الیکشن کی آمد آمد ہے لیکن انتخابی ماحول اس طرح سے بنتا دکھائی نہیں دے رہا جیسا کہ انتخابات پر عموماً نظر آتا ہے۔ گونج اس وقت ایک ہی ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ دی جائے اور یہ مطالبہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ بلّے کا نشان واپس لیے جانے کے بعد تحریک انصاف وہی وتیرہ اپنا رہی ہے جو وہ ہمیشہ اپناتی رہی ہے۔ اداروں پر تنقید کرنا پی ٹی آئی کا پرانا طرزِ سیاست ہے اور اب سوشل میڈیا پر عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قانون کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے میرٹ پر فیصلہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں کہا ہے کہ واضح نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے ہیں۔ سب سے اہم ریمارکس یہ تھے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ13 دیگر جماعتوں کے انتخابی نشان بھی واپس لیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے‘ یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کو بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ الیکشن کہاں ہو رہے ہیں۔
تحریک انصاف کا الیکشن کمیشن کو جانبدار قرار دینا بہت آسان ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ تحریک انصاف سپریم کورٹ میں اپنے مؤقف کا دفاع ہی نہیں کر سکی۔ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم عدالت میں لایعنی دلائل دیتی نظر آئی۔ یہ بات درست ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے پہلے ہی ذہن بنا لیا تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف کا عہدہ بیرسٹر گوہر خان کو دینا ہے۔ اکبر ایس بابر یہی تو شکایت کر رہے تھے کہ وہ اس عہدے پر انتخاب لڑنا چاہتے تھے لیکن انہیں ایسا نہ کرنے دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے کئی کارکنوں کو یہ علم تک نہیں تھا کہ پارٹی انتخابات کہاں ہوئے۔ بیرسٹر علی ظفر کہتے ہیں کہ بیرسٹر گوہرکے مقابلے میں کوئی امیدوار نہیں تھا‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اکبر ایس بابر اگر پارٹی کے رکن نہیں تو ان کو فارغ کرنے کا کوئی نوٹیفکیشن کیوں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ بیرسٹر علی ظفر نے تو عدالت کو بتایا کہ اگراکبر ایس بابر ہمیں پینل دیتے تو ہم اس پر غور کرتے۔ اس کا مطلب ہے کہ اکبر ایس بابر اب بھی تحریک انصاف کے رکن ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے بالکل درست کہا کہ پی ٹی آئی میں لوگ الیکشن سے نہیں‘ سلیکشن سے آئے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ بلے کے انتخابی نشان کیلئے سماعت کے دوران ہی تحریک انصاف نے پلان بی پر عمل کر لیا جب اس نے اپنے قومی و صوبائی امیدواروں کو پی ٹی آئی نظریاتی کے ٹکٹس جاری کر دیے۔ تحریک انصاف کا بلے باز کے نشان پر اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنا بھی اس بات کا ثبوت تھا کہ اندر ہی اندر تحریک انصاف کے وکلا کو بھی پتہ تھا کہ وہ غلط بات کا دفاع کر رہے ہیں اس لیے وہ بلے کا نشان حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے انہوں نے متبادل تلاش کرنا شروع کر دیا۔ لیکن پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین اختر اقبال ڈار نے واضح کر دیا کہ ان کا ایسا کوئی معاہدہ تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہوا۔ بقول اختر اقبال ڈار پی ٹی آئی کے رہنما کرپٹ ہیں جن سے ہاتھ نہیں ملایا جا سکتا۔ یعنی وہ تو انکار کر رہے تھے لیکن پھر پی ٹی آئی مبینہ معاہدہ لے آئی جس میں یہ ذکر تھا کہ پی ٹی آئی نظریاتی پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے پر راضی ہے۔ ممکن ہے یہ معاملہ مزید آگے بڑھا تو پی ٹی آئی کے ان امیدواروں پر فراڈ کے مقدمے بھی بن سکتے ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی نظریاتی کے ٹکٹس جمع کروائے۔ مختصر یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی تقریباً تقریباً انتخابات کی دوڑ سے باہر ہو چکی ہے۔ بانی پی ٹی آئی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات پر ہی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب بانی پی ٹی آئی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ مذاکرات کر سکیں۔ جب مذاکرات کا وقت تھا تب وہ اداروں کو ٹارگٹ کرتے رہے۔ اب بھی ان کی جماعت الزام تراشی اور اداروں کی ساکھ خراب کرنے سے باز نہیں آ رہی۔ اگر انتخابی نشان کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آجاتا تو اُن کے نزدیک عدلیہ کا بول بالا ہو جاتا۔ انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد تحریک انصاف اب یہ بیانیہ بنا رہی ہے کہ عدلیہ اور مقتدرہ کا گٹھ جوڑ ہے۔ صرف یہی نہیں سوشل میڈیا پر معزز جج صاحبان کے خلاف تضحیک آمیز پوسٹس شیئر کی جا رہی ہیں۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ عدلیہ کو اینٹی پی ٹی آئی ثابت کرکے اپنا بیانیہ بنا کر پی ٹی آئی الیکشن لڑ سکے۔
واقفانِ حال کے مطابق سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چل رہی ہے جس میں سپریم کورٹ اور معزز جج صاحبان کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر پی ٹی آئی بطور جماعت آج الیکشن نہیں لڑ پا رہی یا کل کو حکومت نہیں بنا سکے گی تو اُس کی ذمہ دار عدلیہ ہے۔ یہ مہم الیکشن تک جاری رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس بیانیے سے پی ٹی آئی الیکشن جیت سکتی ہے؟ نہیں‘ اس کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں انتخابی نشان بلّے کی واپسی کیلئے ایک نظر ثانی درخواست دائر کرنا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے اس بینچ میں وہ جج صاحبان شامل نہیں ہوں گے جو پہلے متعلقہ کیس سن چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ اس سے پہلے ہی اتنی منفی مہم چلائی جائے کہ بلے کا انتخابی نشان واپس کرنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہ بچے۔ ممکن ہے کہ نظر ثانی درخواست پر سماعت کرنے والا بینچ پی ٹی آئی ٹرولنگ سے بچنے کیلئے بّلے کا انتخابی نشان بحال کر دے۔
دوسری طرف عدلیہ کے خلاف کردار کشی مہم پر سپریم کورٹ بار کا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا ہے کہ مرضی کے خلاف فیصلہ آنے پرعدلیہ کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے‘ عدلیہ کے خلاف مہم قابلِ مذمت ہے۔ اداروں اور ججز پر تنقید کرنے کی روش کو ترک کرنا ہو گا۔ اب معزز جج صاحبان کے خلاف سوشل میڈیا پرمہم چلانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے وفاقی حکومت نے کردارکشی مہم چلانے والوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے جے آئی ٹی بنا دی ہے۔ججوں کے خلاف کردار کشی مہم کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہوں گے۔ یہ ٹیم ججوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد اپ لوڈ کرنے والوں کی نشاندہی کرے گی۔ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائبر کرائم وِنگ ایف آئی اے کمیٹی کے کنوینیرہوں گے۔ کمیٹی میں گریڈ 20 کے آئی بی اور آئی ایس آئی کا رکن بھی شامل ہو گا۔ کمیٹی میں اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی بھی شامل ہیں۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کا نمائندہ بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوگا۔یہ کمیٹی ججوں اور عدلیہ کے متعلق پوسٹ کیے جانے اور پھیلائے جانے والے مواد کی سکیننگ کرکے ایسے مواد کو پوسٹ کرنے اور پھیلانے کی مہم میں ملوث ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔ کمیٹی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تجاویزبھی مرتب کرے گی۔پی ٹی آئی ایک طرف عدلیہ سے انصاف بھی مانگتی ہے اور دوسری جانب کردار کشی بھی کرتی ہے۔پی ٹی آئی کے وکلا نے کیس درست طریقے سے لڑا نہیں اور اپنی ناکامی کا ملبہ عدلیہ پرڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش شروع کردی۔ایسا کرنے والوں کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں اور عدلیہ کو تضحیک کا نشانہ بنانا بند کریں اور حقیقت پسندی سے کام لیں۔