8 فروری پولنگ ڈے ہے اور ملک میں انتخابی مہم ابھی تک پھیکی ہے۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ملک بھر میں دورے کرکے انتخابی ماحول گرمانے کی کوشش میں ہیں ‘سابق وزیر اعظم عمران خان کے پابند سلاسل ہونے اور اُن کی پارٹی سے انتخابی نشان بلا چھن جانے کی وجہ سے تحریک انصاف کی الیکشن مہم اب انفرادی مہم تک محدود ہے‘مسلم لیگ (ن) کی قیادت پہلے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کو لے کر ماڈل ٹاؤن تک محدود رہی پھر انتخابی منشور اور بیانیہ کی تیاری باقاعدہ مہم میں رکاوٹ بنی‘منشور تو خیر اب تک منظر عام پر نہیں آیا لیکن اکا دُکا جلسے کئے گئے ہیں۔نواز شریف نے اپنے پہلے انتخابی جلسے میں چند کلمات کہنے کے بعد سٹیج مریم نواز کے حوالے کردیا اور اب ذاتی مصروفیات کی بنا پر جلسوں کاشیڈول معطل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اب لاہور شہر میں انتخابی ریلیاں نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔عوام اور سیاسی مبصرین حیران ہیں کہ مسلم لیگ( ن) کی حکمت عملی کیا ہے؟کچھ لوگ اس سست روی یا بے اعتنائی کو الیکشن کے متعلق بے یقینی سے بھی جوڑ رہے ہیں۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ایک ایسے وقت میں وطن واپس آئے ہیں جب پاکستان سیاسی اور معاشی حوالے سے گمبھیر صورتحال سے دوچار تھا۔یہی نہیں ملک میں موجودسیاسی قیادت‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔اس وقت ہم اگر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی طرزِ سیاست پر بات کریں تو مجھے یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ اس میں نواز شریف والا رنگ دیکھنے کو نہیں مل رہا۔مسلم لیگ( ن) کے متوالے اپنے قائد سے بہت سی توقعات رکھتے ہیں‘وہ اپنے لیڈر کے منہ سے اپنی مشکلات کے حل کے بارے سننا چاہتے ہیں‘وہ پاکستان کے سنہری مستقبل کا پلان جاننا چاہتے ہیں‘وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اُن کا لیڈر مسائل میں گھرے عوام کوریلیف دینے کیلئے کیا پلان لے کر آیا ہے؟لیکن یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ اُن کا لیڈر ابھی تک ماضی کے گرداب سے نہیں نکل پایا۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ماضی میں جب بھی نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے ‘اُن کی حکومت نے ڈیلیور کیا‘لیکن یہ بات سچ ہے کہ ماضی میں آج جیسے حالات کبھی نہ تھے۔ایک عام پاکستانی کیلئے آج صورتحال بہت مشکل ہے۔آج وہ نوازشریف سے کچھ ایسی بات سننا چاہتے ہیں جو ان کے دکھوں اور غموں کا مداوا کر سکے۔مسلم لیگ (ن) کے ووٹر اورملک میں بسنے والے خاموش ووٹرز کی ایک بڑی تعداد بھی یہ جاننا چاہتی ہے کہ اب کی بار نوازسرکار بن گئی تو ملک کو اس بھنور سے نکالنے کیلئے کیا اقدامات کرے گی؟ایسے میں جب آپ اپنے جلسے ملتوی کردیں گے یا مختصر سی تقریر کرکے مائیک اپنی صاحبزادی کے حوالے کردیں گے تو چہ میگوئیاں تو پھر ہوں گی۔ مسلم لیگ (ن) کا لیڈر میاں نواز شریف ہے۔مسلم لیگ (ن)کے ووٹر میاں شہباز شریف ‘مریم نواز اور حمزہ شہباز سے کتنی بھی محبت کیوں نہ کرتے ہوں ان کو تسلی نواز شریف کے منہ سے نکلی ہوئی بات سن کر ہی ہوتی ہے۔ نواز شریف صاحب آپ کو آج پاکستان کے عوام کو بالعموم اور اپنی پارٹی کے حامیوں کو بالخصوص یہ راستہ دکھانا ہوگا۔ یہ بتانا ہوگا کہ عوام کو اس مہنگائی سے نکالنے اور ملک میں معاشی بحالی اور ترقی کا عمل شروع کرنے کیلئے آپ کے پاس کیا فارمولا ہے؟
