بھارت شروع سے ہی ہمسایہ ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے ہمسایہ ممالک کو دھونس ودباؤ کا نشانہ بنارہا ہے۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم جنوبی ایشیا میں کشیدگی اور عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہیں۔ سری لنکا بھی بھارت کی سیاسی و حربی دست برد سے محفوظ نہ رہا۔ 23جولائی 1983ء کو تامل ٹائیگرز کی جانب سے سری لنکن حکومت کے خلاف ایک بغاوت کا آغاز ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی فنڈنگ بھارت نے کی‘ نہ صرف فنڈنگ کی بلکہ تامل ٹائیگرز کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی بھارت ہی نے فراہم کیا۔ اس بغاوت کا مقصد سری لنکا کے شمال مشرق میں ایک آزاد تامل ریاست قائم کرنا تھا۔ یہ خانہ جنگی 26 سال جاری رہی۔ بالآخر مئی 2009ء میں سری لنکا کی فوج نے تامل ٹائیگرز کو شکست دے دی۔ یوں یہ خانہ جنگی تو ختم ہوگئی لیکن برسوں بلکہ اڑھائی دہائیاں جاری رہنے والی اس خانہ جنگی کی وجہ سے سری لنکا کی آبادی‘ ماحول‘ انفراسٹرکچر‘ معاشرت اور معیشت کو اتنا نقصان پہنچا کہ جن کے اثرات سے یہ ملک ڈیڑھ دہائی گزر جانے کے باوجود نہیں نکل پایا ہے۔ سری لنکا میں 26 سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
30جولائی 1987ء کو سری لنکا میں پیش آنے والا یہ واقعہ اس امر کا ثبوت ہے کہ سری لنکا کے عوام اور فوج بھارت اور اس کے رہنماؤں سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔ اُس روز بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سری لنکا کے صدر جے آر جے وردھنے (Junius Richard Jayewardene) کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد کولمبو میں نیول پریڈ کا معائنہ کر رہے تھے۔ اس معاہدے کا مقصد سری لنکا میں جاری خانہ جنگی کو ختم کرانا تھا اور بھارتی امن فوج (Indian Peace Keeping Force) کو سری لنکا بھیجنا تھا لیکن سری لنکن عوام اور فوج کے کچھ حلقے اس فیصلے سے سخت نالاں تھے۔ پریڈ کے دوران ایک سری لنکن نیوی اہلکار وجامنی وجیتا روہانا (Wijemuni Vijitha Rohanaa) نے اچانک راجیو گاندھی پر حملہ کر دیا۔ اس نے اپنی رائفل کے بٹ سے بھارتی وزیر اعظم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی مگر راجیو گاندھی نے خود کو سنبھال لیا‘ یوں حملہ زیادہ نقصان دہ ثابت نہ ہوا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے فوراً حملہ آور کو قابو میں کر لیا۔ بعد میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ حملہ آور سری لنکن فوج میں بھارتی مداخلت سے سخت ناراض تھا اور اس نے جذبات میں آ کر یہ قدم اٹھایا تھا۔ بھارت سری لنکا کے د اخلی معاملات میں مسلسل مداخلت کررہاتھا اورایک علیحدہ وطن کے نام پر سری لنکا کے خلاف بغاوت کیلئے تامل عوام کو استعمال کرتارہا تھا۔ بھارت نے1987ء میں سری لنکا کو ایک معاہدہ پر مجبور کیا تھا جس کے تحت بھارت نے سری لنکا میں اپنی فوج بھیجی تھی۔ کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے اپنے آلہ کار تامل ٹائیگرز کے لیڈر ویلوپلائی پربھاکرن (Velupillai Prabhakaran) کوسری لنکا میں تباہی کے لیے استعمال کیا۔
