بات ہو رہی تھی عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کے اپنی آئینی میعاد پوری نہ کر سکنے کی۔ پہلی قانون ساز اسمبلی کو پاکستان کی بھی پہلی اسمبلی قرار دیا جا سکتا ہے۔ 26 جولائی 1947ء کو متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے خصوصی حکم پر پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 10 اگست 1947ء کو کراچی میں سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں ہوا۔ 14 اگست 1947ء تک جاری رہنے والے اس خصوصی اجلاس میں آخری روز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے خطاب کیا تھا اور تاجدارِ برطانیہ کی طرف سے پاکستان کو آزادی کی مبارکباد پیش کی۔ اسی رات یعنی 14 اگست 1947ء کو رات بارہ بجے سرکاری طور پر پاکستان ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا ۔ اس اجلاس میں طے پایا تھا کہ جب تک پاکستان کا مستقل آئین تیار نہیں ہوتا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو بعض ترامیم کے ساتھ پاکستان کے آئین کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ایسا ہوا بھی یعنی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو پاکستان کے عبوری آئین کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا‘ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی سات سال میں آئین سازی میں ناکام رہی۔ بالآخر 24 اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر ملک میں بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی۔
میں سوچتا ہوں کہ ہماری قومی تاریخ کی پہلی چُوک کہیں یہی تو نہیں تھی کہ آئین سازی سات سال میں بھی نہ کی جا سکی اور پھر دستور ساز اسمبلی بغیر کسی دستور سازی کے برخاست کر دی گئی؟ صائب تبریزی سترہویں صدی عیسوی میں فارسی کے ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ اُن کا ایک شعر اس طرح ہے:
خشتِ اول چون نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
یعنی جب معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دے تو اگر دیوار ثریا (آسمان) تک بھی اٹھا لی جائے تو ٹیڑھی ہی ہو گی۔ صائب صاحب کی اس غزل کے باقی شعر بھی معنی خیز اور قابلِ مطالعہ ہیں لیکن یہ محل نہیں اس لیے آگے بڑھتے ہیں۔ میں کہہ رہا تھا کہ کہیں ہماری قومی زندگی کا ٹیڑھا پن اسی مقام سے تو شروع نہیں ہوا کہ دستور ساز اسمبلی کئی برسوں میں بھی آئین مرتب نہیں کر سکی ؟ آئین کے بغیر تو کوئی بھی مملکت شترِ بے مہار بن کے رہ جاتی ہے۔ اس سستی‘ تاخیر‘ لاپروائی اور نااہلی کا ذمہ دار کون تھا‘ اگر اس کا تعین کیا جا سکے تو ممکن ہے قومی سیاست‘ جو فی زمانہ تعطل اور بے یقینی کا شکار ہے‘ کو آگے بڑھنے کا کوئی راستہ مل جائے۔ ہم نے آئین مرتب کرنے میں تاخیر بلکہ نہایت تاخیر کر دی جبکہ بھارت نے اپنے لیے آئین سازی کا کام تقسیمِ ہند سے بھی پہلے سے شروع کر دیا تھا۔ افسوس ہم نے ہندو رہنماؤں کی ان تیاریوں سے بھی کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔ ایک نظر بھارت کی آئین سازی کی تفصیل پر ڈالتے ہیں۔
چھ دسمبر 1946ء کو دستور ساز اسمبلی قائم کی گئی۔نو دسمبر1946ء کو Constitution Hallمیں دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا (یاد رہے کہ ایک الگ وطن کے مطالبے کے تحت مسلم لیگ نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا)۔ 11 دسمبر 1946ء کو راجندر پرشاد کو اس دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا۔ 13 دسمبر 1946ء کو جواہر لال نہرو نے قراردادِ مقاصد پیش کی جس میں بھارتی آئین کے اصول بیان کیے گئے تھے۔ اس قراردادِ مقاصد کو بعد ازاں بھارتی آئین کا دیباچہ بنا دیا گیا۔ 22 جنوری 1947ء کو قراردادِ مقاصد مکمل اتفاقِ رائے سے قبول کر لی گئی۔ 22جولائی 1947ء کو بھارت کے قومی جھنڈے کا انتخاب کیا گیا‘ جبکہ 15 اگست 1947ء کو بھارت کو آزادی ملی۔ 26 نومبر 1949ء کو دستور ساز اسمبلی نے بھارت کا آئین وضع اور منظور کر لیا۔ 24 جنوری1950ء کو بھارتی دستور ساز اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا۔ اسمبلی کے اراکین نے آئین کے مسودے پر دستخط کیے اور اسے منظور کر لیا گیا۔ 26 جنوری 1950ء کو بھارتی آئین نافذ کر دیا گیا۔اس سارے عمل میں دو سال‘ گیارہ ماہ اور اٹھارہ دن لگے۔
