پنجاب میں نان 20روپے اور سادہ روٹی 16روپے کی کر دی گئی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اگلے روز لاہور میں روٹی اور نان کی قیمتیں چیک کرنے کے لیے ایک تنور پر پہنچ گئے۔ انہوں نے تنور والے سے روٹی کی قیمت اور وزن کے بارے میں دریافت کیا اور اس سے روٹی پکوا کر چیک بھی کی۔ حکومت کے اعلان کے مطابق روٹی کی قیمت اس تنور پر ضرور کم ہوئی ہو گی جس کا دورہ سابق وزیراعظم اور موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب نے مشترکہ طور پر کیالیکن باقی شہروں اور جگہوں پر سادہ روٹی بدستور 20روپے میں فروخت کی جا رہی ہے اور نان اور خمیری روٹی 25یا 30روپے کی۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ حکومت نے روٹی کی قیمت میں کمی کا پورا حساب کتاب کر رکھا ہے‘ 20کلوگرام آٹے کی قیمت میں 500روپے کمی ہوئی‘ گندم کی قیمت کم ہونے پر آٹا مزید سستا کیا جائے گا۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ روٹی کی قیمتوں میں کمی کے فیصلے پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔ دوسری جانب تنور مالکان کا کہنا ہے کہ انہوں نے دکانوں کے کرایے دینا ہوتے ہیں‘ سٹاف کی تنخواہیں ہیں‘ بجلی اور گیس کے بھاری بل ہیں‘ جبکہ آٹا بھی سستا نہیں مل رہا‘ حکومت اگر سستا آٹا اور سستی گیس فراہم کرے تو ہم سستی روٹی اور سستا نان فروخت کریں گے‘ بصورتِ دیگر نہیں۔ اگر بقول وزیر اطلاعات پنجاب سب کچھ کیلکولیٹڈ تھا تو پھر سستی روٹی و نان کے فیصلے پر عمل درآمد کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے تھی‘ لیکن اگر فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ فیصلے کا اعلان کرنے سے پہلے جس مشاورت کی ضرورت تھی‘ جو نہیں کی گئی۔ اب ایک اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر حکومت نے زبردستی روٹی اور نان سستے کرنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ روٹی اور نان کے وزن میں کمی یا پھر آٹے میں ملاوٹ کی صورت میں نکلے گا جس کا نقصان بہرحال عوام ہی کو پہنچے گا۔ میرے خیال میں اگر ناگزیر مشاورت کر لی جاتی تو حکومتی فیصلے کو اس طرح نظر انداز نہ کیا جاتا‘ جس طرح کیا گیا ہے۔
یاد آتا ہے‘ سستی روٹی کی سکیمیں اس سے پہلے بھی شروع کی گئی تھیں اور کامیابی سے چلائی بھی گئی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور (1972-77ء) میں اٹلی سے آٹومیٹک روٹی پلانٹ منگوا کر سستی روٹی پروگرام شروع کیا تھا۔ تب میں بہت چھوٹا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ ایک پلاسٹک کے لفافے میں چار یا پانچ پکی پکائی روٹیاں ہوتی تھیں اور یہ پیکٹ سوا روپے یا ڈیڑھ روپے کا ملتا تھا۔ کوئی شبہ نہیں کہ روٹی کا معیار اعلیٰ ہوتا تھا۔ وہ روٹی چار پانچ دن پُرانی ہونے کے باوجود تازہ رہتی تھی اور توے پر ہلکا سا گھی لگا کر گرم کیا جاتا تو نہایت مزے دار خستہ روٹی کھانے کیلئے تیار ہو جاتی تھی۔ پھر وہی مافیاز حرکت میں آئے جو ہمیشہ سے عوام کے دشمن رہے ہیں اور جنہیں عوام کی سہولت اور ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ان مافیاز نے منظم پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ اس پکی پکائی روٹی میں خاندانی منصوبہ بندی کی دوا شامل کی گئی ہے۔ یوں یہ پلانٹ بند کرا دیا گیا۔ اس کے بعد پتا ہی نہیں چلا کہ اس پلانٹ کا کیا بنا۔ ظاہر ہے پڑا پڑا گل سڑ گیا ہو گا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بھی بحران کا شکار ہو کر بالآخر ختم ہو گئی اور یوں عوامی بہبود کا ایک احسن منصوبہ لپیٹ دیا گیا۔