یہ واقعہ بھارت اور سری لنکا کے تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ سری لنکن فوج اور عوام کے ایک بڑے حصے نے بھارتی امن فوج کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت کے طور پر دیکھا جبکہ تامل علیحدگی پسندوں نے بھی بھارتی افواج کو اپنی آزادی کے راستے میں رکاوٹ سمجھا۔ بھارتی عوام اور فوج کے یہ خدشات بعد ازاں اُس وقت درست ثابت ہوئے جب بھارت کی امن فوج نے سری لنکا میں تامل علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی کے نام پر انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیاں شروع کیں اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ بھارتی امن فوج کی جانب سے ناپسندیدہ کارروائیاں اتنی زیادہ ہو گئیں کہ سری لنکن عوام نے Indian Peace Keeping Force کو Indian People Killing Force کا نام دے دیا تھا۔ انڈیا کی امن فوج (آئی کے پی ایف) 1987ء میں امن قائم کرنے کے لیے سری لنکا گئی تھی لیکن لبریشن ٹائیگرز آف تمل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے ساتھ جنگ میں اس کے کم از کم 1200 فوجی ہلاک ہو گئے تھے اور ان ہلاکتوں کی وجہ سے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو داخلی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط اور بے جا نہ ہو گا کہ راجیو گاندھی کا قتل بھی ان کی سری لنکا میں غیر ضروری مداخلت کی وجہ سے ہوا۔ 21 مئی 1991ء کو راجیو گاندھی کو شدت پسند تنظیم ایل ٹی ٹی ای کی دھنو نامی ایک خودکش بمبار نے تمل ناڈو کے سریپرمبدور میں ایک انتخابی ریلی کے دوران قتل کر دیا تھا۔ ایل ٹی ٹی ای کی خاتون انتہا پسند دھنو نے راجیو کو پھولوں کا ہار پہنانے کے بعد ان کے پاؤں چھوئے اور جھک کر کمر میں بندھے ہوئے دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا۔ راجیو اور حملہ آور دھنو سمیت 16 لوگوں کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی جب کہ 45 لوگ شدید زخمی ہوئے تھے۔
ان سارے معاملات اور ان ساری مداخلتوں سے بھارتی قائدین نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ اب بھی ان کا پسندیدہ مشغلہ پڑوسی ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا‘ پڑوسی ممالک کو کمزور بنانا اور بھارت میں رونما ہونے والے یا رونما کیے جانے والے دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار بلکہ قصور وار قرار دے کر انہیں بدنام کرنا اور انہیں دہشت گرد ملک ثابت کرنا ہے۔ وہ یہ سمجھنے کے لیے بالکل تیار ہی نہیں ہیں کہ دنیا بدل چکی ہے۔ یہ جدید مواصلات کا زمانہ ہے جب نہ تو کوئی چیز چھپائی جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی فیک چیز پھلائی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری نے پہلگام فالز فلیگ آپریشن کے بعد بھارت کی جانب سے کیے جانے والے واویلے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اور تو اور امریکہ نے بھی بھارت کی جانب سے پہلگام واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینے کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیا میں امن چاہتا ہے اور کسی بھی قسم کی جنگ یا جنگی صورتحال کے خلاف ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پہلگام حملے کے تناظر میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے ٹیلی فونک گفتگو کی۔ جے شنکر نے گفتگو کے دوران حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جسے مارکو روبیو نے مسترد کر دیا اور کہا کہ ہر حال میں جنوبی ایشیا میں امن برقرار رکھا جائے‘ پاکستان کے ساتھ مل کر کشیدگی کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات فوری کیے جائیں۔ میرا نہیں خیال کہ اس کے بعد بھارت کے پاس پہلگام واقعہ کے حوالے سے کوئی بارود باقی رہ گیا ہے جسے وہ چلا کر اپنی ساکھ بچا سکے یعنی اپنی فیس سیونگ کر سکے۔بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو بڑا ثابت کرنے یا کرانے کے چکر میں ایک کے بعد ایک اپنے ہمسایہ ممالک کے حقوق کو پامال کرتا چلا جا رہا ہے اور اس کے ہاتھ نہ تو کوئی بڑائی آئی ہے اور نہ ہی پڑوسیوں کی دوستی۔ ایک حوالے سے دیکھا جائے تو ہندتوا کے ننگے ناچ نے بھارت کو پورے جنوبی ایشیا میں نہ صرف ننگا کردیا ہے بلکہ تنہا بھی کر دیا ہے۔