مسلم لیگ (ن) کے منشور کی بات کریں تو پہلے 15 جنوری کو منشور پیش کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن اس کے بعد دو مزید تاریخیں دی گئی اور اب کہا جارہا ہے کہ 27 جنوری کو انتخابی منشور پیش کیا جائے گا۔ ماضی میں انتخابات کے موقع پر ایک ماہ پہلے ہی الیکشن کیمپین اپنے عروج پرہوتی تھی لیکن اس دفعہ انتخابات کے حوالے سے روایتی گہما گہمی نظرنہیں آرہی۔ اب آخرکار پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ ضرورمیدان میں آئی ہے اور شاید آنے والے ایک ہفتے کے اندر یہ ماحول بن بھی جائے‘ میرے نزدیک یہ بات بھی بہت تشویشناک ہے کہ ماضی میں ہونے والے انتخابات کے برعکس اس بار پاکستان کے عوام میں بھی وہ تحرک موجود نہیں جو ہمیشہ پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ اور سیاسی پارٹیز کے حوالے سے ہوتا ہے اور لوگ اس تحریک کا حصہ بنتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال کی حکومتوں کے اندرپاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں موجود تھیں لیکن پانچ سال کے اندرلوگوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی‘ بے روز گاری‘ غربت انتہا کو پہنچی ہے۔ نواز شریف یا دیگرسیاسی لیڈر شپ پاکستان کے عوام کے ان مسائل کا سدباب کرپائیں گے؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی سیاست دیکھی جائے اور شریف خاندان کی حکمت عملی پر نظر دہرائی جائے تو وہاں پر فیصلہ کن کردار ہمیشہ نواز شریف صاحب کا ہوتا ہے اور میں نواز شریف کی آمد کے بعد مسلسل یہ لکھ رہا ہوں کہ اس بار بھی اپنی جماعت میں نواز شریف کی ہی فیصلہ کن حیثیت ہوگی۔ میں ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتالیکن میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان مسلم لیگ( ن) کو اکثریت ملتی ہے تو وزیراعظم کی نامزدگی کا اختیار بھی نوازشریف کے پاس ہوگا۔آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں بھی مسلم لیگ (ن ) کے دو وزیر اعظم کی نامزدگی بھی انہوں نے کی تھی۔آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد وہ خود وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے یا ایک بار پھر وہ اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم نامزد کرتے ہیں‘یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ واقفان حال کے مطابق میاں نواز شریف نے طاقتور حلقوں کوکافی حد تک رام کرلیا ہے۔
اگر ٹکٹوں کی تقسیم کی بات کی جائے (ن )لیگ کے اندر سے تو بہت بعد میں آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں‘شریف خاندان کے اندر سے تنقید کا آغاز پہلے ہی ہوچکا تھا۔لاہور سمیت پنجاب کے حلقوں میں ان امیدواروں کو نظر انداز کیا گیا جو حمزہ شہبازکے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ حمزہ شہباز نے ہر مشکل وقت میں پارٹی کو سنبھالا اور کارکنوں کو جوڑ کر رکھا۔اس صورتحال پر انہوں نے پارلیمانی بورڈز اورپارٹی اجلاسوں میں کئی بار آواز بھی اٹھائی لیکن حتمی فہرستیں سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ تنقیدی آواز بھی فیصلے تبدیل نہیں کراسکی۔ حمزہ شہباز نے ایک اجلاس میں پارٹی کے سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی میں کام کرنے والے لوگوں کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے‘خاموشی کی ایک زبان ہوتی ہے‘ لیکن اس کو کوئی سننے اور سمجھنے والا نہیں ہے‘جن لوگوں نے مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دیا‘ تشدد برداشت کیا اُن کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں‘نئے لوگوں کو سامنے لاکر کھڑا کردیا گیا ہے تو پرانے وفادارورکرز کا اب کیا ہوگا؟ 28 دسمبر کو انہوں نے ایک بارپھر اپنا مؤقف پیش کیاکہ پارٹی کیلئے تکلیفیں برداشت کرنے والے ورکرزہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