دوران نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی‘ جس کے بعد 2005ء میں ہل میٹل کمپنی قائم کی گئی۔نیب نے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ سٹیل ملز اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے‘ جبکہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے اور بطور کمپنی عہدیدار تنخواہ بھی حاصل کی اور کمپنی کے نام سے اقامہ بھی ان کے پاس موجود تھا‘لیکن نیب اس کیس کے تمام الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اب نیب ایکسپوز ہورہا ہے اور نواز شریف کی یہ بات درست ثابت ہوئی ہے کہ نیب کے پر واقعی کاٹ دینے چاہئیں‘لیکن جب نواز شریف نے اس وقت نیب کے اختیارات کو محدود کرنے کی بات کی تھی تو انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ناقدین یہ بھول رہے ہیں کہ یہ نواز شریف ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے احتساب کمیشن بنایا تھا جس کے سربراہ سیف الرحمن ہوا کرتے تھے‘لیکن بعد میں احتساب کمیشن کو مشرف نے نیب میں بدل دیا‘جس کامقصد مخالفین کے خلاف انتقام کی آڑ میں مقدمات بنانا تھا۔نواز شریف اب قانونی طور پر سرخرو ہوچکے ہیں جس کے بعد اب ان کی عملی سیاست میں واپسی ممکن نظر آرہی ہے‘لیکن اب بھی کچھ قانونی ماہرین نوازشریف کی نا اہلی کی مدت کے حوالے سے سوال اٹھا رہے ہیں‘لیکن اب سپریم کورٹ نے اس معاملے کا بھی نوٹس لے لیا ہے ۔سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اورالیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن‘ اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کردیے اور بینچ کی تشکیل کا معاملہ تین رکنی ججز کمیٹی کوبھجوا دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ججز کمیٹی طے کرے گی کہ فُل بینچ پانچ رکنی ہوگا یا سات رکنی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کی سزا ختم ہوجائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ تاحیات نااہلی کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اورالیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی پانچ سال ہے تو نماز نہ پڑھنے یاجھوٹ بولنے والے کی تاحیات نااہلی کیوں ؟ اب لگ رہا ہے کہ نا اہلی کی سزا پانچ سال ہی مقرر ہوگی۔ بہرحال سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گالیکن وقت نے یہ ضرور ثابت کردیا ہے کہ میاں نواز شریف کی مدبر سوچ اور سیاست نے انہیں ایک بار پھر مشکل سے نکال دیاہے۔ نواز شریف کی سیاسی چالیں اوربیانیے نے ہمیشہ ان کے مخالفین کو پریشان کیا لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ نواز شریف کے سیاسی رفقابھی ان کی سیاسی پالیسیوں سے خوش رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے ساتھ بڑے بڑے نام آج بھی کھڑے ہیں۔خواجہ آصف‘احسن اقبال‘ خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ سمیت دیگر رہنماؤں نے نیب کی ناجائزصعوبتوں کو برداشت کیا لیکن انہوں نے نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس کے برعکس بانی پی ٹی آئی پر پہلی بار مشکل وقت آیا تو ان کے اہم ساتھی ایک ایک کرکے ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔نواز شریف پر تویہ وقت تین بار آیا لیکن سخت طوفان کبھی بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکا۔