حیدر علی آتش نے کہا تھا
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ ٔخوں نہ نکلا
لیکن ان دنوں برطانیہ میں جو خنجر زنی ہو رہی ہے‘ اس میں لوگ باقاعدہ لہولہان ہو رہے ہیں اور ہلاک بھی۔ ممکن ہے آپ حیرت و استعجاب کا اظہار کریں کہ برطانیہ اور چاقو زنی کے واقعات؟ اتنے مہذب معاشرے میں ایسے واقعات کیسے رونما ہو سکتے ہیں؟ لیکن یہی حقیقت ہے۔ یقین نہ آئے تو یہ خبر پڑھ لیجیے جس میں بتایا گیا ہے کہ پُر تشدد واقعات نے یورپ کے سب سے بڑے سٹریٹ فیسٹیول میں سے ایک لندن کے نوٹنگ ہل کارنیول (Notting Hill Carnival) کی خوشیوں اور رونقوں کو ماند کر دیا کیونکہ پُرتشدد واقعات میں متعدد شہری چاقو اور خنجروں کے واروں سے زخمی ہو گئے تھے۔ ان واقعات کے بعد سینکڑوں ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس دوران اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ کارنیول میں شرکت کرنے والی ایک 32سالہ خاتون کو بھی چاقو مارا گیا جس کی حالت تشویشناک ہے۔ یاد رہے کہ نوٹنگ ہل کارنیول اگست کے آخری ویک اینڈ پر منایا جاتا ہے اور یہ فیسٹیول کریبین (بحر اوقیانوس کا وہ علاقہ جو جزائر غرب الہند اور وسطی امریکہ کے درمیان واقع ہے) کے علاقے کے لوگوں کے کلچر‘ ثقافت‘ ورثے‘ آرٹس اور سماج کو اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔
برطانیہ میں چاقو زنی کے واقعات کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ ہر سال چاقو زنی کے ہزاروں واقعات رونما ہوتے ہیں‘ جن میں سینکڑوں لوگ زخمی ہو جاتے ہیں اور ان میں سے کئی زندگی سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چاقو زنی کے واقعات برطانوی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا دردِ سر بن چکے ہیں۔ انتظامیہ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس مسئلے کا حل کیا اور کیسے تلاش کیا جائے۔ چاقو یا خنجر زنی کے واقعات کتنی بڑی تعداد میں رونما ہو رہے ہیں‘ اس کا اندازہ ان رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے جو وقتاً فوقتاً برطانوی‘ یورپی اور ایشیائی پریس میں چھپتی یا اَپ لوڈ ہوتی رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ برطانیہ میں دس سالوں میں 40ہزار سے زائد چاقو زنی کی وارداتیں ہوئیں جن میں 730افراد لقمہ اجل بنے۔ برطانیہ میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کمشنر کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 10سے 17برس کی عمر کے 27ہزار بچوں کی شناخت ہوئی جو صرف انگلینڈ میں جرائم پیشہ گروہوں سے وابستہ ہیں۔
برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں رونما ہونے والا سانحہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ جولائی کے آخر میں ساؤتھ پورٹ میں ایک 17سالہ نوجوان کی جانب سے بچوں پر حملے اور ان میں سے تین بچوں کی ہلاکت کے بعد دائیں بازو کے برطانوی عناصر نے پروپیگنڈا کیا تھا کہ حملہ آور مسلمان ہے‘ وہ برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا خواہش مند ہے‘ اور وہ سمندر کے راستے کشتی کے ذریعے غیر قانونی طور پر برطانیہ آیا تھا۔ اس پروپیگنڈ ے کے بعد مختلف شہروں میں مسلمانوں کے خلاف فسادات شروع ہو گئے تھے جو کئی ہفتے جاری رہے۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ اس حوالے سے فیک نیوز اَپ لوڈ کرنے والا ایک پاکستانی فرحان آصف تھا۔ بعد ازاں اسے لاہور سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے 29جولائی کو ہونے والے سانحے کی حقائق سے ہٹ کر خبر اپنے چینل پر پوسٹ کی جس کے نتیجے میں برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف پُر تشدد واقعات رونما ہوئے۔ بعد ازاں‘ 26اگست کو عدالت نے فرحان آصف کے خلاف برطانوی فیک نیوز کیس خارج کرتے ہوئے اسے بری کر دیا۔