پرویز مشرف کے طویل بے نامی مارشل لا کے بعد جمہوریت بحال ہوئی‘ وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تو وزیراعلیٰ شہباز شریف نے روٹی سستی کرنے کا اعلان کیا اور اس کی اچھی منصوبہ بندی کی۔ یاد رہے کہ اکتوبر 1999ء میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرکے پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت روٹی کی قیمت دو روپے تھی۔ وزیراعلیٰ بننے پر شہباز شریف نے نعرہ بلند کیا کہ روٹی اسی قیمت پر ملے گی‘ جس قیمت پر ان کی حکومت ختم ہونے سے پہلے مل رہی تھی۔ اگر لوگوں کو آٹا سستا فراہم کیا جاتا تو خدشہ تھا کہ وہ سمگل ہو جاتا یا خورد برد کر لیا جاتا‘ جیسا کہ گزشتہ دو برسوں میں مشاہدے میں آ رہا ہے‘ لیکن پکی پکائی روٹی کو سمگل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی میعاد ایک دو روز ہی ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ بیکار ہو جاتی ہے‘ چنانچہ منصوبہ یہ بنایا گیا کہ تنوروں کو سبسڈائزڈ آٹا فراہم کیا جائے اور وہ کنٹرولڈ نرخوں پر عوام کو پکی پکائی روٹی فراہم کریں گے۔ اس منصوبے پر بھی کامیابی سے عمل درآمد کیا گیا‘ یہ الگ بات کہ عوام مخالف مافیاز اس وقت پھر متحرک ہو گئے تھے کیونکہ ان کے مفادات پر ضرب لگ رہی تھی۔ یہ بھی الگ بات کہ بعد ازاں اس سستی روٹی سکیم میں اربوں روپے خورد برد ہونے کی خبریں بھی آتی رہیں لیکن بہرحال شہباز شریف نے اپنے منصوبے پر کامیابی سے عمل کرکے دکھا دیا۔
اب مریم نواز کا امتحان ہے کہ وہ اپنے سستی روٹی کے منصوبے کو کیسے عملی جامہ پہناتی ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سادہ روٹی چار روپے اور نان و خمیری روٹی پانچ سے دس روپے سستی ملے گی تو مہنگائی کے مارے عوام کے لیے یہ ایک بڑا ریلیف ہو گا۔ روٹی ہر پیٹ کی سب سے پہلی ضرورت ہے۔ باقی کئی چیزوں کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے لیکن روٹی کے بغیر نہیں۔ اس لیے سستی روٹی سکیم ایک اچھی سکیم ہے اگر اس پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہو جائے‘ لیکن سستی روٹی ہی نہیں دوسرے حکومتی فیصلوں پر عمل درآمد بھی اسی وقت شروع ہو گا جب وزیراعلیٰ کی طرح صوبے کے اعلیٰ افسر بھی اپنے ایئر کنڈیشنڈ دفتروں سے نکل کر بازار کا رخ کریں گے‘ اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ عوام کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ دفاتر میں اس لیے بیٹھنا کہ کوئی شکایت آئے گی تو اس کا ازالہ کر دیا جائے گا‘ ورنہ اللہ اللہ خیر سلا‘ تو یہ ایک ایسے ملک میں عوام کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہو سکتا جہاں مافیاز کا راج ہو اور وزرائے اعظم تک شاکی ہوں کہ مافیاز کام نہیں کرنے دیتے۔ کہنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے سستی روٹی والے اور دیگر فیصلوں پر عمل درآمد کرانا چاہتی ہیں تو انہیں تمام اداروں کے سربراہوں کو متحرک کرنا ہو گا۔ محض شکایت ملنے پر ازالہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ قانون کی حکمرانی اس حد تک ہونی چاہیے کہ عوام کو کوئی شکایت ہی نہ ہو۔
ایک اور بات‘ ایک طرف روٹی سستی کی جا رہی ہے لیکن دوسری جانب پٹرول کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں جبکہ سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اناج کو کھیتوں سے منڈیوں‘ گھروں اور فلور ملوں تک پہنچانے کے لیے پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں ہی استعمال ہوتی ہیں۔ اگر آٹے کی ترسیلی لاگت بڑھے گی تو تنور والے سستی روٹی کیسے فراہم کر سکیں گے؟ گیس (قدرتی گیس اور ایل پی جی) کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں بھی تسلسل کے ساتھ سننے میں آ رہی ہیں جبکہ یہ بات بھی سبھی کے علم میں ہے کہ تنوروں پر روٹیاں پکانے کے لیے یہی دو گیسیں استعمال ہوتی ہیں۔ جب گیس کی قیمت بڑھے گی تو سستی روٹی سکیم کو کیسے آگے بڑھایا جا سکے گا؟ بجلی کی قیمتوں میں ہونے والا بار بار کا اتار چڑھاؤ بھی عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں جبکہ تنوروں پر جانے والے سبھی دیکھتے ہیں کہ وہاں بجلی کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ جب بجلی مہنگی ہو گی تو سستی روٹی کہاں سے پیدا کی جا سکے گی؟ اس لیے وفاقی و صوبائی حکومتیں اگر عوام کو سستی روٹی فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں‘ عوام کو حقیقی ریلیف دینا چاہتی ہیں تو توانائی کے نرخوں میں ہونے والے بار بار کے اضافوں کو بھی لگام ڈالنا ہو گی۔