گزشتہ برس نو مئی کو المناک واقعات پیش آئے اور تکلیف دہ سانحات رونما ہوئے تھے۔ آج پھر نو مئی ہے۔ ایک سال بیت گیا۔ اس ایک برس میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نو مئی کے واقعات ہماری قومی تاریخ میں ایک بڑا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے۔ محبِ وطن ہونے اور ذاتی معاملات کو ترجیح دینے کے مابین ایک نئی لکیر کھنچ گئی۔ کسی بھی معاملے میں اپنی پسند‘ ناپسند کا اظہار کرنا ہر شہری اور ہر سیاسی جماعت کا آئینی و قانونی حق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19 آزادیٔ اظہارِ رائے کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے‘ لیکن یہ آرٹیکل ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ آزادیٔ اظہارِ رائے کے پیچھے چھپ کر ملک کی سالمیت‘ سکیورٹی اور دفاع پر وار نہیں کیا جا سکتا‘ ان کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل 19 ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ آزادیٔ اظہارِ رائے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ قوم کی اخلاقیات تباہ کر دیں‘ امنِ عامہ کو داؤ پر لگا دیں‘ اداروں کے وقار کو پامال کر دیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی سب کو ہے‘ لیکن یہ حق لامحدود اور غیرمشروط نہیں‘ محدود اور مشروط ہے۔ شرط یہی ہے کہ احتجاج پُرامن ہو‘ اس کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال پیدا نہ ہو‘ احتجاج کی وجہ سے کسی شہری کو ناحق پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور احتجاج کے شرکا نجی و سرکاری املاک کو کسی قسم کو نقصان نہ پہنچائیں۔ سکیورٹی اور میڈیا کیمروں کی آنکھ اس امر کی گواہ ہے کہ گزشتہ برس آج ہی کے دن ان تمام حدود کو پھلانگا گیا اور آزادیٔ اظہارِ رائے کی شرائط کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس کے بعد وہی کچھ ہونا تھا‘ جو ہوا۔ آئین و قانون کی خلاف ورزیوں پر ریاست زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکتی۔ اسے تو حرکت میں آنا ہی تھا۔ احتجاج دوسرے ممالک میں بھی ہوتے ہیں‘ حتیٰ کہ لاکھوں افراد پر مشتمل اور میلوں طویل ریلیاں نکالی جاتی ہیں‘ اس کے باوجود کہیں سے توڑ پھوڑ‘ جلاؤ گھیراؤ اور ہلڑ بازی کی کوئی اطلاع نہیں آتی۔ ہمیں پتا نہیں کیا ہو جاتا ہے کہ ذاتیات کو آگے لے آتے ہیں اور ریاست کے اجتماعی مفادات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے‘ پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
اس ایک برس میں پی ٹی آئی کے کتنے ہی رہنما پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ انہوں نے دباؤ کے تحت پارٹی کو خیرباد کہا۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارٹی کے ساتھ ان کی Commitment واضح اور دوٹوک نہیں تھی۔ ساتھ تو وہی ہوتا ہے جو ہر طرح کے حالات میں برقرار رہے۔ موضوع اور موقع تو نہیں ہے پھر بھی فلم 'اجنبی‘ کے لیے مہدی حسن کے گائے ہوئے ایک گانے کے بول یاد آتے ہیں:
ساتھ دینا ہے تو زندگی بھر کا دو
دو گھڑی کا سہارا‘ سہارا نہیں
