پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ کی تفصیلی رائے کا خیر مقدم تو کیا‘ لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ تھوڑی تشنگی ابھی باقی ہے‘ سپریم کورٹ کو کہہ دینا چاہیے کہ وہ سزا غلط تھی۔ کراچی میں نیوز کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دلانے میں 40 برس سے زائد کا عرصہ گزر گیا‘ کورٹ ٹرائل ہی درست نہیں تو اس کا فیصلہ بھی سیاہ تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے جمہوریت کے لیے جان دی‘ فل آرڈر کے بعد ان کے لیے ایوارڈ ہونا چاہیے۔ پی پی رہنما نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی ہے جس میں سزا کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ چند روز پہلے سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے تفصیلی رائے جاری کی تھی‘ جس میں کہا گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہِ راست فائدہ ضیاالحق کو ہوا‘ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کر دیا جاتا تو وہ ضیاالحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔ بھٹو کے خلاف جب کیس چلایا گیا اس وقت عدالتوں کی آئینی حیثیت ہی نہیں تھی‘ اس وقت ملک میں مارشل لاء تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کوئی براہِ راست شواہد موجود نہیں تھے‘ شفاف ٹرائل کے بغیر بے گناہ شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔
شازیہ مری نے اپنے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا‘ ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بحیثیت قوم اپنی 77 سالہ زندگی میں ہم سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں‘ جن کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں یا دوسرے لفظوں میں‘ جن کے اثرات سے برسوں گزر جانے کے باوجود ہم باہر نہیں نکل سکے۔ نظامِ عدل نے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں اپنی غلطی کا جس طرح اعتراف کیا‘ وہ سراہے جانے کے قابل ہے لیکن اس زمینی حقیقت سے آنکھیں نہیں پھیری جا سکتیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور اب سوائے پچھتانے کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ حالات کے دھارے کو کوئی بھی واپس نہیں پلٹ سکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جس طرح سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا وہ سب پر واضح ہے‘ اس بارے میں مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ جو گنجائش باقی تھی وہ نظامِ عدل کے اعتراف نہیں پوری کر دی ہے‘ تاہم یہ سوال اہم ہے کہ سیاسی مقدمات کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے اور ان کے فیصلے بھی سامنے آ رہے ہیں‘ لیکن کیا ذوالفقار علی بھٹو جیسے فیصلوں سے بچنے کے لیے بھی کوئی اہتمام کیا گیا ہے یا نہیں؟
دوسری بات یہ کہ ایک سابق وزیراعظم کو انصاف ملنے میں چار دہائیاں لگ گئیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عام آدمی اگر کسی مقدمے میں پھنس جائے تو وہ کن کن اذیتوں سے گزرتا ہو گا۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف پھانسی پانے کے بعد ملا‘ اسی طرح پتا نہیں کتنے بے گناہ ہوں گے جنہوں نے ناکردہ جرائم کی سزا بھگتی ہو گی۔ ملک بھر کی سول کورٹس سے لے کر اعلیٰ ترین عدالتوں تک‘ ہر سطح پر لاکھوں مقدمات سماعت کے منتظر ہیں۔ لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ انصاف کے انتظار میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ سینکڑوں مقدمات ایسے ہیں جن کے فیصلے مدعیوں کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ہوئے۔ سب سے زیادہ تعداد ان شہریوں کی ہے جو جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات جھیلتے جھیلتے زندگی کا زیادہ تر حصہ قید میں گزار دیتے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو مقدمات کی پیشیاں بھگتتے بھگتتے اور وکلا کی فیسیں ادا کرتے کرتے اپنی جائیدادوں سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ مقدمات کی سماعت میں تاخیر کا معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ 'دادا کے زمانے کے مقدمے کا فیصلہ پوتے کے دور میں ہوتا ہے‘ والا طنزیہ فقرہ ایک محاورے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ لیکن اس میں عدلیہ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ مقدمات زیادہ ہیں اور نظامِ عدل کا انفراسٹرکچر چھوٹا اور محدود۔ رہی سہی کسر مقدمات کے تفتیش کنندگان پوری کر دیتے ہیں۔ کبھی مدعی مصروف ہوتا ہے تو کبھی گواہ‘ پھر وکلا بھی مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں تاکہ فیسوں کی صورت میں آمدنی کا سلسلہ چلتا رہے۔ ایسے میں جلد از جلد انصاف کے تقاضے پورے ہوں تو کیسے ہوں؟ ایک پنجابی فلم کا ایک ڈائیلاگ یاد آتا ہے۔ فلم میں ہیرو (سلطان راہی) کا ایک قریبی دوست قتل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے دوست کی لاش لے کر جج کے گھر جاتا ہے اور انصاف کا تقاضا کرتا ہے۔ جج جواب دیتا ہے کہ ابھی عدالت کا وقت نہیں‘ کل آنا۔ اس پر ہیرو کہتا ہے کہ جج صاحب! جرم 24گھنٹے ہوتا ہے لیکن انصاف کے لیے مخصوص اوقات کی بندش‘ ایسا کیوں؟
امسال اپریل میں ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں فیصلوں کے منتظر مقدمات کی تعداد 57 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران زیر التوا مقدمات کی تعداد میں 4500 کے قریب اضافہ ہوا۔ جیلوں میں موجود افراد کی جانب سے دائر 3353 اپیلیں بھی فیصلوں کی منتظر ہیں۔ دستاویزات کے مطابق 15 اپریل تک زیر التوا فوجداری مقدمات کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف باضابطہ سماعت کے لیے منظوری کی منتظر اپیلوں کی تعداد 31 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال مارچ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 52481 تھی جو رواں برس 57 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق اب یہ تعداد 58 ہزار 479 مقدمات سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مقدمات کے اتنے بوجھ تلے کیسے بر وقت اور درست فیصلے ہو سکتے ہیں۔
یہاں برسرِ اقتدار آنے والے ہر حکمران نے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں اور انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کرنے کے وعدے کیے‘ لیکن کسی نے بھی نظامِ عدل میں اصلاحات لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ معاملہ یہ ہے کہ سیاست دانوں سے اپنے سیاسی معاملات ہی خود طے نہیں ہو پاتے جس کی وجہ سے انہیں بار بار عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ عدالتیں سیاسی مقدمات سے فارغ ہوں تو دوسرے زیرِ التوا اہم مقدمات پر توجہ دیں۔ ذاتی پسند‘ ناپسند بھی مقدمات کے جلد فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ طاقتور اپنے مقدمات کے دل خواہ فیصلوں کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس کے لیے وہی مثال دی جا سکتی ہے جو زیرِ غور ہے: ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی مثال۔ اس فیصلے کو اب عدالت غلط قرار دے رہی ہے۔ یہ طے ہے کہ جب تک نظامِ عدل میں اصلاحات نہیں کی جاتیں‘ انصاف کی جلد اور بروقت فراہمی ایک خواب ہی رہے گا۔ انگریزی زبان کے اس محاورے کے معانی و مطالب سے سبھی واقف اور آگاہ ہوں گے کہ ''Justice delayed is justice denied‘‘ تو خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمارے ملک میں انصاف کے تقاضے کتنے پورے ہو رہے ہیں۔
حالات یہ ہیں کہ کینیا کی ایک عدالت نے معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا‘ لیکن یہاں پاکستان میں اس کیس پر کوئی خاص پیش رفت ہمارے مشاہدے میں نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی اس وقت حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اب عدالتی اصلاحات کا ڈول ڈال ہی لیا جائے تاکہ کوئی اور بھٹو کسی کی پسند‘ ناپسند کا شکار نہ ہو جائے۔ کیا عدالتوں کے دو شفٹوں میں کام کرنے کو عدالتی اصلاحات کا حصہ بنایا جا سکتا ہے؟