اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ دیرینہ اور پیچیدہ ہے اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دراصل بلوچستان کا کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ یہ مختلف مسائل کا مجموعہ ہے جو رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو مسلسل سلگائے ہوئے‘اسے مسلسل بے کل اور بے چین کیے ہوئے ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور کسی طور انکار نہیں کر سکتا کہ یہ صوبہ اور اس کے عوام ترقی اور تعلیم کے لحاظ سے دوسرے صوبوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ماضی میں اس صوبے کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا۔ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے لیکن اس کے وسائل اس کے عوام تک مناسب طریقے سے نہیں پہنچائے گئے۔ اگر قدرتی وسائل میں سے بلوچ عوام کا بقدر حصہ نکالا جاتا اور پھر اسے شفاف انداز سے ان تک پہنچایا جاتا تو آج ان کے حالات یقینا مختلف ہوتے۔
بلوچستان کا رقبہ 3 لاکھ 47 ہزار 190 مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کالگ بھگ 43.6 فیصد بنتا ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 نفوس پر مشتمل ہے۔ اتنے وسیع رقبے پر اتنی کم آبادی کا مطلب ہے کہ آبادیاں دور دور اور چھوٹی چھوٹی ہیں‘ اس لیے وہاں کے رہائشیوں کے لیے طویل سفر کرنا‘ تعلیم حاصل کرنا اور حتیٰ کہ اچھی نوکریاں تلاش کرنا بھی نہایت مشکل ہے۔ رقبے کی وسعت اور آبادی کی کمی بلوچستان کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے‘ لیکن جہاں جہاں جیسی جیسی آبادیاں بھی موجود ہیں‘ گزشتہ 77 برسوں میں یہاں برسر اقتدار آنے والی حکومتیں اگر وہاں وہاں زندگی کی زیادہ نہیں تو صرف بنیادی سہولتیں ہی فراہم کر دیتیں تو آج ہمارے بلوچ عوام کی حالت قدرے مختلف ہو سکتی تھی۔
ڈاکٹر مریم چغتائی کی ایک ریسرچ کے مطابق‘ بلوچستان میں سکولوں کی کل تعداد 12 ہزار 347 ہے اور ان میں سے محض 6 فیصد ہائی سکول ہیں۔ صوبے میں 76 فیصد بچے سرکاری سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں جبکہ 19 فیصد بچے غیر سرکاری (پرائیویٹ) سکولوں اور پانچ فیصد مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سینکڑوں سکول اِس وقت غیر فعال ہیں‘ جو سکول فعال ہیں‘ ان میں سے 37 فیصد سکول محض ایک کمرے پر مشتمل ہیں اور 14 فیصد اساتذہ بغیر سکول جائے‘ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ صوبے میں سکول چھوڑنے والے بچوں کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ چند روز قبل ایک رکن بلوچستان اسمبلی کے سوال پر محکمہ تعلیم نے اپنے تحریری جواب میں بتایا بلوچستان بھر میں 3694 سکول اساتذہ کی قلت کے باعث غیر فعال ہیں۔ فروری میں نئی حکومت کے آنے کے بعد سے 542 سکول بند ہو چکے ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے آبائی شہر ڈیرہ بگٹی میں بھی تعلیمی عملے کی کمی کے باعث 13 سکول بند ہیں جبکہ صوبے کو اس وقت تقریباً 16 ہزار اساتذہ کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ شرحِ خواندگی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بلوچستان میں مردوں میں شرحِ خواندگی37 فیصد ہے جبکہ خواتین میں 15 فیصد پڑھی لکھی ہیں۔ جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح مجموعی طور پر 35 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس شرحِ تعلیم کے ساتھ کتنی ترقی کی جا سکتی ہے۔
بلوچستان کی ترقی میں اس کا صدیوں پرانا سرداری نظام بھی سدِ راہ ہے۔ اس نظام سے مستفید ہونے والوں نے اپنے مفادات کی خاطر عوام کو تعلیم سے محروم رکھا۔ جو بھی سردار اقتدار میں آیا اس نے اپنی صرف اپنی جیب گرم کی اور عوام کو پسماندہ رکھا۔ اگر وقت کے ساتھ بلوچستان میں تعلیم عام کر دی جاتی اور تعلیم وہاں کے عوام کے شعور کو بیدار کرتی تو شاید ایسے مسائل کبھی جنم ہی نہ لیتے جن کا شکار یہ صوبہ اس وقت ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ بلوچستان کے سرداروں کو اس صوبے میں ترقی نہیں چاہیے‘ کیونکہ انہیں خوف لاحق رہتا ہے کہ عوام کی تعلیم اور ترقی ان کے غلبے اور تسلط کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