تو وہ جو دو گھڑی کے سہارے تھے‘ ختم ہو گئے‘ ہاں اب تک جو ساتھ ہیں‘ انہیں داد دینا پڑے گی کہ Thick and thin میں حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں‘ لیکن یہ حمایت بھی متزلزل محسوس ہوتی ہے۔ جو وجہ مجھے سمجھ میں آتی ہے‘ یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے جس طرح پارٹی کو متحد رکھا ہوا تھا‘ وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ ماضی کی منظم و متحد پارٹی آج منقسم نظر آتی ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے پارٹی کی موجودہ قیادت کے ساتھ کام نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمر ایوب خان اور شبلی فراز نے انہیں بانی پی ٹی آئی سے ملنے نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو ہر معاملے پر گمراہ کیا گیا‘ مجھے بے توقیری قبول نہیں‘ پارٹی کی آفیشل میڈیا ٹیم میرے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جس ایجنڈے کے لیے نکلے تھے‘ وہ ایجنڈا ختم ہو گیا۔ اگر مان لیا جائے کہ نو مئی کے واقعات کے بعد پارٹی کا ساتھ چھوڑنے والوں نے کسی دباؤ میں آ کر ایسا کیا تھا تو اب جو لوگ پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں‘ ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
ہم نو مئی کی بات کر رہے تھے‘ تو گزشتہ روز آٹھ مئی کو ایک اور واقعہ پیش آ گیا۔ لاہور کے جی پی او چوک پر سول عدالتوں کی منتقلی اور وکلا پر دہشت گردی کے مقدمات کے خلاف وکلا کے احتجاجی مظاہرے پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی جبکہ پاکستان بار کونسل کی جانب سے آج ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وکلا نے احتجاج ختم نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک مطالبات نہیں مانے جاتے‘ احتجاج جاری رہے گا۔ یہ معاملہ آگے جا کر کیا رُخ اختیار کرتا ہے‘ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حالات کو سنبھالا نہ گیا تو صورت حال کشیدہ ہو سکتی ہے۔
اس ساری تمہید کا مقصد قارئین کو اس نکتے پر لانا تھا کہ ملک کو کوئی سمت دی جانی چاہیے۔ ہمیں اپنے اہداف اور منزل کا واضح تعین کرنا ہو گا۔ دو اہداف کا تعین: پہلا یہ کہ ملک کے لیے ٹھیک فیصلے کیے جائیں۔ ایسے فیصلے جن کا خمیازہ بعد میں عوام کو نہ بھگتنا پڑے۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ آزادی کے وقت بھی ہم معاشی لحاظ سے وہیں کھڑے تھے‘ جہاں آج نظر آتے ہیں۔ تب بھی خزانہ خالی تھا اور آج بھی خزانے میں اتنے پیسے نہیں کہ بین الاقوامی تجارت ہی جاری رکھی جا سکے۔ یہ کوئی بات نہیں کہ سر پر قرضوں کا بھاری بوجھ ڈال کر ہمارے حکمران اب بھی عوام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ قربانیاں دیں۔ سو روپے کی چیز سوا سو روپے میں خرید کر‘ ملٹی پل ٹیکسز دے کر‘ چوری کی گئی بجلی اور لائن لاسز کی قیمت چکا کر وہ قربانیاں دے تو رہے ہیں‘ اور کیا کریں؟ دوسرا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ عوام کو ریوڑ میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ انہیں سمجھ بوجھ‘ شعور اور ادراک کی روشنی ملنی چاہیے۔ انہیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔ یہ شعور اور علم کی کمی کا ہی نتیجہ ہے کہ کبھی وہ کسی تحریک کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو جاتے ہیں اور کبھی کسی پارٹی یا سیاسی رہنما کے بیانیے سے۔ انہیں علم ملے گا‘ آگہی نصیب ہو گی تو ہی وہ ملک کے فرض شناس شہری بن سکیں گے۔ جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں یعنی تعلیم حاصل نہیں کر رہے تو دراصل ہم یہ اطلاع دے رہے ہوتے ہیں کہ اس ملک کے اتنے بچے Fragile ہیں یعنی زد پذیر ہیں‘ انہیں کسی بھی طرح کے پروپیگنڈے سے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ ہم نو مئی سے نو مئی تک آ پہنچے ہیں۔ اگلے کسی نو مئی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ پچھلے نو مئی سے کچھ سبق حاصل کیا جائے۔