برطانیہ میں پُرتشدد واقعات کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کی کچھ امن پسند تنظیمیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے باقاعدہ طور پر متحرک ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ایک برٹش آئرن ورک سینٹر ہے جو اویسٹری‘ شروپ شائر میں کام کرتا ہے۔ اس ادارے نے برطانیہ میں پُر تشدد واقعات خصوصاً خنجر یا چاقو سے حملوں کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے 27 فٹ (8.2میٹر) اونچا ایک مجسمہ تعمیر کیا تھا‘ جسے نائف اینجل کا نام دیا گیا۔ اس مجسمے کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ کم و بیش ایک لاکھ چاقوؤں اور خنجروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ویلڈ کرکے بنایا گیا تھا۔ یہ چاقو اور خنجر وہ تھے جو مجرم شہریوں پر حملوں میں استعمال کرتے رہے تھے۔ خنجر زنوں سے کہا گیا کہ رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال دیں تو ان کو امان دی جائے گی‘ یعنی ان کے خلاف قانون کو حرکت میں نہیں لایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے برطانیہ میں 200نائف بینک قائم کیے گئے تھے۔ بڑی تعداد میں مجرموں نے اپنے ہتھیار ان نائف بینکوں میں جمع کرائے تھے۔ کچھ ہتھیار پولیس ڈپارٹمنٹ سے حاصل کیے گئے۔ یہ وہ ہتھیار تھے جو پولیس مختلف وارداتوں کے بعد گرفتار ہونے والے مجرموں سے برآمد کرتی رہی تھی۔ یہ مجسمہ 2018ء میں مکمل کیا گیا تھا اور اس پر پانچ لاکھ برطانوی پاؤنڈ خرچہ آیا تھا۔ مجسمے کی تکمیل کے بعد اسے پورے ملک کے مختلف شہروں کے دورے کرانے کا پروگرام مرتب کیا گیا اور اب یہ مجسمہ چند ماہ ایک شہر میں ہوتا ہے تو اگلے کچھ مہینے کسی اور شہر میں۔ لیکن اس مجسمے کی تعمیر کے ساتھ جو پیغام دینا مقصود تھا‘ لگتا ہے کہ وہ پورا ڈلیور نہیں ہوا ہے کیونکہ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ ایک فیک نیوز نے پورے برطانیہ کو پُر تشدد ہنگاموں کی نذر کر دیا تھا۔
کیا خیال ہے‘ امن‘ سکون‘ انصاف‘ رواداری اور بقائے باہمی کا پرچار کرنے والا معاشرہ اتنا پُر تشدد کیسے بن گیا؟ میرے ذہن میں اس کی جو وجہ آتی ہے یہ ہے کہ مسلسل جاری رہنے والی بے انصافیاں اور معاشی مسائل کسی بھی فرد یا معاشرے کو پُر تشدد بنا سکتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ برطانیہ میں بچوں کی غربت ایک بڑا اور سلگتا ہوا مسئلہ بنتی جا رہی ہے؟ پینڈل‘ ہائنڈ برن‘ ڈاروِن‘ بلیک برن اور برن لے ایسے برطانوی اضلاع ہیں جو بچوں کی غربت کے حوالے سے سب سے آگے ہیں۔ یہاں کئی گھرانے ایسے ہیں جن کی آمدنی موجودہ اوسط کے 60فیصد سے بھی کم ہے اور غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پینڈل میں 2015ء میں غریب بچوں کی شرح 28.8فیصد تھی جو 2020ء میں بڑھ کر 36.6فیصد ہو چکی تھی۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب 2024ء میں یہ شرح کیا ہو گی۔ اس ایک ضلع کی صورتحال سے دوسرے برطانوی اضلاع میں غریب بچوں کی شرح کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے بھی ذہن پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ جب یہی بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کا ذہنی رجحان کیا ہوتا ہو گا۔ برطانیہ میں سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کے لیے مجسموں کی تعمیر ایک پازیٹو سرگرمی ہے لیکن جب تک غربت کی شرح میں کمی نہیں لائی جاتی‘ اور خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو ہاتھ پکڑ کر یعنی اصلاحی پروگراموں کے ذریعے خطِ افلاس سے اوپر نہیں کھینچا جاتا‘ صورتحال میں تبدیلی ممکن نہ ہو گی۔ یہ آفاقی سچائی برطانیہ کے لیے ہے اور دنیا کے دوسرے تمام ممالک کے لیے بھی۔