پچھلے دو تین روز سے مرزا غالب بہت یاد آ رہے ہیں۔
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اور یاد آنے کا سبب ہے سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک حالیہ فیصلہ‘ جس میں کہا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں چلنے والے مقدمے اور سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ 2011ء میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی طرف سے ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا جس میں عدالت سے سوالات کیے گئے تھے کہ آیا وہ اس تاریخی غلطی کو‘ جس کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دی گئی تھی‘ درست کر سکتی ہے یا نہیں؟ ریفرنس میں عدالت سے اس کے علاوہ بھی کئی سوالات پر رہنمائی مانگی گئی تھی۔ عدالت نے اس معاملے میں عدالتی غلطی تسلیم کی‘ جو یقینا ایک بڑی بات ہے۔ غلطی بہت کم تسلیم کرتے ہیں۔ ایسے میں سپریم کورٹ نے جس اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ جو کچھ ہو چکا‘ ہو چکا‘ وقت کا پہیہ کسی طور پیچھے کی طرف نہیں گھمایا جا سکتا۔ بھٹو صاحب جا چکے‘ ان کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے والے زیادہ تر کردار بھی دنیا سے رخصت ہو چکے‘ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا‘ اس لیے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ذمہ داران کو سزائیں ملنی چاہئیں کہ ان میں سے زیادہ تر اپنے نامہ ہائے اعمال کے ساتھ پروردگارِ عالم کے حضور پیش ہو چکے‘ لیکن یہ کہہ دینا کہ ہاں ہم سے غلطی ہوئی‘ واقعی بڑے حوصلے کا کام ہے۔ ماضی کے مذکورہ افسوسناک ایپی سوڈ کے بعد یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے حوصلہ دکھایا اور اپنی غلطی تسلیم کی۔
اب اس فیصلے پر حسبِ معمول اور حسبِ توقع مختلف نوعیت کی آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس سزائے موت کو غیرقانونی‘ غیرآئینی اور انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دینا ہی کافی نہیں تمام ذمہ داروں کو سزائیں ملنی چاہئیں تھیں۔ وکلا بھی اس فیصلے پر منقسم آرا رکھتے ہیں۔ وکلا برادری کے ایک حصے کا کہنا ہے کہ غلطیوں کا اصل ازالہ حال میں غلطیاں نہ کرنا ہے جبکہ دوسرے حصے کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ ماضی کی ایک غلطی کو درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘ لیکن حال میں جو خطرناک غلطیاں ہو رہی ہیں ان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ عوام کی جانب سے بھی اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق متفرق آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یاد آیا‘ یہ پہلا موقع نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت پر افسوس اور معذرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان (اور سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کی اپیل کے مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ رہنے والے) جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے ایک انٹرویو میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے میں ہونے والی سنگین زیادتیوں کا اعتراف کیا تھا۔ جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ مقدمے کی سماعت کرنے والے سات رکنی بینچ کے ان چار ججوں میں شامل تھے جنہوں نے تین ججوں کی جانب سے بھٹو صاحب کو بری کرنے کی رائے کے برعکس ان کی سزائے موت کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ نسیم حسن شاہ نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں ججوں پر دباؤ تھا‘ جس کے تحت انہیں پھانسی کی سزا دی گئی۔ اس انٹرویو میں جسٹس (ر)نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں اپنی نوکری بچانا تھی‘ اگر وہ سزا نہ دیتے تو ان کی نوکری جا سکتی تھی۔
کیا ان کے اس انٹرویو سے یہ دو باتیں‘ دو نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں؟ پہلا یہ کہ ضروری نہیں کہ کوئی جج ہر بار انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہو۔ بعض اوقات وہ اپنی جان یا اپنی نوکری بچانے کے لیے بھی فیصلہ دے سکتا ہے چاہے اس فیصلے کے نتیجے میں کسی کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ دوسرا یہ کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بجائے کوئی جج دباؤ میں بھی آ سکتا ہے اور اس دباؤ کے تحت غلط فیصلے بھی کر سکتا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر عدالتِ عظمیٰ کا جج دباؤ میں آ سکتا ہے تو پھر کوئی عام فرد‘ جس کے نزدیک انصاف کے حصول کے لیے جج سے بڑھ کر کوئی فگر نہیں ہو سکتا‘ کیا کرے؟ انصاف ڈھونڈ نے کہاں جائے؟ جب میں نے جسٹس (ر)نسیم حسن شاہ کا مذکورہ انٹرویو دیکھا اور بعد میں اس کی تفصیلات پڑھیں تو اس وقت‘ اور اب بھی جب سپریم کورٹ کا اس ایشو پر نیا فیصلہ آیا ہے‘ میرے ذہن میں قرآن پاک کا قولِ فیصل آ جاتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا‘ اس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی‘ اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔بات پھر وہی کہ جنہوں نے یہ سب کیا‘ ان میں سے زیادہ تر اپنے اعمال لے کر سب سے بڑی عدالت میں حاضر ہو چکے۔ ان کے فیصلے اب وہیں ہوں گے‘ لیکن افسوس ہوتا ہے جب یہ سنتا ہوں کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ میرے خیال میں ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا معاملہ محض ان کرداروں اور ان کو دنیا میں یا روزِ قیامت ملنے والی سزاؤں تک محدود نہیں ہے‘ اس ایک غلط فیصلے سے پاکستان ایسا ڈی ٹریک ہوا کہ اب تک سنبھل نہیں پایا۔ آج بھی ہم بحیثیتِ قوم بہت سے معاملات کے جو بھگتان بھگت رہے ہیں وہ اسی دور میں کیے گئے غلط فیصلوں کا شاخسانہ ہیں۔ پاکستان کے ڈی ٹریک ہونے سے جو مسائل پیدا ہوئے ان کی ذمہ داری بھی یہ فیصلہ کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بھٹو صاحب کو اگر ناحق پھانسی نہ دی جاتی اور چند سال مزید ملک کا اقتدار اُن کے ہاتھوں میں رہتا تو آج ہمارے ملک ہی نہیں پورے خطے کے حالات مختلف یعنی بہتر ہوتے۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا واحد غلطی نہ تھی جو اس وقت کے منصفوں سے سرزد ہوئی‘ اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ اب ناممکن ہے لیکن ریاستی ادارے اگر یہ عہد کریں کہ ماضی کی تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دوبارہ غلطیاں نہیں کی جائیں گی تو اس طرح کم از کم مستقبل میں معاملات کو درست نہج پر رکھا جا سکے گا۔
اگر تاریخ کو درست کیا ہی جا رہا ہے تو کیا خیال ہے‘ ایک نظر ثانی ''نظریۂ ضرورت‘‘ پر بھی نہیں کر لینی چاہیے کہ اس نظریے نے بھی ملک میں بہت سے معاملات کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر اب بھی درستی نہ کی گئی تو شاید آئندہ بھی کرتا رہے۔