چاہے وہ ہندو ہیں یا غیر مسلم انہوں نے پہلے دن پہلی اینٹ سیدھی لگائی اور ان کی جمہوریت کی عمارت آج بھی سیدھی اوپر اٹھتی چلی جا رہی ہے‘ جبکہ ہمارے ہاں ہر آمر اور ہر جمہوریت پسند آئین کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوششوں میں مصروف رہا۔ یہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ بھارت کی بات کی جائے تو بُرا منایا جاتا ہے لیکن اگر دشمن بھی ٹھیک کام کر رہا ہو تو اس کی تعریف کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟ ویسے بھی ایسی باتوں یا ایسی مثالوں کو سبق حاصل کرنے کے لیے بھی تو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میں نے چند روز پہلے اپنے ایک کالم میں جناب آصف جیلانی کے بی بی سی اُردو ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک آرٹیکل سے پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے ایک اقتباس پیش کیا تھا۔ ان کے اسی آرٹیکل سے اسی حوالے سے ایک اور اقتباس پیشِ خدمت ہے‘ جو یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور سیاست پر پہلا وار دستور ساز اسمبلی کی تحلیل تھا۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
''24 اکتوبر 1954ء کو جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی تو اس اقدام پر پورا ملک دم بخود رہ گیا اور سیاستدانوں پر ایسی دہشت طاری ہو گئی کہ سب مفلوج ہو کر رہ گئے۔ یہ دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان تھے جنہوں نے جی داری دکھائی اور ملک غلام محمد کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سندھ چیف کورٹ نے جب مولوی تمیزالدین خان کے حق میں فیصلہ دیا اور دستور ساز اسمبلی کی بحالی اور نئی کابینہ کی منسوخی کا حکم جاری کیا تو ملک بھر میں خوشیاں منائی گئیں اور لوگوں کو جمہوریت کی بقا کے امکانات روشن دکھائی دینے لگے‘ لیکن ان امکانات کو اس وقت زبردست زک پہنچی جب حکومت کی اپیل پر فیڈرل کورٹ نے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ رد کر دیا۔ اس معاملہ میں چیف جسٹس محمد منیر کا جو رول رہا اور انہوں نے جس مصلحت کوشی سے کام لیا اس کو اب بھی ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدہ سے سبکدوش ہوتے وقت جسٹس منیر نے اپنے فیصلے کا یہ کہہ کر دفاع کیا تھا کہ اگر وہ حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے تو ملک میں افراتفری پھیلنے کا خطرہ تھا۔ لیکن غالباً انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے اس فیصلے کے جمہوریت کے مستقبل پر کس قدر مہلک اثرات مرتب ہوں گے اور ملک فوجی آمریت کے ایک ایسے چنگل میں پھنسے گا کہ نکلنا محال ہو جائے گا‘‘۔
اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ ذی شعور لوگوں نے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل اور پھر اس معاملے میں جسٹس منیر کے کردار کے بعد ظاہر کیا تھا۔ دوسری دستور ساز اسمبلی کا اجلاس سات جولائی 1955ء کو ہوا اور اس نے آئین سازی کے اس کام کو آگے بڑھایا جو پہلی دستور ساز اسمبلی کر چکی تھی۔ پاکستان کی دوسری دستور ساز اسمبلی نے 29 فروری 1956ء کو ملک کا پہلا آئین منظور کیا تھا۔ آئین کے مطابق نومبر 1958ء تک ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا تھا لیکن صدر اسکندر مرزا نے فروری 1959ء تک الیکشن مؤخر کر دیے۔ اس دوران محلاتی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا اور ملک میں عام انتخابات سے قبل ہی اسکندر مرزا نے آٹھ اکتوبر 1958ء کو آئین معطل کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ (جاری )