فلسطین کے علاقے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو پانچ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینیوں پر آتش و آہن کی بارش نہ کی ہو۔ چند ہفتے قبل عارضی جنگ بندی ہوئی تھی‘ لیکن پھر جب اسرائیلی بندوقوں نے گولیاں اور لانچرز نے میزائل اُگلنے شروع کیے تو یہ سلسلہ تھمنے میں ہی نہیں آ رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس یک طرفہ جنگ میں اب تک 30ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور کم و بیش 70ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ جو اسرائیل کے اندھا دھند حملوں میں بچ گئے ہیں‘ انہیں خوراک اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی جنگی وحشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پناہ گزین کیمپوں اور امداد کے حصول کے لیے کوشاں فلسطینیوں کو بھی گولیوں اور میزائل حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کیے جا رہے ہیں۔ بعض مسلم ممالک میں کچھ افراد یا تنظیموں نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ کچھ ممالک کی جانب سے رمضان المبارک میں جنگ بندی کی کوششیں کی جا رہی ہیں‘ جن میں انہیں اب تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ کچھ اقوام اور اداروں کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے خوراک‘ پانی اور ادویات کی فراہمی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ اقدامات قابلِ قدر اور قابلِ تحسین ہیں‘ لیکن ضرورت عارضی جنگ بندی کی نہیں بلکہ مستقل طور پر جنگ بند کرانے کی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ عالمی امن کے ذمہ دار افراد اور اداروں کی جانب سے وہ کوششیں نظر نہیں آتیں جو وقت کا تقاضا اور حالات کی ضرورت ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کا کسی بھی طرح کوئی تقابل نہیں بنتا۔ اسرائیل ہائی ٹیک برآمدات والا‘ ایڈوانس ٹیکنالوجی اور سائبر آلات سے مزین دفاعی نظام کا حامل ایک امیر اور ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس کے پاس افواج زیادہ ہیں اور وسائل بھی‘ معیشت نہایت مستحکم ہے کہ اسے امریکہ جیسے ممالک کی جانب سے امداد ملتی ہے اور اس کی اپنی تجارت کا حجم بھی خاصا بڑا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی ہر طرح کے وسائل سے محروم ہیں۔ ان کے وسائل اور زمین پر زیادہ تر اسرائیلی قابض ہیں اور جو رہ گئے ان پر اب قبضہ ہو جائے گا۔ اگر عالمی برادری نے غزہ میں بہنے والے خون اور ہونے والی اموات روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہ کیا تو فلسطینی قوم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے تنازع کو اس نہج تک پہنچانے کی ذمہ دار وہ عالمی طاقتیں ہیں جو اس مسئلے کے مناسب اور جائز حل میں کردار ادا کر سکتی تھیں‘ لیکن انہوں نے یہ کردار ادا نہیں کیا۔ اُلٹا جانب داری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ گزشتہ 75برسوں میں سب نے دیکھا کہ اسرائیل کی بے جا حمایت اور مالی امداد کی جاتی رہی‘ اسے ترقی دی جاتی رہی اور اس کے وسائل میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیل کی قیادت کسی کی کوئی بات‘ کوئی نصیحت‘ کوئی مشورہ سننے کو تیار نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 1948ء میں جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم اور فلسطین کے علاقے میں اسرائیل نامی ریاست کے قیام کے منصوبے کی منظوری دی تھی‘ تو اس منصوبے میں طے کی گئی حدود کے مطابق ہی اسرائیل کو علاقہ تفویض کیا جاتا‘ لیکن ہوا یہ کہ منصوبے کی منظوری دینے کے بعد اسرائیل کو کھلا چھوڑ دیا گیا اور وہ پچھلے 75برسوں سے مسلسل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں مصروف ہے۔ وہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرکے وہاں یہودی بستیاں آباد کر رہا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی عوام پیچھے ہٹتے ہٹتے اور پسپا ہوتے ہوتے ایک طرح سے دیوار کے ساتھ جا لگے ہیں اور ان کے پاس مزید پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ صورتحال کے اس حد تک پیچیدہ اور تشویشناک ہونے کے باوجود زور اس بات پر دیا جا رہا ہے کہ عارضی جنگ بندی ہو جائے‘ جس کے لیے اسرائیل تیار نہیں ہے‘ حتیٰ کہ اس نے رمضان کے مبارک مہینے میں بھی نہتے فلسطینیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے کیونکہ اس وقت اس کا پلڑا بھاری ہے۔ اس نے فلسطینیوں کو ایک طرح سے پچھاڑ دیا ہے اور اب وہ ان کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ غزہ میں ایک انسانی المیہ جاری ہے۔ روزانہ سینکڑوں افراد شہید اور اس سے زیادہ تعداد میں زخمی ہو رہے ہیں۔ انفراسٹرکچر کی تباہی اس پر مستزاد‘ لیکن زور اس بات پر دیا جا رہا ہے کہ عارضی جنگ بندی ہو جائے‘ حالانکہ اقوام متحدہ اور دوسری عالمی طاقتوں کے ہوتے ہوئے نہ تو عارضی جنگ بندی کوئی مسئلہ ہونی چاہیے اور نہ ہی اس جنگ کو مستقل طور پر بند کرنا مشکل ہونا چاہیے‘ تاہم باتیں ہو رہی ہیں‘ بیانات دیے جا رہے ہیں‘ فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا جا رہا ہے لیکن ان کی کسمپرسی ختم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام ہوتا نظر نہیں آتا۔ اگر دنیا کی بڑی طاقتیں اسرائیلی قیادت کو سیدھا کرنا چاہیں تو ایک منٹ میں کر سکتی ہیں کیونکہ اسرائیل عالمی برادری سے الگ کوئی وجود نہیں ہے‘ اسی بین الاقوامی کمیونٹی کا حصہ ہے۔ کیا خیال ہے آج اگر امریکہ اسرائیل کی حمایت بند کر دے اور یورپی یونین اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دے حتیٰ کہ صرف مسلم اُمہ ہی اسرائیل کی اشیا کا استعمال بند کر دے تو کیا اسرائیل کے لیے اپنی معاشی بقا کا کوئی سامان باقی رہ جائے گا؟ لیکن سب مہر بلب ہیں اور تماشا دیکھ رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کی مالی مدد تو کی جا رہی ہے لیکن سیاسی اور اخلاقی مدد کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آتا۔
اقوامِ متحدہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کا مطلب ہے کہ اس ادارے کے پلیٹ فارم سے جو قرارداد منظور ہو جائے وہی دراصل پوری عالمی برادری کی آواز اور سوچ ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس عالمی ادارے کے پلیٹ فارم پر اسرائیل کے جارحانہ عزائم کے خلاف منظور کی گئی قرار دادوں کا اسرائیلی قیادت پر کوئی اثر نہیں ہوتا؟ کیا وجہ ہے کہ اسرائیل کو ان علاقوں تک محدود نہیں رکھا جا سکا جن علاقوں تک ایک اسرائیلی ریاست کے قیام کی منظوری دی گئی تھی؟ کیا وجہ ہے کہ جنہوں نے اوسلو میں دو ریاستی فارمولا منظور کیا تھا‘ وہ اس فارمولے پر عمل درآمد کرانے سے اب تک قاصر ہیں؟ وجہ ہے معاشی اور اقتصادی مفادات۔ جن ملکوں اور قوموں کے اسرائیل کے ساتھ معاشی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہیں وہ ان سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کو مرتے ہوئے تو دیکھ رہے ہیں‘ لیکن ان کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسرائیل کا ہاتھ روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر عالمی بے حسی اسی طرح جاری رہی تو مسئلہ فلسطین پیچیدہ تر ہو جائے گا۔ اس لیے خاموش تماشائی بننے یا محض بیان بازی کے بجائے اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اپنے اپنے اختیارات بروئے کار لانے چاہئیں۔