افواجِ پاکستان کے مجلّے ہلال کے مطابق‘ بلوچستان میں اب تک تقریباً چالیس انتہائی قیمتی زیر زمین معدنیات کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں جو محتاط تخمینوں کے مطابق آئندہ پچاس سے سو برس تک ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان میں تیل‘ گیس‘ سونا‘ تانبا‘ یورینیم‘ کولٹن‘ خام لوہا‘ کوئلہ‘ انٹی مونی‘ کرومائٹ‘ فلورائٹ‘ یاقوت‘ گندھک‘ گریفائٹ‘ چونے کا پتھر‘ کھریا مٹی‘ میگنائٹ‘ سوپ سٹون‘ فاسفیٹ‘ درمیکیولائٹ‘ جپسم‘ ایلومنیم‘ پلاٹینم‘ سلیکاریت‘ سلفر‘ لیتھیم اور اربوں ڈالر کی کئی دوسری قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے عوامی اور معدنی پوٹینشل سے فائدہ اٹھانے اور صوبے اور ملک کو ترقی دینے کی کبھی کوئی ٹھوس اور جامع کوشش ہوئی ہی نہیں۔ اگر کبھی ہوئی بھی تو صوبے کی بیوروکریسی اور سرداری نظام کے گٹھ جوڑ سے تشکیل پانے والی کرپشن کی نذر ہو گئی۔ نومبر 2009ء میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں آغازِ حقوقِ بلوچستان منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا‘ جس کے تحت نہ صرف بلوچستان کے عوام سے ماضی میں نظر انداز کیے جانے پر معافی مانگی گئی بلکہ صوبے کی ترقی کے لیے بھاری رقوم بھی مختص کی گئیں۔ یہی نہیں‘ اس کے بعد بھی کئی بار بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے‘ لیکن کچھ پتا نہیں کہ یہ بھاری رقوم کہاں گئیں کیونکہ نہ تو صوبہ خاطر خواہ ترقی کر سکا اور نہ ہی بلوچ عوام کی زندگی ہی میں کوئی واضح تبدیلی نظر آ سکی۔
مئی 2016ء کے پہلے ہفتے میں یہ خبر اخبارات کی زینت بنی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے گھر کارروائی کے دوران 73 کروڑ روپے سے زائد نوٹ برآمد کیے گئے جس کے بعد بلوچستان حکومت نے انہیں معطل کر دیا۔خبر میں ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ گھر سے ایک لاکر اور نوٹوں سے بھرے 14 بیگ تحویل میں لیے گئے‘ جبکہ نوٹوں کے علاوہ گھر سے کروڑوں روپے مالیت کا سونا‘ پرائز بانڈ اور سیونگ سرٹیفکیٹس بھی برآمد کیے گئے۔ ہم اس تفصیل میں نہیں جاتے کہ اس کیس کا بعد میں کیا نتیجہ نکلا یا کیا فیصلہ ہوا‘ لیکن اس خبر سے یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ یہ صوبہ اب تک ترقی سے دور اور پسماندہ کیوں ہے۔ بلوچستان کی تعلیم سے دوری اور غربت وپسماندگی ہی سمگلنگ کی سب سے بڑی وجہ ہے‘ یہی پسماندگی انتہا پسندی کو بھی جنم دیتی ہے‘ یہی پسماندگی علیحدگی پسندی کے بیج بھی بوتی ہے اور دشمنوں کو تخریبی منصوبوں کی تکمیل کے لیے راستہ بھی فراہم کرتی ہے۔ اس لیے صوبے کے حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے سب سے پہلے اس پسماندگی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
حال ہی میں اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) کے زیر اہتمام 'بلوچستان کے بڑھتے ہوئے سکیورٹی بحران‘ کے عنوان سے منعقد ہ گول میز کانفرنس میں ملک میں استحکام اور صوبہ بلوچستان کی صورتِ حال بہتر بنانے کے لیے بحران کو کم کرنے کے ممکنہ آپشنز پر بات کی گئی۔ ماہرین نے اپنے خطاب میں خبردار کیا کہ حکومت کی جانب سے اختلاف رکھنے والے بلوچوں کے ساتھ معنی خیز مذاکرات میں ناکامی اور تعطل تنازعات کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔ اس دیرینہ تنازع کو مذاکرات کے ذریعے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک اچھی تجویز ہے لیکن یہ مسئلے کا ایک جزوی حل ہے۔ بلوچوں کو تعلیم چاہیے‘ اپنے وسائل پر دسترس چاہیے‘ آگے بڑھنے کے مساوی مواقع چاہئیں۔ یہ سب کچھ مل جائے تو بلوچ عوام کی ترقی کی راہیں خود بخود کھل جائیں گی۔ (جاری)